Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قرآن کا وہ حکم جس پر صرف مولائے کائنات اسد اللہ الغالب علی کل غالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے عمل کیا۔

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ممتاز فضیلتوں میں سے ایک فضیلت ہے جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں کہ قرآن کی ایک ایسی آیت جس پر صرف آپ نے عمل کیا اور پھر اس کا حکم منسوخ ہو گیا تو کوئی دوسرا صحابی اس پر عمل نہیں کر پایا اور منسوخ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہوا ملاحظہ ہو :
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةً١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ المجادلہ: آیت، 12 )
ترجمہ: مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابنِ کثیر دمشقی (متوفی774ھ) رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
وقد قيل إنه لم يعمل بهذه الآية قبل نسخها سوى علي بن أبي طالب رضي الله عنه
اور یہ کہا گیا کہ اس آیت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے اس کے منسوخ ہونے سے پہلے عمل نہیں کیا۔
( كتاب تفسير ابن كثير ط العلمية جلد، 8 صفحہ، 80)
امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری رحمۃ اللہ (متوفی310ھ) اس آیت کے تحت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
حدثنا أبو كريب، قال: ثنا ابن إدريس، قال: سمعت ليثا، عن مجاهد، قال: قال علي رضي الله عنه: آية من كتاب الله لم يعمل بها أحد قبلي، ولا يعمل بها أحد بعدي، كان عندي دينار فصرفته بعشرة دراهم، فكنت إذا جئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم تصدقت بدرهم، فنسخت فلم يعمل بها أحد قبلي
يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة (سورۃ المجادلة: آیت، 12)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کر سکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھنا کر میں نے دس درہم لے لئے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دے دیا پھر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپﷺ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم منسوخ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کر سکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔
( كتاب تفسير الطبري جامع البيان - ط ہجر: جلد، 22 صفحہ، 483)
سند میں موجود "ليث بن أبي سليم" کی متابعت "ابن أبي نجيح" (ثقہ) نے کر رکھی ہے باقی سند کے سارے رجال ثقہ ثبت ہیں۔
امام عبدالرزاق صنعانیؒ (متوفی211ھ) نے اپنی تفسیر میں اپنی سند سے سیدنا کا قول نقل کیا جس میں "أيوب بن كيسان" (ثقہ حجت) نے بھی لیث کی متابعت کر رکھی ہے۔
( كتاب تفسير ابنِ كثير ط العلمية جلد، 8 صفحہ، 80، 81)
( كتاب تفسير الطبري جامع البيان ط ہجر: جلد، 22 صفحہ، 482 وسندہ صحیح )
( كتاب تفسير عبد الرزاق: جلد، 3 صفحہ، 293 و سندہ صحیح)
امام ابوبکر بن ابی شیبہؒ (متوفی 235ھ) نے باب فضائل علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے تحت اس اثر کو باسند ذکر کیا۔
(كتاب المصنف  ابن أبی شيبة  الحوت: جلد، 6 صفحہ، 373)
اس آیت مبارکہ کا حکم منسوخ کیسے ہوا یہ واقعہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ  سے ہی مروی ہے:
امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ (متوفی 279ھ) فرماتے ہیں:
حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا عبيد الله الاشجعي، عن الثوري، عن عثمان بن المغيرة الثقفي، عن سالم بن ابي الجعد، عن علي بن علقمة الانماري، عن علي بن ابي طالب، قال: لما نزلت يايها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة سورة المجادلة آية 12 قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " ما ترى دينارا؟ " قلت: لا يطيقونه، قال: " فنصف دينار؟ " قلت: لا يطيقونه، قال: " فكم؟ " قلت: شعيرة، قال: " إنك لزهيد "، قال: فنزلت: ءاشفقتم ان تقدموا بين يدي نجواكم صدقات سورة المجادلة آية 13 الآية، قال: " فبي خفف الله عن هذه الامة ". قال: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه، ومعنى قوله شعيرة: يعني وزن شعيرة من ذهب، وابو الجعد اسمه رافع.
سیدنا علی رضی اللی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: اے ایمان والو! جب رسول اللہﷺ سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے مجھ سے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: تو کیا آدھا دینار مقرر کر دوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: پھر کتنا کر دوں؟ میں نے کہا: ایک جو کر دیں، آپ نے فرمایا: تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کیا تم اس حکم سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیا کرو علی رضی اللی عنہ کہتے ہیں: اللہ نے میری وجہ سے فضل فرما کر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرما دی (یعنی اس حکم کو منسوخ کر دیا)
امام ترمذی رحمہ الله کہتے ہیں:
  1. یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
  2. علی رضی اللہ عنہ کے قول «شعيرة» سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔
(سنن ترمذی، 3300 اسناده ضعيف لضعف علي بن علقمة)
معلوم ہوا کہ اس آیت مبارکہ کے حکم پر عمل کرنے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے اور پھر اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی اور اس آیت کی ناسخ آیت اسی سے اگلی آیت ہے۔
ھذا ما عندی والعلم عند الله