شیعہ عقائد کی رو سے کون لوگوں کو اپنی مرضی سے جنت یا جہنم میں داخل کرے گا؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ عقائد کی رو سے کون لوگوں کو اپنی مرضی سے جنت یا جہنم میں داخل کرے گا؟
جواب: یہ کام سیدنا علیؓ کریں گے۔ (ہم اس گمراہی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں) چنانچہ کلیلنی روایت کرتا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا:
میں جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والا اللہ کا کارندہ ہوں۔ کوئی بھی شخص میری تقسیم کے بغیر ان میں داخل نہیں ہو گا۔
(اصول الكافی: جلد 1، صفحہ، 142 كتاب الحجة، حدیث نمبر، 3 باب أن الأئمه هم أركان الأرض)
پھر شیعہ علماء گمراہی ضلالت میں یہاں تک بڑھ گئے کہ انہوں نے روایت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
میں حساب والے دن تقسیم کرنے والا دیّان ہوں گا۔ میں لوگوں کو جہنم اور جنت تقسیم کروں گا۔ کوئی بھی شخص میری تقسیم کے بغیر ان میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ بے شک میں فاروقِ اکبر ہوں۔
(بصائر الدرجات الکبریٰ: جلد، 2 صفحہ، 299 حدیث نمبر، 4 باب فی أمير المومنين علیؓ تفسير فرات: صفحہ، 178 حدیث نمبر، 23 واللفظ له، سورة يونس، بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 153 ح، 42 باب أنه لا يحجب عنه شيئ من احوال شيعتهم)
ابو عبد اللہ پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منبر رکھا جائے گا جسے ساری مخلوق دیکھے گی۔ پھر ایک شخص اس پر چڑھے گا۔ اس کے دائیں جانب ایک فرشتہ کھڑا ہو گا اور بائیں جانب بھی ایک فرشتہ کھڑا ہوگا۔ دائیں جانب والا فرشتہ اعلان کرے گا اے تمام مخلوقات! یہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب ہیں، جسے چاہیں گے جنت میں داخل کریں گے۔
اور بائیں جانب والا فرشتہ اعلان کرے گا اے تمام لوگوں کی جماعت! یہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب ہیں، وہ جسے چاہیں گے جہنم رسید کریں گے۔
(بصائر الدرجات: جلد، 2 صفحہ، 298 ح، 1 باب فی امير المؤمنينؓ أنه قسيم الجنة والنار، علل الشرائع: جلد،1 صفحہ، 163حدیث نمبر، 4 باب، 130 العلة التی من أجلها صار علیؓ ابن أبی طالب قسيم الله بين الجنة والنار)
بلکہ جنت کے دروازوں کی زنجیر جب ہلے گی تو ٹن ٹن کی آواز سنائی دے گی جو کہہ رہی ہوگی یا علیؓ!
پھر شیعہ نے رسول اللہﷺ پر افتراء باندھتے ہوئے روایت کی آپﷺ نے فرمایا:
بے شک جنت کے دروازے کی زنجیر سرخ یاقوت کی بنی ہے جو سنہری طاق پر لگی ہے۔ جب زنجیر طاق پر لگتی ہے تو اس سے ٹن ٹن کی آواز آتی ہے جو کہتی ہے۔ یا علیؓ!
(علل الشريع: جلد، 1، صفحہ، 164 ح، 5 باب، 130 العلة التی من أجلها صار علىؓ بن أبی طالب قسيم الله بين الجنة والنار)