Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ایمان کے تیسرے رکن ایمان بالکتب کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

ایمان کے تیسرے رکن ایمان بالکتب کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟

جواب: اس بارے میں دو مسئلے ہیں:

شیعہ علماء کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ائمہ پر کتابیں نازل کی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • مصحف علی رضی اللہ عنہ:

شیعہ عالم اور شیخ حوزات العلمیہ علامہ الخوئی لکھتا ہے: مصحف علیؓ کا وجود موجودہ قرآن سے سورتوں کی ترتیب میں مختلف ہے، اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اور علماء کرام نے اسے تسلیم کر رکھا ہے جس کی بنا پر ہمیں اس کے ثبوت کا تکلف بھی نہیں کرنا چاہیے۔

(البیان فی تفسیر القرآن: صفحہ، 223)

شیعہ علماء اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ: جبریل امین علیہ السلام حضرت علیؓ ہی کو قرآن املاء کرواتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں روایات گھڑ کر ابو عبداللہؒ کی جانب منسوب کی ہیں کہتے ہیں کہ آپؒ نے فرمایا ہے:

رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور ایک کاپی بھی منگوائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام باطنی باتیں آپ کو املاء کروائیں۔ پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ پھر اس کا ظاہری معنیٰ جبریل امین نے املاء کروایا۔ جب رسول اللہﷺ چوکنے ہوئے تو فرمایا: اے علیؓ! آپ کو یہ باقی کس نے املاء کروایا ہے؟

تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ آپ نے! 

تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: 

میں نے تمہیں اس کا باطنی معنیٰ املاء کروایا تھا؟ جبریل امین نے اس کا ظاہری معنی املاء کروا دیا۔ قرآن آپ پر املاء کروایا جاتا تھا۔

(الاختصاص: صفحہ، 275 املاء جبریل علی امیر المؤمنین) 

  • کتاب علی رضی اللہ عنہ:

شیعہ راویوں کے مطابق یہ کتاب انسان کی لپٹی ہوئی ران کی طرح لپیٹی ہوئی یعنی محفوظ کتاب ہے، اللہ کی قسم! اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسے حضرت علیؓ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور رسول اللہﷺ نے املاء کروائی ہے۔

(بصائر الدرجات الکبریٰ: جلد، 1 صفحہ، 332 حدیث، 14 باب فی الأمة وانه صارت الیھم کتب رسول اللہﷺ)

مصحفِ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ:

ابو عبداللہؒ پر الزام لگاتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

حضرت فاطمہؓ نے اپنے پیچھے مصحف چھوڑا جو قرآن نہیں ہے لیکن وہ اللہ کا کلام ہے جو اللہ نے اس پر نازل کی۔ رسول اللہﷺ نے اسے املاء کروایا اور علیؓ نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا۔

(بصائر الدرجات: جلد،1 صفحہ، 315 حدیث، 14 باب فی الأمة و مصحف فاطمہؓ بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 41 حدیث، 73 باب جھات علوبھم وما عندھم من الکتاب انکے معاصر عالم استاذ محمد سند کہتے ہیں: مصحفِ فاطمہؓ انکے مصادر علوم میں ایک مصدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ الإمام الالهية: صفحہ، 242 محاضرات محمد سند اعداد محمد علی بحر العلوم) 

ایک اور افسانوی روایت میں یہ بھی ہے کہ:

وہ مصحف تمہارے اس قرآن سے تین گنا بڑا ہے۔ اللہ کی قسم! اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم! اصل علم تو یہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا: بلا شبہ علم یہی ہے لیکن وہ قرآن نہیں ہے۔

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 171 اور 172 کتاب الحجہ: حدیث، 1 باب فیہ ذکر الصحیفہ)

تضاد بیانی: شیعہ بھول گئے اور سابقہ روایت کے بالکل الٹ روایت بھی بیان کی گئی کہ سیدہ فاطمہؓ کے مصحف میں کتاب اللہ کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس میں موجود کلام سیدہ فاطمہؓ کے والد کی وفات کے بعد ان پر اور ان کی اولاد پر نازل کیا تھا۔

(بصائر الدرجات الکبریٰ: جلد، 1 صفحہ،321 حدیث، 28 باب فی الأمة بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 48 حدیث، 89 باب جھات علومھم)

شیعہ کے امام اکبر خمینی نے کہا ہے:

