Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فرشتوں کے بارے میں شیعہ علماء کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

فرشتوں کے بارے میں شیعہ علماء کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟

 جواب: شیعہ کا عقیدہ ہے کہ فرشتوں کو ائمہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے۔ رسولﷺ کے نام پر افتراء بازی کرتے ہوئے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: 

اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کے چہرے کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کیے جو تا قیامت حضرت علیؓ ان کے شیعہ اور محبت کرنے والوں کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔

(مئة منقبة لأبي الحسن محمد بن احمد القمه: صفحہ، 42 (المنقبة التاسعة عشر) بحار الأنوار: جلد، 23 صفحہ، 320 حدیث نمبر، 35، باب أنهم أنوار الله)

 فرشتوں کے فرائض:(شیعہ عقیدہ کی رو سے) 

 1: سیدنا حسینؓ کی قبر پر رونا پیٹنا: انہوں نے ایک روایت تراش لی کہ ہارون بن خارجہ روایت کرتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہؒ کو فرماتے ہوئے سنا:

  اللہ تعالیٰ نے سیدنا حسینؓ کی قبر پر چار ہزار فرشتے مقرر کیے ہیں جو غبار آلود بالوں والے پراگندہ حال ہیں، تا قیامت روتے پیٹتے رہیں گے۔

(فروع الكافی: جلد، 4 صفحہ، 764 (كتاب الحج) حوالہ، 6 باب فضل زيارة أبي عبد الله الحسينؓ، ثواب الاعمال: صفحہ، 115 حوالہ، 17 (ثواب من زار قبر الحسينؓ)

 2: آسمانی فرشتوں کی تمنا: ابو عبداللہؒ پر جھوٹ باندھے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہے:

 آسمانوں میں موجود ہر فرشتہ اللہ تعالیٰ سے سیدنا حسینؓ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگتا ہے۔ لہٰذا ان کی ایک فوج زیارت کے لیے آتی ہے تو دوسری واپس چلی جاتی ہے۔  

(ثواب الاعمال: صفحہ، 124 حوالہ، 45 (ثواب من زار قبر الحسينؓ) تہذيب الأحكام جلد، 6 صفحہ، 1322 كتاب المزار: حدیث نمبر، 15 باب فضل زيارته (وسائل الشيعه: جلد، 10 صفحہ، 474 حدیث نمبر، 10 باب تأکید استحباب زيارة الحسينؓ)

3: شیعہ علماء کے عقیدہ کے مطابق فرشتے شیعہ أئمہ کی ولایت کی دعائیں کرنے کے مکلف ہیں۔ لیکن خود علماء بیان کرتے ہیں کہ یہ ذمہ داری صرف مقرب فرشتوں کے ایک گروہ نے ہی قبول کی ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس حکم کی نافرمانی کرنے والے فرشتوں کو سخت سزا بھی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک فرشتے کے پر توڑ دیئے گئے کیونکہ اس نے ولایتِ علیؓ کا انکار کیا تھا۔ شیعہ بے وقوف ابو عبداللہؒ پر الزام تراشی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ولایتِ علیؓ امیر المؤمنین قبول کرنے کا حکم دیا تو فطرس نامی ایک فرشتے نے انکار کر دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے پر توڑ دیے۔ پھر یہ فرشتہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس انہیں حضرت فاطمہؓ کے گھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کی بشارت و مبارک باد دینے کے لیے گیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرشتے کو حکم دیا کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جھولے پر ہاتھ پھیرے اور اس پر اپنا چہرہ رگڑے تا کہ اللہ تعالیٰ اسے شفایاب کر دے۔ (جب تک اس نے سیدنا حسینؓ کے جھولے کے ساتھ اپنا چہرہ نہ رگڑا اس وقت تک اس کا پر درست نہیں ہوا۔) رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: 

میں نے اس فرشتے کے پر کو دیکھا کہ وہ اُگنا شروع ہو گیا تھا اور اس میں خون چلنے لگ گیا تھا۔ اور یہ پر لمبا ہوتا گیا یہاں تک کہ دوسرے پر کے برابر ہو گیا۔ پھر وہ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اُڑ کر آسمان میں اپنی جگہ پہنچ گیا۔

(بصائر الدرجات الكبریٰ: جلد، 1 صفحہ، 151 حوالہ، 7 باب ما خص الله به الأئمة من آل محمدﷺ بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 340 اور 241 حدیث نمبر، 10 باب فضل النبيﷺ وأهل بيته)

 4: فرشتوں کی زندگی ائمہ اور ان پر درود پڑھنے پر موقوف ہے لہٰذا شیعہ عقیدے کے مطابق فرشتوں کے لیے امیر المومنین علیؓ بن ابی طالب، ان کے محبین، گنہگار شیعہ اور ان کے دوستوں کے لیے استغفار کرنے اور درود بھیجنے کے سوا کوئی کھانا پینا نہیں ہے۔

(جامع الأخبار: صفحہ، 9 بحار الأنوار جلد، 26 صفحہ، 349، حدیث نمبر، 22 باب فضل النبيﷺ وأهل بيته)

فرشتوں کو ہماری تسبیح یعنی ائمہ شیعہ کی تسبیح کرنے اور ہمارے شیعہ کی تسبیح بیان کرنے سے پہلے کسی کی تسبیح یا تقدیس کا علم نہیں تھا۔

