سپاه صحابہ (رضی اللہ عنہم) پاکستان
ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقیسپاهِ صحابہؓ پاکستان:
چنانچہ 20 ذی الحجه 1405 ھ بمطابق 6 ستمبر 1985 کو اپنی مسجد میں ہی سپاہِ صحابہؓ پاکستان کی بنیاد رکھی یہ شروع میں تو صرف ایک محلہ کی تنظیم تھی لیکن بہت جلد پورے ملک کی ایک بہت بڑی بلکہ کارکنوں کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم بن گئی سپاہِ صحابہؓ نے ابتداء میں ہی جھنگ میں ایک عظیم الشان تاریخی دفاعِ صحابہؓ منعقد کر کے مقبولیت و محبوبیت حاصل کرلی اور سپاہِ صحابہؓ کے موجودہ قائد مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جیل میں تھے جلسہ کے شرکاء نےدھمکی دی کہ اگر آج شام تک مولانا فاروقی کو رہا نہ کیا گیا تو شاہراہ بند کر دی جائے گی لہٰذا رات ہی کو مولانا فاروقی کو رہا کر دیا گیا اور کانفرنس میں آخری خطاب انہی کا ہوا جو رات 2 بجے سے تین بجے تک جاری رہا اس مقبولیت سے خائف ہو کر سپاہِ صحابہؓ کے ذمہ دار افراد بشمول امیر عزیمت حضرت مولانا حق نواز جھنگویؒ خلاف شیعوں نے گھناؤنی سازشیں شروع کر دیں اور 31 مئی 1986 ء بمطابق 21 رمضان المبارک 1406 ھ جھنگ کے شیعوں نے اپنا ایک آدمی خود ہی قتل کر کے مولانا شہیدؒ سپاہِ صحابہؓ کے مرکزی صدر شیخ حاکم علی اس وقت مرکزی جنرل سیکرٹری نسیم صدیقی جھنگ کے سابق ایم پی اے شیخ محمد یوسف کے دو صاحبزادوں سمیت سترہ افراد کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ قائم کر کے فیصل آباد جیل میں پابند سلاسل کر دیا گیا جس سے پورے ملک میں اہلِ سنت میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جوں جوں محرم قریب آتا گیا بےچینی بڑھتی گئی آخر شیعوں کے سر کردہ افراد نے محرم پر ماتمی جلوسوں کے عدمِ تحفظ کے خدشہ کی بناء پر اکابر اہلِ سنت سے خود درخواست کر کے ایک معاہدہ کیا جس میں شیعوں نے ہر قسم کی تبرا بازی بند کرنے کی پابندی قبول کی اور اہلِ سنت کے امیران رہا ہوئے یہ معاہدہ سپاہِ صحابہؓ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
سپاہ صحابہؓ کے قائد حضرت مولانا حق نواز جھنگویؒ کے خلاف پورے ملک میں 16 ایم پی او دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمات کا ایک جال بچھا دیا گیا گرفتاریاں نظر بندیاں زبان بندیاں ایک معمول بن گیا بیک وقت مقدمات کا شمار ایک سو سے تجاوز کر چکا تھا لیکن مولانا شہیدؒ کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی آپ نے اپنے مشن میں ذرہ بھر بھی لچک پیدا نہ کی اس استقامت و عزیمت کو سراہتے ہوئے سپاہِ صحابہّ کے ایک اہم اور بھر پور اجلا میں سپاہِ صحابہؓ کے ایک اور معزز رکن اکرام الحق صدیقی نے حضرت مولانا شہیدؒ کے لئے امیر عزیمت کا خطاب تجویز کیا جسے ہاؤس نے متفقہ طور پر منظور کر لیا اور پھر اس خطاب کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ شہادت تک حضرت مولانا شہیدؒ کی دیگر صفات میں یہ خطاب سب سے زیادہ نمایاں اور معروف تھا شہادت کے بعد اب اس سے بھی بہتر خطاب "شہید ناموسِ صحابہؓ " کا اضافہ ہوا امیر عزیمت حضرت مولانا حق نواز شهیدؒ رخصت پر عمل فرما سکتے تھے لیکن آپ نےتادم زندگی عزیمیت کو اختیار فرما کر امیر عزیمت ہونے کا حق ادا فرما دیا۔