دوسری حدیث میں ہے کہ:

رسول اللہﷺ کے بعد جبریل امین غیب کی خبر لیکر حضرت فاطمہؓ کے پاس آیا کرتے تھے۔ اور حضرت امیر المؤمنینؓ اس مصحف کو مدون کیا کرتے تھے۔ یہی وہ مصحف فاطمہؓ جڑتا ہے۔

(کشف الإسرار: صفحہ، 143 الحدیث الثانی فی الامامة من این تنبع معتقدات العوام)

 تضاد و تناقض: شیعہ شیخ کلینی ابو بصیر کے واسطے سے رسول اللہﷺ سے ایک طویل جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے۔ اس میں ہے:

 پھر نبیﷺ کے پاس وحی آئی تو آپﷺ نے فرمایا:

سَالَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع لِلْكَفِرِينَ (بولاية علىؓ) لَيْسَ لَهُ دَافِعٌِ مِنَ اللهِ ذی المعارج 

ایک سائل نے عذاب مانگا جو واقع ہونے والا ہے (ولایت علیؓ کے) کافروں پر، کوئی اسے ٹالنے والا نہیں، اس اللہ کی طرف سے جو اونچے درجوں والا ہے۔

میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان! ہم اس آیت کو اس طرح (ولایت علیؓ کے ذکر کے ساتھ) تلاوت نہیں کرتے۔ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اسی طرح اس آیت کو لے کر جبرائیل علیہ السلام محمدﷺ پر نازل ہوئے تھے اور یہ آیت اسی طرح مصحفِ فاطمہؓ میں موجود ہے۔

(الروضة من الکافی: جلد،8 صفحہ، 1969 کتاب الروضة: حدیث، 18 رسالة منه علی بحار الأنوار: جلد، 35 صفحہ، 324حوالہ، 26 باب قولہ تعالیٰ: ولمآ ضرب ابنِ مریم مثلا)

 اس مصحف کے نزول کی کیفیت:

اب ملاحظہ ہو اس مصحف کے نزول کی کیفیت:

ان کے مزعوم مصحفِ فاطمہؓ کے متعلق أئمہ شیعہ کی بیان کردہ انتہائی دقیق وہ روایت آپ کی خدمت میں حاضر ہے: 

ابو بصیر سے مروی ہے:

 میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے مصحفِ فاطمہؓ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ آپ کی بنا پر آپ کے باپ کی وفات کے بعد اتارا گیا تھا۔

میں نے پوچھا: اس میں قرآن میں سے کوئی چیز بھی ہے؟ تو فرمایا: اس میں قرآن میں سے کوئی چیز بھی نہیں۔ 

میں نے عرض کی میرے سامنے اس کے کچھ اوصاف بیان کریں۔ فرمایا: اوراق کی لمبائی کے برابر زبرجد کے دو گتے تھے، اس کا رنگ گلابی تھا۔

میں نے عرض کی: میں آپ پر فدا ہو جاؤں اس کے ورق کا میرے سامنے کچھ حال بیان کریں۔ فرمایا: اس کا ورق سفید موتی کا ہے، جسے کہا گیا، بن جا تو وہ بن گیا۔

میں نے عرض کی :میں آپ پر فدا ہو جاؤں اس میں کیا کچھ ہے؟ فرمایا: اس میں جو کچھ ہو چکا، اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، کی خبریں ہیں، اس میں آسمان، آسمان کی خبریں ہیں اور اس میں آسمان میں موجود تمام ملائکہ اور دیگر اشیاء کی تعداد ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ انبیاء و رسل اور غیر انبیاء کی کل تعداد ہے، ان کے نام اور جن کی طرف انہیں بھیجا گیا تھا کے اسماء مندرج ہیں، جنہوں نے انہیں جھٹلایا اور جنہوں نے انہیں مانا سبھی کے اسماء بھی ہیں، اس میں اولین و آخرین کے اللہ تعالیٰ کے تمام پیدہ شدہ مؤمنین و کافرین کے اسماء درج ہیں، شہروں کے نام ہیں، زمین کے مشرق و مغرب میں پائے جانے والے ہر شہر کے حالات میں اس میں پائے جانے والے تمام مؤمنین کی تعداد ہے اور اس میں موجود تمام کافرین کی تعداد ہے، اور ہر جھٹلانے والے کے اوصاف کا بیان ہے۔

