Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شاتم رسول اللہﷺ اور شاتم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے گستاخ کی سزا اور شاتم رسولﷺ کو پناہ دینے والے یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے تعلق اور دوستی رکھنا


سوال: جو شخص بلحاظ اسم مسلمان ہو اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں علیہم السلام اور حضرت مصطفیٰﷺ کی ہنسی اڑاتا ہو، ان کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہو جو ازواجِ مطہرات رضی اللّٰہ عنہن کی شان میں گستاخی اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہو اور قرآن کریم کے بارے میں یہ کہتا ہو کہ یہ کوئی تاریخ نہیں فقط ناول ہے اور اک دیوانے شخص کا خواب ہے جسے کہانی کا رنگ دیا گیا ہے (معاذاللّٰہ) تو ایسے ملعون شخص کے لئے علمائے کرام کا کیا فتویٰ ہے؟

عام مسلمانوں کے لیے حکامِ وقت اور حکومتِ وقت کے لیے ازراہِ کرم بتائیں ایسے مسلمانوں کے لئے کیا حکم ہے جو ایسے گستاخ کو قتل کرنا چاہتے ہوں جبکہ وہ ایک غیر اسلامی ملک (برطانیہ یا امریکہ) میں موجود ہو کیا اس ملک کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم رکھے جا سکتے ہیں؟ جبکہ وہ ملک اس ملعون کی کتاب کی اشاعت کی پشت پناہی بھی کر رہا ہو اور ایسے ملعون شخص کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی ہو۔

جواب: صورت مسئولہ میں جو آدمی (کافر ہو یا مسلم) حضرت محمدﷺ پر ہنسی اڑاتا ہے یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارہ میں استہزاحیہ انداز اختیار کرتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتا ہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا ان کو گالی دیتا ہے یا ان کی طرف بری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللّٰہ عنہن اور امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہن کو بازاری عورت اور طوائفوں کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتا ہے تو وہ آدمی سراسر کافر مرتد اور زندیق اور ملحد ہے۔

اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں حرکت کرتا ہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائیگی اور جو شخص اس کے کفر میں شک کرتا ہے وہ بھی کافر ہے اور یہ ائمہ اربعہ کا مذہب ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے جیسا کہ امام تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبد العلیم عبد السلام الحرامی الدمشقی المعروف بابن تیمیہؒ نے اپنی مشہور کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں نقل فرمایا ہے کہ:

عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر نبی کریمﷺ کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے ابن منذرؒ نے فرمایا کہ عام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریمﷺ کو گالی دیتا ہے اس کی حد قتل کرنا یے اور اسی بات کو سیدنا مالکؒ، سیدنا لیثؒ، امام احمدؒ ، سیدنا اسحاقؒ نے بھی ا ختیار فرمایا ہے اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مذہب ہے اور ابوبکر فارسیؒ نے اصحاب امام شافعیؒ سے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ شاتم رسولﷺکی حد قتل ہے محمد بن سحون نے فرمایا کہ علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسولﷺ اور آپﷺ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لئے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم قتل ہے اور جو آدمی اس کے کفر و عذاب کے بارے میں شک وشبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔

مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہوگئی کہ باجماع اُمت نبی کریمﷺ کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنقیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے اور آخرت میں اس کے لئے درد ناک عذاب ہے اور جو آدمی اس کے کافر ہونے اور مستحق عذاب ہونے میں شک کریگا وہ بھی کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔

پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب میں قائم ہے اور اس پر مصر ہے تو اس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔

چنانچہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ: جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتا ہے یا بار بار مرتد ہوتا رہتا ہے اس کو فوراً قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے: کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اور سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ متعدد بار مرتد ہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالکؒ امام احمدؒ امام لیثؒ کا مذہب ہے امام ابو یوسفؒ سے مروی ہےکہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بار بار کرے تو اسے حیلہ سے بےخبری میں قتل کر دیا جائے.

اسی طرح امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہن کی شان میں گستاخی کرنے سے آنحضرتﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا و آخرت میں اللّٰہ کی لعنت ہوتی ہے.

اسی لئے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ امہات المؤمنین رضی اللّٰہ عنہن کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے.

چنانچہ سیدہ عائشہؓ کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور سیدہ عائشہؓ کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن مجید میں مذکور ہے فقہائے کرام نے بھی اس کی رو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہےجو سیدہ عائشہؓ پر گناہ کی تہمت لگاتا ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة سیدہ عائشہؓ کو تہمت لگانے والا شخص بلاشبہ کافر ہے۔

دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت محمدﷺ اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں تبلیغ دین اور اشاعتِ حق میں بالکل امین اور حق گو ہیں اور اس منصب کو بالکل صحیح صحیح طریقہ سے انجام دینے والے ہیں اور دین اسلام کی تکمیل فرمائی گئی ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور خامی نہیں ہوئی ہے اسی طرح قرآن مجید کو اللّٰہ کا کلام پاک سمجھتے ہیں قرآن مجید کو غیر اللّٰہ کا کلام کہنا سراسر کفر ہے۔

اسی لئے تمام اسلامی حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ اگر کافر مرتد زندیق انکی حکومت کے ماتحت ہے تو فوری طور پر قتل کرکے اسے جہنم رسید کریں اگر ان کی حکومت میں نہیں لیکن سفارتی تعلقات کے ذریعہ اس پر دباؤ ڈالنا کسی بھی طریقے سے ممکن ہے تو اس پر دباؤ ڈال کر اسے قتل کرنا ضروری ہے ورنہ ایک بدبخت ازلی اور شاتم رسولﷺ کو پناہ دینے والے یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک سے تعلق اور دوستی رکھنا جائز نہیں ہو گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

لا تجد قوما يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من هادالله و رسوله ولو كانو ابائھم او ابنائھم او اخوانھم او عشیرتھم جو لوگ اللّٰہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللّٰہ اور اسکے رسول کے برخلاف ہیں اور ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا اپنے گھرانے کے ہوں.

ياايها الذين امنوا لا تتخذوا عدوي و عدوكم اولياء تلقون اليهم بالمودة اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو۔

اور اگر حکومت اس امر عظیم کو انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ طاقت بشری کے مطابق کوشش کرکے اللّٰہ کی زمین کو شاتم رسولﷺ سے پاک و صاف کر دے کیونکہ یہ اظہارِ دین خداوندی کی تکمیل اور اعلائے کلمۃ اللّٰہ کا ذریعہ ہے جب تک زمین سے شاتم رسولﷺ کو ختم نہیں کیا جائےگا۔ اس وقت تک مکمل دین اللّٰہ کیلئے نہیں ہوتا جو اللّٰہ نے دیا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے کہ ایسے تمام مرتکبین کبیرہ جن کے گناہوں کا ضرر دوسروں کی طرف متعدی ہوتا ہے ان کو قتل کرنا جائز ہے اور قابلِ ثواب کا مستحق ہے۔

(فتاویٰ ختم نبوت: جلد، 3 صفحہ، 325)