Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا شیعہ علماء نے ہدایت الہٰی اور رسولﷺ کی سنت کے بغیر ہی جعلی شعائر اور اعمال گھڑے ہیں؟ اور ان پر ڈھیروں ثواب کی روایات بھی بیان کی ہیں برائے کرم اس کی چند مثالیں بیان کریں اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

کیا شیعہ علماء نے ہدایت الہٰی اور رسولﷺ کی سنت کے بغیر ہی جعلی شعائر اور اعمال گھڑے ہیں؟ اور ان پر ڈھیروں ثواب کی روایات بھی بیان کی ہیں برائے کرم اس کی چند مثالیں بیان کریں اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔

 جواب: جی ہاں! مثال کے طور پر انہوں نے ایسے من گھڑت شعائر اور اعمال بیان کیے ہیں مثلاً سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سیدنا معاویہؓ سیدہ حفصہؓ اور سیده عائشہؓ کو لعنتیں کرنا ہر فرض نماز کے بعد ان پر تبرا کرنا شیعی علماء کے نزدیک افضل ترین عبادات میں سے ہے۔

(فروع الكافی: جلد، 3 صفحہ، 224 كتاب الصلاة حدیث نمبر، 10 باب التصقيب بعد الصلاة وسائل الشيعه: جلد، 4 صفحہ، 599 حدیث نمبر،1 باب استحباب لعن أعداء الدين عقيب الصلاة باسمائهم)

حضرت حسینؓ کے ماتم میں رخسار پیٹنا اور گریبان چاک کرنا ان کے نزدیک عظیم ترین اطاعت کے کام ہیں۔ 

(عقائد الاماميه: جلد، 1 صفحہ، 289 محبت المواكب الحسينية)

 ان کے شیخ آل کاشف الغطاء سے سوال کیا گیا "ہر سال دس محرم کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ و عیال کے قتل کی یاد میں جلوس نکالنا، ماتم، تعزیہ نکالنا آہ و بکا کرنا، رونا پیٹنا اور یا حسین یا حسین پکارتے ہوئے انہیں مدد کے لیے پکارنا اور واویلا کرنے کا کیا حکم ہے اس نے جواب دیا کہ: 

ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ ۞ (سورۃ الحج: آیت نمبر، 32)

ترجمہ: یہی (حکم) ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو بلاشبہ یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔ 

 یقیناً یہ ماتمی جلوس اور قتلِ سیدنا حسینؓ کے غمناک واقع کی ڈرامائی پیشکش فرقہ جعفریہ کے عظیم ترین شعائر میں سے ہے۔  

( الآيات البينات في قمع البدع والضلالات: صفحہ، 5 لمحمد حسين آل كاشف الغطاء)

شیعہ مذہب کے مرجعہ مرزا جواد تبریزی نے کہا ہے: 

اس میں کوئی اشکال نہیں، اور نہ ہی شیعہ امامیہ کے مذہب میں کوئی شک اور اختلاف ہے کہ چہرہ پیٹنا اور سیاہ لباس پہننا اہلِ بیتؓ کے شعائر میں سے ہے جو کہ اس آیت کے مصداق ہے۔

ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ ۞(سورۃ الحج: آیت نمبر، 32)

ترجمہ: یہی حکم ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو بلاشبہ یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

جیسا کہ یہ اہلِ بیتؓ کے مصائب و ماتم پر جزع و گریہ وزاری کی نشانیوں میں سے ہے جس پر بہت ساری نصوص دلالت کرتی ہیں۔ جو کوئی یہ کوشش کرے کہ شیعہ نوجوانوں میں ماتم کو کمزور یا کم کیا جائے وہ اہلِ بیتؓ کے حق میں گنہگاروں میں سے ہے۔ اور حکمرانوں کے مظالم پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن اس سے ضرور پوچھ گچھ ہو گی۔ 

(الانتصار: جلد، 9 صفحہ، 246 المجلد التاسع: دفاعاً عن مراسم عاشوراء وقداسة كربلاء و التربة الحسينية)

 خمینی نے اس کا یوں اعتراف کیا ہے:

 اہم بات یہ ہے کہ اصل میں ان دعاؤوں اور شعائر کے اثرات گہرے اور سیاسی ہیں۔

 (عاشوراء في فكر الإمام الخمينی: صفحہ، 46 الفصل الرابع عاشوراء حية)

 نیز شیعہ علماء عاشوراء کے دن قتل حسینؓ پر مرثیہ پڑھنے کو جنت میں داخل ہونے کے اسباب میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک بہتان گھڑ کر سیدنا جعفر الصادقؒ پر تھوپ دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: 