 پہلی امتوں کے حالات اور ان کے واقعات کا بیان ہے، ان کے طواغیت بادشاہوں، ان کی مدت بادشاہت اور ان کی تعداد کا اندراج بھی ہے، ائمہ کے اسماء اور ان کی صفات کا بیان ہے اور پھر ہر ایک کی ایک ایک ملکیت میں موجود اشیاء کا بیان ہے، انکے کبراء کے اوصاف کا بیان ہے اور مختلف ادوار میں ہونے والے سب لوگوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔

میں نے عرض کی: میں آپ پر فدا ہو جاؤں اور ادوار کتنے ہیں؟ فرمایا: پچاس ہزار سال اور یہ سات ادوار ہیں، اس میں تمام مخلوق انہیں کے اسماء اور ان کی عمروں اور موت کے اوقات کا اندراج ہے، اہلِ جنت کے اوصاف اور اس میں داخل ہونے والوں کی تعداد، دوزخ رسید ہونے والوں کی تعداد اور ان کے نام، اور پھر اس میں قرآن کا علم جس طرح وہ نازل ہوا تھا، اور تورات کا علم جس طرح وہ نازل ہوئی تھی اور انجیل کا علم جس طرح وہ نازل ہوئی تھی، زبور کا علم اور مزید تمام شہروں میں موجود تمام درختوں اور تمام ڈھیلوں کی تعداد۔

(دلائل الامامة لأبي جعفر محمد بن رستم الطبری الشیعی: صفحہ، 27 اور 28 اور مستدرک سفینة البحار: جلد، 6 صفحہ، 208 مصحفِ سیدہ فاطمہؓ الزہرہ)  

واہ بہت خوب! اس بے سروپا بڑے مصحف کی کتنی جلدیں اور کتنے اوراق ہوں گے؟ بلکہ ایک راوی تو یہ بھی کہتا ہے: بے شک ان کے امام نے فرمایا ہے: میں نے ابھی تک تیرے سامنے وہ بھی بیان نہیں کیا جو دوسرے ورق میں ہے اور میں نے ابھی اس کے حرف کے متعلق کلام نہیں کیا۔ 

وہ کتاب جو رسول اللہﷺ سے ان کی وفات سے قبل نازل ہوئی:

شیعہ علماء نے ابو الصادق سے یہ روایت بیان کی ہے کہ اس نے فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ پر موت آنے سے قبل ایک کتاب نازل فرمائی تھی اور یہ فرمایا تھا، اے محمدﷺ! یہ کتاب تیرے اہلِ بیتؓ میں سے نجیب صفات اور اعلیٰ نسب شخص کے نام تیری وصیت ہے تو پوچھا: اے جبرئیل! میرے اہل میں سے وہ نجیب صفات اور اعلیٰ نسب شخص کون سا ہے؟ تو اس نے جواب دیا علیؓ بن ابی طالب اور اس کتاب پر سونے کی مہریں بھی لگی ہوئی تھیں، اس کتاب کو نبیﷺ نے حضرت علیؓ کے حوالے کیا اور یہ حکم دیا کہ ان میں سے ایک مہر کو توڑے اور جو اس میں موجود ہو اس پر عمل کرے، تب آپ نے ایک مہر کو توڑا اور اس میں موجود احکام پر عمل کیا، پھر اس کتاب کو آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کے حوالے کر دیا تو اس نے ایک مہر کو توڑا پھر اس طرح قیام المہدی تک اسی طرح مسلسل چلتے آئے۔

(اصول الکافی الکلینی: جلد، 1 صفحہ، 203 باب ان الامامة لم يفعلوا شیئا إلا بعھد من اللہ)

وضاحتی نوٹ: اللہ تعالیٰ یہود مدینہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِينِهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ(سورة الحشر: آیت، 2)

ترجمہ: وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اُجاڑ رہے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی (برباد کروا رہے ہیں)

رسول اللہﷺ تو یہاں پر جیسا وہ گمان کر رہے ہیں، بذاتِ خود پوچھ رہے ہیں، وہ نجیب صفات شخص کون ہے؟ آپﷺ نے اسے نہیں پہچانا حتٰی کہ آپ پر موت نازل ہو گئی، تو آپﷺ کی ہم نے جس طرح کہ ان کی اس روایت میں ہے، لوگوں کے سامنے اس امر کا اعلان نہیں فرمایا کہ آپﷺ کے اہلِ بیتِؓ میں سے وہ وصی اور نجیب کون سا فرد ہے؟ بلکہ آپﷺ کو تو اپنی وفات کے وقت تک خود بھی معلوم نہیں ہوا تھا:

