شیعہ اوصیاء کس کی اختراع ہے۔ اوصیاء کی تعداد کتنی ہے اور آخری وصی کون ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ اوصیاء کس کی اختراع ہے۔ اوصیاء کی تعداد کتنی ہے اور آخری وصی کون ہے؟
جواب: جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکا ہے کہ سب سے پہلے یہ عقیدہ عبداللہ بن سبا یہودی نے گھڑا تھا۔ ابنِ بابویہ القمی نے شیعہ کے عقائد بیان کرتے ہوئے کہا شیعہ کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے جو حکمِ الٰہی کے مطابق مقرر کیا جاتا ہے۔ نیز اس نے بیان کیا کہ اوصیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔
(الاعتقادات: صحفہ، 92 باب فی الاعتقاد فی عدد الانبياء والأوصياء علیہم السلام)
تعلیق: انہوں نے ایک روایت یہ بھی گھڑی ہوئی ہے کہ: ابو الحجاز سے روایت ہے: سیدنا علیؓ نے فرمایا رسول اللہﷺ پر ایک لاکھ چوبسیں ہزار انبیاء کرام کا خاتمہ ہوا تھا، اور مجھ پر ایک لاکھ چوبیس ہزار اوصیاء کا خاتمہ ہوا ہے۔ اور مجھے اس چیز کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جس کا مجھ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کو مکلف ٹہرایا گیا تھا۔ واللہ المستعان۔
(بصائر الدرجات الكبریٰ: جلد، 1 صفحہ، 252 ح، 2 نادر من الباب)
ملاں مجلسی نے اپنی اخبار میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا علیؓ آخری وصی ہیں۔ لہٰذا وہ روایت کرتا ہے کہ سیدنا علیؓ کی وفات کے بعد سیدنا حسن بن علیؓ نے خطبہ ارشاد کیا اور امیر المومنینؓ کا ذکر کیا تو فرمایا سیدنا علیؓ اوصیاء کے آخری شخص اور خاتم الابنیاء کے وصی ہیں۔ وہ شہداء، صدیقین اور صالحین کے امیر ہیں۔
(بحار الأنوار: جلد، 43 صفحہ، 361 حدیث نمبر، 3 باب خطبه بعد شهادة أبيه وبيعة الناس له)
اس روایت کا یہ مطلب ہوا کہ امیر المومنین علیؓ بن ابی طالب کے بعد کوئی وصی نہیں ہے اور ان کے بعد والے ائمہ کی امامت باطل ہے کیونکہ وہ اوصیاء نہیں ہیں، اس طرح یہ بات شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے مذہب کو جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیتی اور ان کی مذہبی عمارت کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ لیکن شیعہ علماء کی توجہ اس طرف نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
(سورۃ النساء: آیت، 82)
ترجمہ: اور اگر یہ الله تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