ارجاء (اعمال، ایمان میں داخل نہ ہونے) کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریارجاء (اعمال، ایمان میں داخل نہ ہونے) کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟
جواب: فرقہ مرجئہ کے نزدیک ایمان سے مراد صرف اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے (اس میں اعمال داخل نہیں ہیں) جبکہ شیعہ کے نزدیک ایمان سے مراد صرف امام کی معرفت اور محبت ہے۔ اس لیے انہوں نے نبی اکرمﷺ پر الزام لگاتے ہوئے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی برائی نقصان دہ نہیں ہے۔ اور بغضِ علیؓ ایسی برائی ہے جس کی موجودگی میں کوئی نیکی بھی فائدہ مند نہیں ہے۔
(کتاب الفضائل شاذان بن جبرائیل القمی: صفحہ، 95 فی بعض الامام علیؓ کشف الغمہ فی معرفة الائمہ جلد، 1 صفحہ، 123 فی فضل مناقبہ )
نیز آپﷺ کی طرف یہ بھی منسوب کیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: (حالانکہ آپ اس الزام سے بری ہیں )
اگر تمام مخلوق علیؓ بن ابی طالب کی محبت پر جمع ہو جاتی تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتے۔
(کتاب الفضائل: صفحہ، 110 فی بعض الامام علیؓ)
آپﷺ پر افتراء پردازی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کوئی بھی غلام یا باندی ایسے نہیں مرتے جن کے دل میں مثقال کے ایک ذرہ کے برابر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہو گی مگر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے۔
(الأمانی للطوسی: صفحہ، 330 حوالہ، 107 المجلس الحادی عشر بشارة المصطفٰى: صفحہ، 361 حوالہ، 46 كشف الغمة: جلد، 2 صفحہ، 23 فصل فج ذكر مناقب شتى و أحاديث متفرقة)
اور ایک بہتان یہ بھی آپﷺ کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے صرف وہی شخص جنت میں داخل ہو گا جو علیؓ سے محبت کرتا ہو گا۔ اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے جس نے بھی علیؓ سے نفرت کی وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
(علل الشرائع: جلد، 1 صفحہ، 162 حوالہ، 1 باب، 130 العلة التي من أجلها صار علیؓ بن ابي طالب قسيم اللّٰه بين الجنة والنار مختصر بصائر الدرجات: صفحہ، 1485 حوالہ، 576 بحار الأنوار: جلد، 39 صفحہ، 195 حوالہ، 5 باب أنه قسيم الجنة والنار وجواز الصراط)
اسی پر اکتفاء نہیں، بلکہ جو انسان شیعہ سے فقط محبت ہی کرے گا خواہ وہ ان کا دین نہ بھی اختیار کرے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ انہوں نے ایسا ہی ایک افسانہ تراش کر حضرت ابوعبد اللہؒ کی طرف منسوب کیا ہے فرمایا: جو تم سے تمہارے اس عقیدہ کے باوجود محبت کرے وہ جنت میں داخل ہو گا اگرچہ وہ تمہارا عقیدہ نہ بھی رکھتا ہو۔
(فروع الكافی: جلد، 8 صفحہ، 2089 حوالہ، 310 (كتاب الروضة) تهذيب الأحكام: جلد،1 صفحہ، 310 حوالہ، 181 كتاب الطهارة باب تلقين المحتضرين)
تبصره: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَيْسَ بِأَمَانِیكُمْ وَلَا أَمَانِي أَهْلِ الْكِتَبِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءً ایجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدُلَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ لِيَاوَ لَا نَصِيرًا (سورۃ النساء: آیت، 123)
ترجمہ: نہ تمہاری آرزوؤں پر (موقوف ہے) اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا اور وہ اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہ پائے گا۔
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَه وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه(سورۃ الزلزلة: آیت، 78)
لہٰذا جس نے ذرہ بھر بھلائی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔
شیعہ علماء نے اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ پر ایمان لانے اور تمام اسلامی عقائد پر ایمان کو ساقط کر دیا ہے اور شریعتِ اسلام میں صرف امیر المؤمنین علیؓ کی محبت کا عقیدہ باقی رکھا ہے؟ آخر گزشتہ اُمتوں کے لوگوں کا کیا گناہ ہے جنہیں ائمہ کا علم ہی نہ تھا؟ اور اگر محبتِ حضرت علیؓ کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان دہ نہیں ہے تو پھر امام مہدی معصوم کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے شرعی احکامات میں چھوٹ ملتی ہے۔ کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تو گناہ اور معاصی رو جاتے ہیں؟ لیکن جب محبتِ علیؓ ہی کافی ہے تو امام معصوم کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ اور اگر معاملہ شیعہ کے دعوے کے مطابق ہی ہوتا تو پھر نہ رسول بھیجے جاتے، نہ کتابیں نازل کی جاتیں اور نہ مختلف شریعتیں نافذ کی جاتیں۔
(ان سب کی ضرورت ہی نہ رہتی بلکہ صرف حبِ علیؓ پر ایمان ہی کافی ہو جاتا)