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولَى الْأَبْصَارِ (سورة الحشر: آیت، 2)

ترجمہ: پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔

  • لوحِ فاطمہ رضی اللہ عنہا:

یہ شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے نبیﷺ پر اتاری گئی ایک کتاب ہے جو آپﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کو ہدیہ کر دی تھی۔

انہوں نے افتراء پردازی کرتے ہوئے ابو بصیر سے روایت کی ہے کہ ابو عبداللہؒ نے جابر بن عبداللہ سے لوحِ فاطمہؓ کے متعلق دریافت کیا تو جابر نے یہ جواب دیا:

میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں آپ کی ماں فاطمہؓ کے پاس حیاتِ رسولﷺ میں داخل ہوا تھا، میں نے انہیں حضرت حسینؓ کی ولادت کی مبارکباد پیش کی، اس وقت میں نے ان کے ہاتھوں میں ایک لوح سبز دیکھی، مجھے خیال گزرا کہ یہ زمرد کی ہے۔

اس میں میں نے ایک کتاب ابیض دیکھی جو آفتاب کی رنگت سے مشابہ تھی۔ یہ کتاب اس طرح شروع ہوتی ہے اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من الله العزيز الحكيم لمحمد نبيه و ونوره وسفيره و حجابه و دلیله نزل به الروح الأمين۔ إني لمأ بعث نبياً فأكملت أيامه. وانقضت مدنه إلا جعلت له وصياً وإني فضلتك على الأنبياء وفضلت وصيك على الأوصياء وأكرمت بشبليك و وسبطيك حسن و حسين فجعلت حسناً معدن علمي بعد انقضاء مدة أبيه و جعلت حسيناً خازن وحيي۔

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔ یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے اس کے نبی و نور اس کے سفیر اور حجاب اور اس کے مرشد محمد کے لیے ہے جو کہ روح الامین لے کر نازل ہوا ہے۔ میں نے کسی بھی نبی کو مبعوث نہیں فرمایا کہ میں نے اس کے ایام کو مکمل کیا ہو اور میں نے اس کی مدت کو ختم کیا ہو مگر میں نے اس کا ایک وصی بنایا ہے، اور بلاشبہ میں نے تجھے تمام انبیاء پر فضیلت عطا کی ہے اور میں نے تیرے وصی کو تمام اوحیاء پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور میں نے تجھے تیرے دونوں بہادر بیٹوں یعنی حسنؓ اور حسینؓ کے ساتھ عزت بخشی ہے اور میں نے حسنؓ کو اس کے باپ کی مدت پوری ہونے کے بعد معدن علمی بنایا ہے۔

ابو بصیر نے کہا اگر تو اپنی زندگی میں اس حدیث کے سوا کچھ اور نہ بھی سنتا تو تجھے یہی کافی ہوتی، لہٰذا تو اس کی حفاظت رکھے مگر اس کے اہل سے۔

(اصول الکافی الکلینی: جلد،1 صفحہ، 403 کتاب الحجة: حوالہ:ل، 3 باب ما جاء فی الاثنی عشر والنص علیھم عیون أخبار الرضاء: جلد، 1 صفحہ،71 باب، 6 النصوص علی الرضا بالامامة فی جملة الامة الاثني عشر)

اور ان کے مشائخ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس مصحف کے بارے میں یہ روایت اتنی مشہور و معروف ہے کہ اس پر شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے اور کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔

(حقیقة مصحفِ فاطمہؓ عند الشیعة: صفحہ، 49 لشیخھم المعاصر اکرم برکات)

زبردست مصیبت:

انہوں نے اپنی اس مزعومہ کتاب میں ایک ایسی روایت بھی بیان کی ہے، جس نے ان کی عمارت کو بنیادوں ہی سے گرا دیا ہے اور ان کے مذہب شیعیت کی چھت ان کے اوپر گر گئی ہے، انہوں نے یہ حکم لگایا ہے کہ حضرت علیؓ اوصیاء میں شامل نہیں ہیں، انہوں نے اپنی روایت میں یوں بیان کیا ہے:

