عملی زندگی اسلامی خدمات
ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقیعملی زندگی اسلامی خدمات
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا شہیدؒ ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لئے جمیعت العلماء اسلام میں شامل ہوئے اور میں مولانا شہیدؒ کا ٹوبہ میں ایک دینی مدرستہ میں بطورِ مدرس تقرر ہوا اور بعد میں پنجاب کے نائب امیر بنے۔
1974 ء میں جامع مسجد پیلیانوالی جھنگ صدر جس کا نام اب جامع مسجد حق نواز شہیدؒ رکھ دیا گیا ہے میں بطورِ خطیب تشریف لائے آپ کی خطابت کا انداز ایک منفرد حیثیت کا حامل تھا آپ کی تقریر قصوں کہانیوں یا لطیفوں پر مبنی نہ ہوتی تھی بلکہ آپ کسی بھی موضوع پر اس کے بنیادی فلسفہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں عام فہم اور مضبوط دلائل سے مزین کر کے عوام کو ذہن نشین کراتے تھے اس عجیب انداز خطابت کی بناء پر آپ ایک محلہ کی مسجد کے خطیب نہ رہے بلکہ بہت جلد پورے شہر کے خطیب بن گئے دور دور کے محلوں سے لوگ آکر حضرت مولاناؒ کی خطابت سے مستفیض ہوتے تھے اور یہ معاملہ یہاں تک بڑھا کہ اب تو ہر جمعہ کو نہ صرف دیہاتوں کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد تشریف لاتی تھی بلکہ اکثر فیصل آباد ٹوبہ سرگودها ملتان خانیوال و دیگر اضلاع کے لوگ مولانا شہیدؒ کی تقریر سننے کیلئے تشریف لاتے تھے مولانا کی تقاریر سے صرف عوام الناس ہی مستفید نہ ہوتے تھے بلکہ علماء کرام بھی اپنی مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مولانا کی مسجد میں تشریف لاکر مولانا کی تقریر سماعت فرماتے تھے اور اپنے آپ کو نئے اور مضبوط دلائل سے مزین فرماتے تھے مولانا نے ابتداء میں توحید و رسالت کے موضوعات پر بڑی محنت فرمائی لیکن بہت جلد یہ محسوس کیا کہ جب تک نبوت کے گواہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو تسلیم نہ کرا لیا جائے اس وقت تک کوئی مسئلہ تسلیم نہیں کرایا جاسکتا مولانا شہیدؒ کا اس مسئلہ کی طرف بھر پور توجہ دینے کی وجہ جھنگ کے مخصوص مذہبی اور سیاسی حالات بھی تھے پورے ضلع میں تمام بڑے زمیندار شیعہ نظریات کے حامل تھے اور اہلِ سنت ہر لحاظ سے سیاسی جبرو استبداد کی چکی میں پس رہے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سرعام تبر بازی کی جاتی تھی۔
1960 میں حسو بلیل میں سیدنا عمرؓ کا پتلا جلایا گیا تھا روڈو سلطان میں مولانا دوست محمدؒ کو شیعوں نے شہید کر دیا تھا۔ 1969 ء میں جھنگ شہر میں باب عمر کا سانحہ پیش آچکا تھا جہاں مولانا شیریںؒ سمیت 5 اہلِ سنت شہید ہوئے تھے اور پھر 1970 ء کا الیکشن پورے ضلع میں اہلِ سنت نظریات کی بنیاد پر جیتا گیا تھا ککی نو تحصیل شور کوٹ میں شیعوں نے حافظ محمد نوازؒ کو تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا تھا ان حالات کی وجہ سے حضرت مولانا شہیدؒ نے عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلیم کرانے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف ہر قسم کی تقریری و تحریری تبرا بازی کا خاتمہ کرانے کیلئے اپنی تمام تر توجہ اس مسئلہ پر مرکوز فرمادی مولانا شہیدؒ نے تمام دیوبندی بریلوی اور اہلِ حدیث علماء کرام اور عوام الناس کو اپنے فروعی اختلافات کو نظر انداز کر کے شیعیت کے عظیم اور خطرناک ترین فتنہ کی سرکوبی کے لئے متحد ہونے کی دعوت دی اور ان کو ایک سٹیج پر لانے میں اکثر کامیاب ہوئے تحفظ ناموس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جس میں تینوں مکاتبِ فکر کے دو دو علماء کرام شامل تھےجو کافی عرصہ تک اس فتنہ کے خلاف کام کرتی رہی لیکن اس کی جدوجہد صرف اپنے شہر تک یا زیادہ سے زیادہ اپنے ضلع تک محدود تھی اس سے آگے وہ اپنا دائرہ کار نہ بڑھا سکی مولانا شہیدؒ نے بزمِ امیر شریعت بھی قائم کی تھی لیکن وہ بھی محرم میں احرار پارک کا سالانہ جلسہ یا کسی اور جلسہ کے انعقاد کی حد تک رہی ایران میں خمینی کی حکومت آجانے کے بعد پاکستان میں بھی شیعوں کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھنے لگیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف تبرا بازی پر مشتمل اردو زبان میں ایرانی لٹریچر کی بھرمار ہونے لگی گڑھ مہاراجہ میں قرآنِ پاک کو آگ لگائی گئی ڈیرہ غازی خان میں مولانا شہیدؒ نے ایرانی انقلاب اور خمینی نظریات پر کڑی تنقید کی تو ان کے خلاف مارشل لاء ضوابط کے تحت مقدمہ بنا کر ڈیرہ غازی خان جیل میں قید کر دیا گیا ان حالات میں مولانا شہیدؒ نے محسوس کیا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے نوجوانوں پر مشتمل ایک مستقل جماعت قائم کی جائے۔