Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

قاتلانہ حملے اور شہادت

  ابوریحان ضیاء الرحمن فاروقی

قاتلانہ حملے اور شہادت:

ان تمام مصائب و مشکلات کے باوجود مولانا شہیدؒ اور سپاہِ صحابہؓ بڑی سرعت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے اور اب عالمی دفاعِ صحابہؓ کانفرنس کی تیاری کی جا رہی تھی تاکہ شیعیت کے خلاف پورے عالم اسلام کی ایک آواز بن کر ابھرے اب شیعیت یہ محسوس کرچکی تھی کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کو ہمیشہ کے لئے اپنے راستے سے ہٹائے بغیر پاکستان میں ایرانی انقلاب کا راستہ ہموار نہیں کیا جاسکتا چنانچہ نئی حکمت عملی کے تحت ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے پہلا حملہ مورخہ89ـ10ـ29 کو جھنگ سرگودھا روڈ پر ہوا جس کا پرچہ درج کرا دیا گیا فقہ جعفریہ کے قائد ساجد نقوی جھنگ کا شیعہ عالم غلام عباس نجفی ایم پی اے سید ظفر عباس شاہ اور عابدہ حسین ایم این اے کے نام نامزد کئے گئے تھے لیکن اس ایف آئی آر کا کوئی ملزم بھی گرفتار نہیں کیا گیا چند دن بعد 90۔1۔25 کو جڑانوالہ کا ایک شخص طفیل علی مولانا شہیدؒ کے گھر مولانا کے قتل کے ارادہ سے داخل ہوا جس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا لیکن اس کے اقبالِ جرم کے باوجود اس سے بھی کوئی مزید پوچھ گچھ نہ کی گئی 15 فروری 1990ء کو مولانا شہیدؒ کو بیرون ملک سے ایک فون آتا ہے جس میں مطلع کیا جاتا ہے کہ ان کے مولانا عبدالستار تونسویؒ اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے قتل کے منصوبہ کی بین الاقوامی سازشیں تیار کی جاچکی ہیں مولانا شہیدؒ نےمورخہ 16 فروری کے جمعہ کے خطبہ میں حکومت کو خبردار کیا کہ اس سازش کو ناکام بنایا جائے مولاناؒ نے اس سلسلہ میں صدر پاکستان جناب غلام اسحاق خان صاحب کو ایک خط بھی لکھا کیونکہ مولاناؒ سمجھتے تھے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں باہمی چپقلش کی وجہ سے کوئی بھی تعمیری کام نہیں کر رہی ہیں اس لئے انہوں نے یہ خط صدرِ پاکستان کو لکھا تھا جو یقیناً ان کو مل گیا ہوگا لیکن شاید ان کے عملہ میں موجود کسی شیعہ نے یہ خط خرد برد کر لیا ہو البتہ یہ بات قطعی ناقابل یقین ہے کہ ضلعی انتظامیہ تک 6 روز گزر جانے کے بعد بھی مولاناؒ کی تقریر کی رپورٹ نہ پہنچی ہو جبکہ مولانا ؒ کی ہر تقریر کی رپورٹ کے لئے کئی سرکاری ایجنسیاں ہمیشہ موجود ہوتی تھیں مولانا حق نواز شہیدؒ کو مورخه 22 فروری 1990ء کو رات سوا آٹھ بجے ان کے مکان کے دروازے پر ریوالوار سے پے در پے گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا انا للہ وانا اليه راجعون۔

مولانا شہیدؒ کی شہادت کی خبر اندرون و بیرون ملک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں میں ایک کہرام مچ گیا مولاناؒ کی شہادت کے بعد ضلعی انتظامیہ جھنگ نے جس انداز میں واقعات کو ٹمٹایا اور اہلِ سنت سے جو زیادتیاں کیں انکی وجہ سے اب یقین ہوچلا ہے کہ مولاناؒ کے انتباہ کے باوجود ان کی حفاظت کا قصداً بندوبست نہیں کیا اور ان کے قتل کی سازش میں انتظامیہ براہ راست ملوث ہے جس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ مولانا صاحبؒ پر 9۔10۔29 کے قاتلانہ حملہ کے بعد شہر میں ہڑتال ہوئی احتجاجی جلسہ ہوا ملزم نامزد کئے گئے لیکن کسی ایک شخص کی بھی گرفتاری نہ ہوئی دوسرے حملہ میں طفیل نامی شخص نے سرعام کہا کہ وہ مولانا حق نوازؒ کو قتل کرنے آیا ہے اس اقبالِ جرم کے باوجود اس کو چھوڑ دیا گیا واقعہ شہادت سے چھ روز قبل مولانا صاحبؒ اپنی جمعہ کی تقریر میں اپنے قتل کے منصوبہ کی نشاندہی فرماتے ہیں شہر میں بچہ بچہ کی زبان پر یہ بات عام ہوگئی تھی لیکن ضلعی انتظامیہ نے مولاناؒ کے تحفظ کے لئے کوئی معمولی اقدام بھی نہ کیا کیا یہ سارے امور اس بات کا کافی ثبوت نہ ہیں کہ ضلعی انتظامیہ مولاناؒ کے قتل میں براہِ راست ملوث تھی۔