 میں سیدہ فاطمہؓ کے پاس داخل ہوا آپ کے سامنے ایک لوح تھی، جس میں آپ سے کام کی اولاد میں سے اوصیاء کے نام موجود تھے، میں نے انہیں شمار کیا تو وہ بارہ تھے، ان کا آخری القائم تھا۔ ان میں سے تین محمد نامی تھے اور ان میں سے تین علی نامی تھے۔

(اصول الکافی للكليني: جلد، 1 صفحہ، 408 باب ما جاء فی اثنی عشر من النص علیھم)

  • صحیفہ فاطمہ رضی اللہ عنہا:

ان کے شیوخ کے اعتقاد کے مطابق اس صحیفے کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے جس طرح کہ انہوں نے ابو عبداللہ بن جابر سے روایت بیان کی ہے کہ:

میں اپنی سیدہ فاطمہؓ بنت محمد رسول اللہﷺ کے پاس الحسنؓ کی پیدائش کی مبارک باد دینے کے لیے حاضر ہوا، تب اس کے ہاتھ میں ایک سفید صحیفہ جو موتی سے بنا ہوا تھا، میں نے دریافت کیا، اے خواتین کی سیدہ! یہ صحیفہ کیا ہے جسے میں آپ کے پاس دیکھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا: اس میں میری اولاد میں سے ائمہ کے اسماء ہیں، میں نے عرض کی: ذرا مجھے بھی عنایت فرما دیں تا کہ میں اس پر نگاہ ڈال لوں، تب آپؓ نے فرمایا: ارے جابر! اگر منع اور ممانعت نہ ہوتی تو میں ضرور پکڑا دیتی، لیکن اس کے متعلق منع کر دیا گیا ہے کہ اسے بجز نبیﷺ کے یا نبیﷺ کے وصی کے یا نبیﷺ کے اہلِ بیتؓ کے کوئی اور نہ چھوئے۔

(عیون اخبار الرضا: جلد، 1 صفحہ، 70 حوالہ، 1 باب النصوص علی الرضا بالامامة في جملة الأمة)

  • اثناء عشریہ صحیفہ 

ان کے شیوخ نے ان کے شیخ ابنِ بابویہ القمی سے روایت لی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بارہ انگوٹھیاں اور بارہ صحیفے اتارے ہیں، ہر امام کا نام اس کی انگوٹھی پر اور اس کی صفات اس کے صحیفے میں مندرج ہیں۔

(كمال الدين و تمام النعمة: جلد،1 صفحہ، 255 حوالہ،11 (باب ما روى عن النبي في النص على القائم و انه الثاني عشر من الأئمة) الصراط المستقيم إلى مستحقى التقديم: جلد، 2 صفحہ، 155 الباب العاشر فيما جاء من النصوص المتظافرة على أولاده)

  • صحف علی رضی اللہ عنہ: 

ان میں سے ہر صحیفے میں انیس صحیفے ہیں، جنہیں رسول اللہﷺ نے ائمہ کے پاس محفوظ رکھا یا جنہیں نوازا گیا۔ انہوں نے روایت بیان کی ہے کہ ابو جعفر نے فرمایا:

میرے پاس ایک ایسا صحیفہ ہے جس میں انیسں صحیفے ہیں، جنھیں عطا فرمایا۔

(بصائر الدرجات الكبرىٰ للصفار: جلد، 1 صفحہ، 294 حوالہ، 12 (باب في الأئمة أن عندهم الصحيفة الجامعة التي املاء رسول الله بیده و هي سبعون ذراعا) بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 24، حوالہ، 19 (باب جهات علومهم و ما عندهم من الكتب)

صحیفہ ذوا بہ سیف (تلوار کی دستی میں چھپا صحیفہ):