جو کوئی حضرت حسینؓ کے مقتل پر شعر پڑھ کر کسی ایک کو بھی رلائے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور جس نے سیدنا حسینؓ کی شہادت پر شعر پڑھا اور خود رو دیا اس کے لیے بھی جنت ہے۔ اور جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر شعر پڑھا اور خود رونے والا منہ ہی بنایا اس کے لیے بھی جنت ہے۔

 (ثواب الأعمال: صفحہ، 112 جلد، 2 ثواب من أنشد فی الحسين صلوات الله عليه شعراً فيكي أو أبكي أو تباكي كامل الزيارات: صفحہ، 103 جلد، 2 الباب، 33 من قال فی الحسين شعراً فبكى أو أبكى)

 اسی طرح شیعہ علماء روایت کرتے ہیں کہ ان کے ائمہ اپنے شیعہ کے جنت میں داخلے کے ضامن ہیں کلینی ابو بصیر کی سند سے روایت کرتا ہے کہ ابو عبد اللہؒ نے اس سے کہا: جب تم کوفہ واپس جاؤ تو وہ شخص تیرے پاس آئے گا، تم اسے کہنا جعفر بن محمد تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے اعمال چھوڑ دو میں اللہ سے تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ جب یہ شخص مرنے لگا تو اس نے ابو بصیر کو بلا کر کہا اے ابو بصیر تمہارے امام نے میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ پھر اس کی روح نکل گئی۔ پھر جب میں نے حج کیا تو ابو عبداللهؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ جب میں اندر داخل ہوا تو ابھی ایک پاؤں اندر اور دوسرا دہلیز میں تھا کہ ابو عبداللہؒ نے فوراً فرمایا: اے ابو بصیر ہم نے تمہارے ساتھی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ وفا کر دیا ہے۔

(أصول لكافی: جلد، 1 صفحہ، 361 اور 362 حدیث نمبر، 5 كتاب الحجة: باب مولد أبي عبد الله مناقب آل ابی طالب/1119 ( باب امامة ابي عبد الله جعفر بن محمد الصادق، فصل في خرق العادات له) كشف الغمة في معرفة الأئمة: جلد، 2 صفحہ، 341 ذكر الامام السادس جعفر الصادق بن محمد بن بن على بن الحسين بن علی بن ابی طالب)

الکشی روایت کرتا ہے، عبد الرحمٰن بن حجاج کہتا ہے کہ: میں نے ابوالحسنؒ سے کہا ہے مجھے علی بن یقطین نے آپ کے نام خط دے کر بھیجا ہے۔ وہ آپ سے دعا کا خواستگار ہے۔ انہوں نے فرمایا کیا آخرت کی کامیابی کی دعا چاہتا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھا پھر فرمایا میں علی بن یقطین کے لیے ضمانت دیتا ہوں کہ اسے جہنم کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔ 

 (رجال الكشی: جلد، 5 صفحہ، 490 حدیث نمبر ، 808 علی یعطین اور اس کے برادرزاد)

تعلیق:  یہ اللہ تعالیٰ پر کیسی نازیبا جسارت ہے گویا کہ ان کے پاس اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں اور ہر چیز کی چابی انہیں کے پاس ہے اس لیے وہ بخشش و جنت سے محرومی کے ٹکٹ بانٹتے پھرتے ہیں؟ کیا کائنات کی تدبیر و تصرف میں یہ اللہ کے شریک ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

اَطَّلَعَ الۡغَيۡبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَهۡدًا۞ كَلَّا ‌سَنَكۡتُبُ مَا يَقُوۡلُ وَنَمُدُّ لَهٗ مِنَ الۡعَذَابِ مَدًّا۞ وَّنَرِثُهٗ مَا يَقُوۡلُ وَيَاۡتِيۡنَا فَرۡدًا۞ وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوۡنُوۡا لَهُمۡ عِزًّا۞ كَلَّا‌ سَيَكۡفُرُوۡنَ بِعِبَادَتِهِمۡ وَيَكُوۡنُوۡنَ عَلَيۡهِمۡ ضِدًّا۞ (سورۃ مريم: آیت 78 تا 82) 

ترجمہ: کیا اس نے غیب کی اطلاع پالی یا رحمان کے ہاں کوئی عہدہ لے لیا ہے؟ ہرگز نہیں ہم ضرور لکھیں گے جو کچھ وہ کہتا ہے اور ہم اس کے لیے عذاب بہت بڑھا دیں گے اور ان چیزوں کے ہم وارث ہوں گے جو وہ کہتا ہے اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا، اور انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے مددگار ہوں۔ ہرگز ایسا نہ ہو گا عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور ان کے خلاف مد مقابل ہوں گے۔