(جامع الأخبار: صفحہ، 9 بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 344، حديث نمبر، 16) باب فضل النبي وأهل بيته صلوات الله عليهم على الملائكة وشهادتهم لولايتهم)

5: شیعہ عقیدے کے مطابق ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت علیؓ نام کی محبت کی شکایت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے نور سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکل میں ایک فرشتہ پیدا کر دیا۔ پس ہر جمعہ کو ستر ہزار کی تعداد میں ملائکہ اس کی زیارت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے اور اس کا ثواب حضرت علیؓ کے محب کو ہبہ کرتے ہیں ۔

(ارشاد القلوب: جلد، 2 صفحہ، 29 باب فضائل امير المؤمنين علیؓ بن ابی طالب، فصل فی حبه و التوعد علیؓ بغضه)

 5: شیعہ عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ولایتِ علیؓ قبول کرنے کی وجہ سے شرف منزلت عطا فرمائی ہے۔ رسول اللہﷺ پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا (نعوذ باللہ) فرشتوں کو جو مقام و مرتبہ ملا وہ صرف محمدﷺ اور علیؓ کے ساتھ محبت کرنے اور ان دونوں کی ولایت کو قبول کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ بلا شبہ محبانِ علیؓ میں سے جو شخص اپنے دل کو دھوکہ دہی، حسد و کینہ اور گناہوں کی نجاست سے پاک کر لیتا ہے وہ فرشتوں سے زیادہ پاکباز اور افضل ہو جاتا ہے۔

(تفسير الحسن العسكری: صفحہ، 352)

 6: شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب فرشتوں میں جھگڑا ہو جائے تو جبرئیل علیہ السلام علیؓ بن ابی طالب پر نازل ہوتے ہیں اور انہیں فرشتوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے آسمان پر لے جاتے ہیں۔

(الاختصاص: صفحہ، 213)

 7: ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب ایک شیعہ دوسرے شیعہ کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کرتا ہے تو نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے ایک دوسرے سے کہتے ہیں چلو الگ ہو جاؤ ممکن ہے ان دونوں نے کوئی راز کی بات کرنی ہو اور اللہ نے ان کا پردہ رکھا ہوا ہے۔

(وسائل الشيعه: جلد، 8 صفحہ، 539 حدیث نمبر، 2 باب تحریم حجب الشيعة) تفسير نور الثقلين: جلد، 5 صفحہ، 110 سورة ق بحار الأنوار: جلد، 5 صفحہ، 321 حوالہ،1 ( باب بأن الملائكة يكتبون أعمال العباد)

 تعارض: شیعہ کا یہ عقیدہ تو اللہ تعالیٰ کے فرمان اقدس کی واضح تکذیب ہے:

اِذۡ يَتَلَقَّى الۡمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الۡيَمِيۡنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيۡدٌ۞ مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ۞(سورۃ ق: آیت، 17 اور 18)

ترجمہ: جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

 أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ (سورہ الزخرف: آیت، 80)

ترجمہ: کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے ( یقیناً وہ برابر سن رہے ہیں) بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

 قرآن کریم میں ملائکہ کے جتنے بھی نام وارد ہیں شیعہ علماء کے نزدیک ان سے مراد، ان کے بارہ ائمہ ہیں، اسی لیے المجلسی نے یہ باب قائم کیا ہے:

 بَابٌ: أَنَّهُمْ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ الصَّافُونَ وَالْمُسَبِّحُونَ، وَصَاحِبُ الْمَقَامِ الْمَعْلُومِ، وَحَمَلَهُ الْعَرْشِ، وَ أَنَّهُمُ السَّفَرَةُ الْكِرَامُ الْبَرَةُ

 باب ہے کہ: بلا شبہ وہ ( ائمہ) ہی صفیں باندھنے والے اور تسبیحات پڑھنے والے، مقام معلوم کے صاحبین، عرش کو اٹھانے والے ہیں اور بلاشبہ وہی نیکو کار اور معزز لکھنے والے ہیں۔

(بحار الأنوار: جلد، 24 صفحہ، 87، كتاب الأمان)

 اس باب میں گیارہ روایات ذکر کی ہیں۔ 

 تبصره: شیعہ علماء کی مقرب فرشتوں کے مقام و مرتبہ پر دست درازی اور ان کے بارے میں کذب بیانی دراصل فرشتوں کے وجود سے انکار کرنے کے بہت قریب ہے کیونکہ شیعہ علماء نے فرشتوں کے فرائض اور خصوصیات اور ان کے شرف و مقام کا انکار تو کر ہی دیا ہے اور ائمہ کی ولایت ہی ان کا دین قرار دے دیا ہے۔ پھر قرآن مجید میں مذکور فرشتوں سے مراد اپنے ائمہ لے کر ان کے وجود کی تاویل کر دی ہے اور ان کے تمام فرائض اپنے ائمہ کو سونپ دیے ہیں حالانکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

 بَلْ عِبَادُ مُكْرَمُونَ لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ

(سورة الأنبياء: آیت:26 اور 27)

ترجمہ: بلکہ وہ (فرشتے) تو (اللہ کے معزز و مکرم بندے ہیں۔ وہ بات کرنے میں اس سے سبقت نہیں کرتے، اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔

 ارشاد ربانی ہے: 

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَ مَلْئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَ جِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَفِرِينَ(سورہ البقرة: آیت، 98) 

ترجمہ: جو کوئی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کے رسولوں کا اور جبرائیل میکائیل کا دشمن ہے تو بے شک اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے۔