شیعہ علماء ابو عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت علیؓ کی تلوار کی دستی میں ایک چھوٹا سا صحیفہ تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کو بلا کر وہ صحیفہ دیا اور انہیں ایک چھری بھی دی، پھر انہیں حکم دیا کہ اس صحیفے کو کھولو لیکن وہ اسے کھول نہ سکے۔ لہٰذا انہوں نے اسے کھول کر حضرت حسنؓ کو دیا اور فرمایا پڑھو۔ تو حضرت حسنؓ نے پڑھا الف ۔ ب ۔ سین ۔ اللام اور یکے بعد دیگرے کئی حروف پڑھے۔ پھر اسے بند کر کے اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو دیا تو وہ بھی اسے کھول نہ سکے۔ پھر انہوں نے خود ہی اسے کھول کر حضرت حسینؓ کو دیا اور انہیں پڑھنے کو کہا۔ انہوں نے حضرت حسنؓ کی طرح اسے پڑھا۔ پھر اس صحیفے کو بند کر کے اپنے بیٹے ابنِ حنفیہ کو دیا تو وہ بھی اسے کھول نہ سکے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خود ہی اسے کھول کر دیا اور فرمایا: اسے پڑھو مگر وہ اس میں سے کچھ بھی نہ پڑھ سکے، لہٰذا حضرت علیؓ نے وہ صحیفہ ان سے لے کر بند کر کے دوبارہ تلوار کی دستی میں لٹکا دیا۔

راوی کہتا ہے میں نے ابو عبد اللہ سے پوچھا اس صحیفہ میں کیا لکھا تھا؟ انہوں نے جواب دیا یہ وہ حروف ہیں جن کے ایک ایک حرف سے ہزار ہزار حروف کھلتے ہیں۔

ابو بصیر کہتا ہے ابو عبداللہ نے فرمایا اس صحیفے سے آج تک صرف دو حرف نکلے ہیں۔

(بصائر الدرجات الكبرىٰ للصفار: جلد، 2 صفحہ، 86 باب فيه الحروف التي علم رسول اللهﷺ عليا) بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 56 حوالہ، 115 (باب جهات علومهم و ما عندهم من الكتب و انه ينقر في آذانهم ويسكت في قلوبهم)

سفید چمڑا اور سرخ چمڑا:

شیعہ کے حجتہ الاسلام کلینی نے یہ روایت گھڑ لی ہے

حسین بن ابو العلاء سے مروی ہے اس نے کہا میں نے ابو عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے بلاشبہ میرے پاس سفید چمڑا ہے، اس نے کہا، میں نے عرض کی اس میں کونسی چیز ہے؟ فرمایا حضرت داؤد علیہ السلام کی زبور، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تورات، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی انجیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اور حلال و حرام اور سیدہ فاطمہؓ کا مصحف اور میرے پاس ایک سرخ چمڑا ہے، میں نے پوچھا: سرخ چمڑے میں کون سی چیز ہے؟ فرمایا اسلحہ، اسے صاف خون کے لیے کھولا جاتا ہے، اسے صرف صاحب تلوار ہی قتل کے لیے کھول سکتا ہے، اسے عبداللہ بن ابو یعفور نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے احوال کی اصلاح فرمائے کیا الحسن کے بیٹے اسے جانتے ہیں؟

فرمایا جی ہاں! اللہ کی قسم! وہ اس طرح جانتے ہیں جیسے وہ رات کو رات جانتے ہیں اور دن کو دن جانتے ہیں لیکن وہ ایسے ہیں کہ حسد اور طلب دنیا انہیں انکار و جحود پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ حق کو حق کے ذریعے سے طلب کریں گے تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔

(أصول الكافي: جلد، 1 صفحہ، 173 كتاب الحجة: حوالہ، 3 باب فيه ذكر الصحيفة و الجفر والجامعة و مصحف فاطمةؓ، بصائر الدرجات الكبرىٰ: جلد،1 صفحہ، 304 حوالہ،1 (باب في الأئمة عليهم السلام أنهم اعطوا الجفر والجامعة و مصحف فاطمةؓ)

  • صحیفہ ناموس:

اس میں قیامت تک آنے والے شیعوں کے نام درج ہیں۔ شیعہ حضرات نے حبابہ الوالبیہ سے روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں: 

میں نے ابو عبداللہ سے کہا: میرا ایک بھتیجا ہے جو کہ آپ کے علم و فضل سے آگاہ ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھے بتا دیں کیا وہ آپ کے شیعہ میں سے ہے؟

 آپ نے پوچھا: اس کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا فلاں بن فلاں۔

آپ نے فرمایا: اے فلاں عورت! ناموس لے کر آؤ۔ وہ ایک بڑا مصحف اٹھا لائی۔ آپ نے اسے اپنے سامنے رکھ کر کھول دیا اور پھر اس میں دیکھنے لگے۔

