Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کافر کے جنازہ وغیرہ میں شرکت کرنا


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسائل میں کہ

  1.  چند مسلمان قصداً ہندوؤں یعنی کافروں کی میت کے ساتھ شریک ہو کر کافروں کے ساتھ کافروں کے رسوم ادا کرتے ہیں، ایسے مسلمانوں پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
  2. وہی مذکورہ بالا مسلمان مسلمانوں کے جنازہ اور تجہیز و تکفین میں شریک نہیں ہوتے۔ باوجود یہ کہ ان کو خبر ہوتی ہے ان کا کیا حکم ہے؟
  3.  مذکورہ بالا مسلمانوں کے ساتھ دوسرے دین دار مسلمان برادرانہ رسوم برتیں گے یا نہیں؟

جواب:  اگر کافر مر جائے تو مسلمان اس وقت تک کفن و دفن کر سکتا ہے جب کوئی کافر اس کو کفن دفن کرنے والا نہ ہو۔ ایسی صورت میں بغیر مراعات سنت اس کو الگ گڑھے میں دبا دیں۔ اور اگر اس کے مذہب والے موجود ہوں تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین نہ کرے اگرچہ وہ کافر مسلمان کا قریبی رشتہ دار ہو۔

تنویر الابصار میں ہے ویغسل المسلم ویکفن ویدفن قریبة الکافر الاصلی عند الاحتیاج من غیر مراعاۃ السنة

در مختار میں ہے: فیغسله غسل الثوب النجس ویلقه فی خرقة ویلقیه فی حفرۃ

اور صورتِ مسئولہ میں جبکہ ہندؤ موجود ہو تو، مسلمان کی شرکت کی کوئی حاجت نہیں بلکہ اس کی شرکت سے لوگوں کی کثرت ہو گی اور اس سے کافر کے جنازے کی شان نمایاں ہو گی جس کی ہرگز اجازت نہیں۔

2: اگرچہ نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے کہ بعض نے ادا کر لیا تو دوسرے لوگ بری الذمہ ہیں مگر اس شخص کافروں کے جنازے میں شریک ہونا اور مسلمانوں کے جنازے میں شریک نہ ہونا ظاہر کرتا ہے، کہ کافروں کی طرف سے اس کا میلان ہے۔ اور قران کریم میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے

وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ(سورۃ الھود: آیت، 113)

ترجمہ: ظالموں کی طرف میلان نہ کرو کہ تمہیں اگ چھوئے گی۔

3: اس شخص سے توبہ کرائیں اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ ائے تو اسے علیحدہ کر دیں۔

(فتاویٰ امجدیہ: جلد، 1 صفحہ، 316)