سانحہ لیہ
ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقیسانحہ لیہ:
13 جون 1987ء کا سانحہ یہ مولانا شہیدؒ کی زندگی کا ایک عظیم سانحہ تھا جمن شاہ ضلع لیہ میں جامع رحمانیہ کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مولانا شہیدؒ نے اپنے مخصوص عنوان اور انداز میں تقریر فرمائی جلسہ بعافیت ختم ہوگیا لیکن لیہ انتظامیہ نے بلا جواز رات کی تاریکی میں گھروں پر چھاپے مار کر گرفتاریاں شروع کر دیں مولانا شہیدؒ ان کے ڈرائیور محمد مقبول سپاہِ صحابہؓ لیہ کے سرپرست مولانا عبد الصمد آزاد شہیدؒ اور صدر قاری محمد منور سمیت کافی افراد گرفتار کر لئے گئے مولانا شہیدؒ مولانا آزاد اور قاری محمد منور کو ملتان جیل میں نظر بند کر دیا گیا ضلعی انتظامیہ لیہ کو حالات کی درستگی کے لئے سپاہِ صحابہؓ کے مرکزی صدر شیخ حاکم علی جنرل سیکرٹری محمد یوسف مجاہد و کنویز پنجاب مولانا محمد ایثار القاسمی شہیدؒ ایم این اے جھنگ نے ایک ہفتہ کی مہلت دی اور حالات کی سنگینی کا احساس دلایا لیکن نااہل انتظامیہ نے کوئی مثبت کارروائی نہ کی آخر 19 جون 1987ء کو سپاہِ صحابہؓ کی اپیل پر ایک بہت بڑا لیکن پر امن جلوس لیہ کی طرف مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی قیادت میں روانہ ہوا راستہ میں چوبارہ کے مقام پر جلوس روکے جانے کی وجہ سے مشتعل عوام نے اسٹنٹ کمشنر تحصیل چوبارہ کو اغواء کرلیا تب ضلعی انتظامیہ لیہ کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنے اے سی کے بدلہ مولانا شہیدؒ کو فوراََ رہا کرنے کا وعدہ کیا یہ عظیم الشان جلوس پر امن طریقہ سے لیہ سے واپس جھنگ آرہا تھا کہ چند خبیث اور نا اہل شیعہ پولیس افسران نے چوک اعظم اور چوبارہ کے درمیان گھیرے میں لے کر جلوس پر انتہائی ظالمانہ طریقہ سے اندھا دھند فائرنگ کر کے تین افراد ضیاء الرحمن ساجد (فیصل آباد) محمد بخش (کبیر والا) اور صوفی عبدالغفار (عبدالحکیم) کو موقعہ پر شہید کر دیا اس ظلم و بربریت پر کراچی سے خیبر تک زبردست احتجاج ہوا ضلعی انتظامیہ لیہ کے خلاف قانونی اور عدالتی چارہ جوئی کی گئی آخر ڈی سی لیہ اور حکومت پنجاب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی مولانا شہیدؒ مولانا عبد الصمد آزاد اور قاری محمد منور کی نظر بندی کا خاتمہ اور تمام مقدمات میں رہائی کا فیصلہ کیا گیا اور ضلعی انتظامیہ ملتان خود اپنی نگرانی میں گاڑیوں کے ایک طویل جلوس کی شکل میں اپنی ضلعی حدود تک پہنچا کر گئی مولانا کو ملتان جیل سے مورخہ 27 اگست1987 ء کو رات 8 بجے رہا کیا گیا تھا لیکن راستہ میں جگہ جگہ کارکن استقبال کیلئے موجود تھے اسلئے جگہ جگہ رکنا پڑا اس طرح رات کو 2 بجے ایک بڑے جلوس کی شکل میں جھنگ پہنچے کارکنان کی محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کارکنان نے وہ کار جس میں مولانا تشریف فرما تھے اپنے کندھوں پر اٹھالی۔