 پھر کہا: ہاں یہاں پر اس کا اور اس کے والد کا نام ہے۔

(بصائر الدرجات: جلد، 1 صفحہ، 341 حوالہ، 1 باب ما عند الأئمة من ديوان شيعتهم بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 121 حوالہ، 10 باب أنهم يعرفون الناس بحقيقة الايمان و اسماء شيعتهم وأعدائهم)

  • صحیفه عبیطہ:

کلینی نے افتراء پردازی کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا اگر میں نشیط ہوا اور انہوں نے مجھے اجازت دی تو میں تمہیں حدیث بیان کرونگا سال گزر جائے اور میں اس میں سے کوئی حرف دوبارہ نہیں دہراؤں گا اللہ کی قسم میرے پاس بہت سے صحیفے ہیں جن میں رسول کریمﷺ اور اہل بیتؓ اور آل رسولﷺ کی فضیلت ہے، اور ان میں ایک ایسا صحیفہ بھی ہے جسے البیطہ کہا جاتا ہے، عرب والوں پر اس سے شدید تر کوئی چیز وارد نہیں ہوئی اور بلاشبہ اس صحیفے میں ساتھ ایسے قبائل عرب کا ذکر ہے جو باطل اور کھوٹے ہیں ان کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

(بصائر الدرجات الكبرىٰ: جلد،1 صفحہ، 303 حديث نمبر، 15 باب آخر فيه أمر الكتب: بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 37 حوالہ، 67 باب جهات علومهم و ما عندهم من الكتب و انه ينقر في آذانهم و ينكت في قلوبهم)

  • الجامعة:

کلینی نے ایک روایت گھڑ لی ہے کہ ابو عبداللہ سے یہ فرمان روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا : بلاشبہ ہمارے پاس الجامعہ ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ الجامعہ کیا ہے؟

 اس نے کہا میں نے عرض کی، میں آپ پر فدا ہو جاؤں ، ذرا بتائیں کہ الجامعہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول رسول اللہﷺ کے ہاتھ کی لمبائی کے حساب سے ستر ہاتھ ہے اور اس میں رسول اللہﷺ کے دین مبارک سے املاء ہے اور حضرت علیؓ کی دست راست کی تحریر ہے، اس میں ہر حلال اور حرام موجود ہے اور اس میں ہر وہ بات موجود ہے، جس کی لوگوں کو حاجت ہےحتٰی کہ خراش کے تاوان کا ذکر بھی ہے۔

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 171 اور 172 كتاب الحجة: حوالہ، 1 باب فيه ذكر الصحيفة و الجفر والجامعه ومصحف فاطمهؓ)

  • وضاحتی نوٹ:

بلاشبہ عجیب و غریب اور انوکھے نرالے امور میں سے ایک بات یہ طرفہ تماشا ہے کہ یہ تمام کتب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہوں اور یہ کتب حضرت علیؓ اور ان کی اولاد اور ائمہ کے لیے خاص ہوں لیکن پوری امت ان سے محروم رہے۔ اور خصوصاً اے شیعہ عوام! تم بھی ان سے محروم رہو اور سوائے اہلِ سنت کے قرآن مجید کے تمہیں بھی کوئی کتاب نصیب نہ ہو، حالانکہ اس قرآن مجید میں بھی تمہارے علماء کے نزدیک تحریف و کمی ہو چکی ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر یہ آسمانی کتابیں تمہارے ائمہ نے تم سے کیوں چھپا رکھی ہیں؟ اور آخری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کہاں ہے؟ اور یہ آسمانی کتابیں کہاں ہیں؟

تو جواب میں کہتے ہیں: یہ قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں انبیاء کرام علیھٹم السلام کی میراث کے ساتھ امام مہدی کے پاس محفوظ ہیں۔

(الانوار النعمانیہ: جلد، 2 صفحہ، 262 نور فرما یختص بالصلوة مناقب آل ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 204 صفات الائمة)

 آخری بات یہ کہ بارہ سو سال سے یہ کتب تمہارے مہدی منتظر کے پاس کیوں چھپائی گئی ہیں، آخر کیوں؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ خبیث یہودی مؤلفین نے یہ باطل روایات تمہاری کتابوں میں شامل کر دی ہوں اور تمہارے ائمہ پر جھوٹ باندھا ہو۔ کیونکہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے کہ مسلمانوں کی صرف ایک ہی کتاب ہے جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے۔ جو کہ ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ(سورةالحجر: آیت، 9)

