Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ مذہب میں تقیہ کرنا ثواب ہے، اس لیے ان سے نکاح نہ کیا جائے


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید ایک کٹر سنی ہے اور اس کا انتقال ہو چکا ہے، زید کی لڑکی عشرت کی پرورش اپنی پھوپھی کے یہاں ہوئی۔ (B:A) تک تعلیم حاصل کی ہے، کیونکہ عزیزوں میں کوئی دوسرا سر پرست نہیں ہے، اب وہ شادی کی عمر میں ہے۔ ایک شیعہ لڑکے کا رشتہ آیا ہے لڑکے کا صرف باپ ہے، چچا، پھوپھا الگ الگ ہیں صرف باپ بیٹے باہم شریک ہیں۔

چونکہ تہذیب شیعہ کے باعث پس و پیش ہوتی ہے اور لڑکے کی طرف سے زور دار کوشش ہو رہی ہے، مگر محض مذہب اور اعتقاد کے فرق ہونے کے باعث ادھر لڑکی والے کی طرف سے کچھ نہیں کہا جاتا ہے اور لڑکا اتنا ضرور کہتا ہے کہ میں شیعہ مذہب کا پابند نہیں ہوں، میں ماتم وغیرہ نہیں کرتا ہوں، گھر میں والد صاحب مجلس وغیرہ ضرور کرتے ہیں مگر میں نکل جاتا ہوں والله اعلم یوں تو زبانی بہت کچھ یقین دلاتا ہے مگر آگے چل کر عقد ہونے کے بعد خدا جانے کیا ہو۔ لڑکے کا چال چلن، اخلاق وغیرہ بہت اچھا ہے، شرافت سے نظر نیچے کر کے باتیں کرتا ہے، محض اکلوتا لڑکا ہے، اس لیے اس کے والد اس کی مرضی کے مطابق اس کا عقد کرنا چاہتے ہیں۔

پس یہ صاف صاف وضاحت کے ساتھ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ یہ رشتہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ عاقبت لڑکی کی تو نہ برباد ہو گی؟ اگر کیا جائے تو کن شرائط کے ساتھ اس کو تبدیل عقائد کرنا ہو گا؟ اب کیسے ایک یتیم بچی گناہوں سے بچ سکے؟ بالفرض اگر عقد ہونا طے ہو تو کن کن شرائط کے ساتھ اور پہلے کیا کیا کرنا ہو گا کہ وہ راستہ لڑکا اختیار کرے تب عقد کی بات چیت ہو؟ جتنے نقائص ہوں اسے تحریر فرمائیں اور اس کے درستگی کی تدبیر فرمائیں گا۔ جلد تسکین بخش جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب: اگر لڑکا مذہب شیعہ سے اپنی برات ظاہر کرے اور علی الاعلان توبہ کرے کہ میں شیعہ کے فاسد عقیدوں سے صدق دل سے توبہ کرتا ہوں اور صدق دل سے سنی مسلمان ہوتا ہوں، اور چاروں خلفاء کو برحق تسلیم کرتا ہوں، اور اس مضمون کی تحریر بھی حاصل کرلی جائے تو فی الحال اس سے شادی جائز ہوگی لیکن چونکہ شیعہ مذہب میں تقیہ کار ثواب ہے، اس لیے آئندہ کیلئے خوف ہے کہ کہیں لڑکی کی زندگی تباہ نہ ہو جائے اور اگر اس نے تقیہ کر لیا تو۔

(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 2 صفحہ، 403)