جرح و تعدیل میں استعمال ہونے والی دو بنیادی اصطلاحات کی وضاحت لیس بالقوی اور لیس بقوی
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینجرح و تعدیل میں استعمال ہونے والی دو بنیادی اصطلاحات کی وضاحت
- لیس بالقوی
- لیس بقوی
تختان دونوں اصطلاحات میں واضح فرق ہے محدثین کرام اکثر ان اصطلاحات کا استعمال کلمات جرح و تعدیل میں کرتے رہتے ہیں اکثر ائمہ ناقدین مثلاً ابو حاتم رازیؒ٬ نسائیؒ٬ دار قطنیؒ وغیرہ ان اصطلاحات کا استعمال رواۃ پر کرتے ہیں لہٰذا وہ حضرات جو علم حدیث سے شگف رکھتے ہیں ان کے لئے انکے معنوں کا جاننا ضروری ہے۔
لیس بالقوی کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کا قوی نہیں ہے حتیٰ کہ یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ لیس بالقوی کی روایت حسن درجے سے کم نہیں ہوتی، اس سے مراد اعلی درجے کی توثیق کی نفی ہے، لیکن لیس بقوی سے مراد یہ ہے کہ یہ بالکل قوی نہیں ہے۔
1: امام دار قطنیؒ 385 ہجری رحمہ اللہ نے فرمایا:
وهو إسناد متصل حسن إلا أن ابن عقيل ليس بالقوي
ترجمہ: یہ سند متصل اور حسن ہے مگر ابنث عقیل بہت زیادہ قوی نہیں ہے۔
(علل الدارقطني: جلد، 1 صفحہ، 129)
غور کریں کہ یہاں امام دار قطنیؒ نے ابنِ عقیلؒ کو لیس بالقوی بھی کہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی سند کو حسن بھی کہا ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی راوی کا لیس بالقوی ہونا اس کے حسن الحدیث ہونے کے منافی نہیں ہے۔
2: اسی طرح امام نسائیؒ کے جرح و تعدیل میں منہج پر لکھی گئی کتاب میں ام القرٰی یونیورسٹی کے شیخ الحدیث دکتور قاسم علی نے کئی مقامات پر یہ تصریح کی ہے اور ائمہ سے نقل کی ہے کہ امام نسائیؒ لیس بالقوی اکثر صدوق حسنؒ الحدیث رواۃ پر بولتے ہیں مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں۔
وقول النسائي ليس بالقوي يستعمله كثيراً في الصدوقين والمقبولين۔
امام نسائی کا قول:
لیس بالقوی اس کو امام نے صدوق اور مقبول رواۃ پر بہت استعمال کیا ہے۔
(منهج الإمام أبي عبد الرحمٰن النسائي في الجرح والتعديل صفحہ، 1954)
3: امام ذهبیؒ متوفی 748 ہجری نے کہا:
ليس بالقوي ليس بجَرْحٍ مُفْسِد
لیس بالقوی فاسد جرح نہیں ہے
(الموقظہ في علم مصطلح الحديث: صفحہ، 82)
4: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ ان دونوں اصطلاحات کی وضاحت فرماتے ہیں:
أقول فرق عظيم بين هذا وبين قولهم ليس بقوي فإنه نفي للقوة أصلا، وهذا نفي لأعلى درجات القوة فلا ينافي القوة بنفسه، وربما يُطلقون هذا اللفظ ومثله على صدوق له أوهام كما قال أبو حاتم عثمان بن الحكم ليس بالمتقن، وقال أبو عمر ليس بالقوي، وقال الحافظ في التقريب، صدوق له أوهام، فاحفظ هذا الفرق النفيس بين المنكر والمعرف باللام، وإن لم تجده من غير، لكنه واضح جدا كما لا يخفى.
ترجمہ: لیس بالقوی اور محدثین کے قول لیس بقوی کے درمیان بڑا فرق ہے ؛ کیوں کہ لیس بقوی یہ قوت کی اصلاً نفی کے لیے آتا ہے اور یہ (لیس بالقوی) قوت کے اعلی درجے کی نفی کے لیے آتا ہے، بالکلیہ قوت کی نفی کے لیے نہیں آتا۔ بسا اوقات نقاد اس لفظ اور اس کے مثل کا اطلاق کرتے ہیں ایسے راوی پر جو صدوق ہو اور اس کے لیے بعض اوہام ہوں۔ عثمان بن الحکم کے بارے میں ابو حاتم نے کہا متقن نہیں اور ابو عمر نے کہا لیس بالقوی اور حافظ ابنِ حجرؒ نے تقریب میں اس کے بارے میں لکھا صدوق لہ اوہام
نکرہ اور معرف باللام کے درمیان اس فرق نفیس کو یاد رکھو اور اگرچہ تم اس کو کسی اور جگہ نہ پاؤ گے، لیکن یہ بالکل واضح بات ہے۔
تعلیقات الإمام احمد رضا خان علی میزان الاعتدال مخطوط صفحہ، 13/14)
5: علامہ عبد الرحمٰن معلمی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
فكلمة ليس بقوي تنفي القوة مطلقاً ۔۔۔ وكلمة ليس بالقوي إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة،
ترجمہ: لیس بقوی کے الفاظ مطلقاً قوت کی نفی کرتے ہیں جبکہ لیس بالقوی کے الفاظ سے کامل درجے کی قوت کی نفی ہوتی ہے۔
(التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل: جلد، 1 صفحہ، 442)
6: محدث علامہ البانیؒ فرماتے ہیں:
وأما الآخر فهو قول أبي حاتم ليس بالقوي: فهذا لا يعني أنه ضعيف لأنه ليس بمعني ليس بقوي، فبين هذا وبين ما قال فرق ظاهر عند أهل العلم
ترجمہ: امام ابو حاتم کے قول لیس بالقوی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہے کیونکہ یہ لیس بقوی کے معنیٰ میں نہیں ہے، اور اہلِ علم کے نزدیک ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔
(النصيحة بالتحذير من تخريب ابن عبد المنان لكتب الأئمة الرجيحة للشیخ الالبانی: صفحہ، 183)
7: مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
مجرد الجرح بکون الراي ليس بالقوي لا ينافي كون حديثه حسناً ان لم يكن صحيحاً
ترجمہ: راوی پر محض لیس بالقوی کی جرح اس کی حدیث کے صحیح نہیں تو کم از کم حسن ہونے کے منافی نہیں ہے۔
(غيث الغمام على حواشي إمام الكلام: جلد، 4 صفحہ، 29)
8: حافظ زبیر علی زئیؒ لکھتے ہیں:
تیسرے یہ کہ لیس بالقوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قوی بھی نہیں ہے، واللہ اعلم۔
(نور العینین: طبع جدید، صفحہ، 38)
ہم نے مختصراً اس تحریر میں ان دو اصطلاحات میں واضح فرق اور محدثین و محققین سے انکے معنیٰ ثابت کئے ۔
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