ترجمہ: بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔

اور رہی بات کتابوں کے تعداد کی تو یہ یہود و نصاریٰ کی خصوصیات میں سے ہے تو تمہارے علماء یہود و نصاریٰ کی مشابہت سے کیوں نہیں روک رہے؟

دوسرا مسئلہ:

شیعہ علماء اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ ساری آسمانی کتابیں ان کے ائمہ کے پاس ہیں۔ اور وہ ان کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے ہیں۔ شیخ کلینی نے اپنی کتاب میں یہ افتراء پردازی کی ہے کہ ان کے امام ابو الحسن نے بریہ نامی ایک عیسائی کے سامنے انجیل پڑھی تو اس نے کہا:

 میں پچاس سال یا تقریباً اتنے ہی عرصہ سے آپ کو ہی تلاش کر رہا تھا، پھر وہ ایمان لے آیا اور بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا۔

اس بریہ نے امام سے سوال کیا آپ کو تورات و انجیل اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی کتابوں کا علم کیسے حاصل ہو گیا؟

 تو انہوں نے جواب میں فرمایا: یہ کتابیں انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے ہمارے پاس بطورِ وراثت ہیں۔ ہم انہیں ویسے ہی پڑھتے ہیں جیسے ان انبیاء کرام علیھم السلام نے پڑھا ہے۔ اور ہم بھی وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو وہ انبیاء کرام علیہم السلام عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو زمین میں حجت نہیں بناتے جس کے متعلق سوال کیا جائے اور کہیں ہم اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے۔

(اصول الكافي: جلد، 1 صفحہ، 164 (كتاب الحجة: حوالہ،1 باب ان الأئمة عليهم السلام عندهم جميع الكتب التي نزلت) تفسير نور الثقلين: جلد،1 صفحہ، 329، حوالہ، 103 سورة آل عمران)

تبصره:

اس روایت سے معلوم ہوا کہ شیعہ نے اپنے ائمہ کے متعلق خبر دی ہے کہ وہ تورات انجیل اور دیگر کتب اسی طرح پڑھتے جیسے انبیاء کرام علیہم السلام نے پڑھی تھیں حتیٰ کہ ائمہ لوگوں کے مسائل کا جواب ان کتابوں کے مطابق دیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل اسلام سے خروج اور وحدت ادیان کی دلیل ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (سورہ آل عمران: آیت، 85)

ترجمہ: اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ 

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ساتھ تمام سابقہ آسمانی کتابیں منسوخ کر دی تھیں۔ ارشاد ربانی ہے:

وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ الۡكِتٰبِ وَمُهَيۡمِنًا عَلَيۡهِ‌ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الۡحَـقِّ لِكُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡكُمۡ شِرۡعَةً وَّمِنۡهَاجًا وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَـعَلَـكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنۡ لِّيَبۡلُوَكُمۡ فِىۡ مَاۤ اٰتٰٮكُمۡ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَـيۡـرٰتِ‌ اِلَى اللّٰهِ مَرۡجِعُكُمۡ جَمِيۡعًا فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَ۞ وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَنۡ يُّصِيۡبَهُمۡ بِبَـعۡضِ ذُنُوۡبِهِمۡ‌ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوۡنَ‏۞ (سورة المائدة: آیت، 48 اور 49)

ترجمہ: اور (اے ) نبیﷺ! ہم نے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، یہ تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو اس سے پہلے تھی اور اس پر نگہبان ہے۔ چنانچہ آپ ان کے درمیان اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلے کر دیں اور آپ کے پاس جو حق آیا ہے اسے نظر انداز کر کے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے دستور اور طریقہ بنایا اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور ایک امت بنا دیتا لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اس (کتاب) کے بارے میں آزمائے جو اس نے تمہیں دی ہے۔ چنانچہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو تم سب نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔ اور اے نبیﷺ! آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں، کہیں وہ آپ کو کسی ایسے حکم سے اِدھر اُدھر نہ کر دیں جو اللہ نے آپ پر اتارا ہے، پھر اگر وہ اس سے منہ موڑیں تو جان لیں کہ اللہ کا فقط یہی ارادہ ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انہیں سزا دے، اور بے شک ان میں سے اکثر نافرمان ہیں، کیا یہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بہت فیصلہ کرنے والا کون ہے، یقین رکھنے والی قوم کے لیے۔