شیعہ مذہب میں امامت کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ مذہب میں امامت کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
جواب: شیعہ کے نزدیک امامت کا مقام و مرتبہ بذیل امور سے عیاں ہوتا ہے:
- امامت نبوت کے ہم پلہ ہے۔ شیعہ علماء کہتے ہیں امامت نبوت جیسا منصب الہٰی ہے۔
(اصل الشيعة وأصولها: صفحہ، 61 المقصد الثانی)
اور کہتے ہیں: حق بات تو یہ ہے کہ امامت بھی نبوت کی طرح اصولِ دین میں سے ہے۔
(الإمامة فی أهم كتب الكلامية صحفہ، 43 الإمامة من الأصول للمعاصر على الميلانی)
اور یہ بھی ان کا عقیدہ ہے کہ: امامت کا مرتبہ نبوت کے برابر ہے۔
(حق اليقين فی معرفة أصول الدين: جلد، 1 صفحہ، 185 كتاب الإمامة: الفصل الأول، لعبد الله الشبر)
خمینی کہتا ہے: امامت یومِ اول سے لے کر رسول اللہﷺ کی آخری سانسوں تک نبوت کے بالکل ہم پلہ و برابر تھی۔
(كشف الأسرار: صفحہ، 173 الحديث الثانی فی الإمامة)
اس لیے شیعہ عالم البحرانی نے امیر المومنین سیدنا علیؓ بن ابی طالب پر الزام تراشی کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جس شخص نے میری ولایت کا اقرار نہ کیا اسے نبوتِ محمدیﷺ کا اقرار کوئی نفع نہیں دے گا آگاہ ہو جاؤ! نبوت اور امامت دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
(بحار الأنوار: صفحہ، 26 جلد، 3 حدیث نمبر، 1 باب نادر فی معرفتهم بالنورانية)
- پھر غلو اور کج روی میں بڑھتے ہوئے کہتےہیں امامت، نبوت سے بلند تر اور عظیم ترین ہے۔
شیعہ کے شیخ اور علامہ الجزائری لکھتے ہیں: امامت نبوت و رسالت سے افضل واشرف ہے۔
(قصص الأنبياء: صفحہ، 13 للجزائری)
جب کہ کلینی کی احادیث میں ہے: بے شک امامت مرتبہ نبوت سے بلند تر ہے۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 124 كتاب الحجة باب طبقات الانبياء و الرسل)
- پھر غلو اور مبالغہ آرائی میں سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ:
امامت اصولِ دین میں سے ایک اصل ہے۔ اس کا عقیدہ رکھنے کے بغیر ایمان پورا نہیں ہو سکتا۔
ان کے ایک معاصر علامہ محمد رضا المظفر نے کہا ہے: ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ: امامت دین کے اصولوں میں سے ایک ایک اصول اس کا عقیدہ رکھنے کے بغیر ایمان پورا نہیں ہو سکتا۔
(عقائد الإمامية فی ثوبه الجديد: صحفہ، 91 الفصل الثالث الإمامة)
معاصر شیعہ علامہ وفقیہ جعفر السبحانی کہتا ہے:
شیعہ شروع دن سے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ امامت دین کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ائمہ کی امامت کے اعتقاد کو صیح ایمان کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔
(الملل والنحل جلد، 1 صفحہ، 257 لجعفر السبحانی)
علامہ شیعہ العالمی الملقب شہید ثانی نے کہا ہے: امامیہ فرقہ کے نزدیک ائمہ کی امامت کی تصدیق کرنا ایمان کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے اور یہ ضروریات مذہب کے تحت معلوم شدہ ہے۔
(حقائق الإيمان صحفہ، 131 المبحث الثانی فيهم جواب إلزام يرد على)
اور یہ بات ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ شیعہ اعتقاد کے مطابق ضروریاتِ دین کا انکار کرنا کفر ہے۔
- اس کے ساتھ ہی انہوں نے آگے ترقی کرتے ہوئے امامت کو نبوت سے بھی اعلیٰ و افضل قرار دے دیا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ امامت وہ عظیم ترین چیز ہے جسے دے کر نبیﷺ کو معبوث کیا گیا ہے۔
شیعہ کے شیخ الہادی الطہرانی کہتے ہیں: بے شک اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم دینی فریضہ جو نبی مکرمﷺ کو دے کر مبعوث فرمایا بلا شبہ وہ امامت کا فریضہ ہے۔
(ودایع النبوة فی الولاية والمقتل: صفحہ، 110 مزید دیکھیئے رسالة عين الميزان: صفحہ، 1 لآل كاشف)
اسی طرح شیعہ نے امامت کے متعلق ہر طرح کا غلو استعمال کیا ہے اور اس میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔
- لہٰذا کہتے ہیں: امامت، ارکان اسلام میں سے ہے، بلکہ ارکان اسلام میں سے عظیم رکن ہے۔ کلینی نے روایت کی ہے: ابو جعفرؒ فرماتے ہیں: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے نماز، زکوۃ، حج اور ولایت جتنا اعلان و پرچار ولایت کا کیا گیا ہے، اتنا پر زور اعلان کسی اور رکن کا نہیں کیا گیا۔
(اصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 434 كتاب الايمان والكفر: ح، 1 باب دعائم الاسلام۔ جب کہ شیعہ کے عصرِ حاضر کے علامہ عبدالہادی فضلی جو کہ سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی کا سابقہ استاد ہے وہ اپنی کتاب میں کہتا ہے: امامت، ارکان دین میں سے ایک رکن ہے۔ دیکھیئے التربية الدينية دراسة منهجية لأصول العقيدة الإسلامية: صحفہ، 63)
کلینی، ابوجعفرؒ سے مزید روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے، نماز، زکاۃ، حج ، روزے اور ولایت پر۔
زرارہ کہتا ہے: میں نے عرض کی ان میں سب سے افضل کونسی چینے ہے؟ انہوں نے فرمایا ولایت سب سے افضل ہے کیونکہ یہ ان سب کی کنجی ہے۔
(اصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 435 كتاب الايمان والكفر: ح، 5 باب دعائم الاسلام)
تعلیق: یہ صرف بہت بڑا جھوٹ ہی نہیں بلکہ کفر ہے۔ اس لیے کہ لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا امامت سے بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی کافر اس وقت تک مسلمان ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس کلمہ طیبہ کا اقرار نہ کرلے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نبی کریمﷺ سب سے پہلے اس کلمہ کا اقرار کروانے کے لیے کفار سے جنگ کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍفَاِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَآتُوا الزَّكوة فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ الخ۔
(سورۃ التوبة: آیت، 5)
ترجمہ: تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور انہیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّڪَوٰةَ فَإِخۡوَٲنُكُمۡ فِى ٱلدِّينِ الخ
(سورۃ التوبة: آیت، 11)
ترجمہ: پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے توبہ کر لینے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے انہیں ہمارے دینی بھائی قرار دیا ہے کہیں بھی امامت کا کوئی ذکر تک نہیں کیا۔
شیعہ کی رسوائی:
شیعہ کو ان کے عالم آلِ کاشف الغطاء نے یہ کہہ کر رسوا کر دیا ہے کہ شیعہ امامیہ نے پانچواں رکن اپنے پاس سے بڑھایا ہے، یعنی امامت کا اعتقاد۔
(اصل الشيعة وأصولها: صحفہ، 211 المقصد الثانی)
- اصل میں تمام اسلام امامت ہی تو ہے۔ اب انہوں نے ایک روایت گھڑ کر امام باقرؒ کی طرف منسوب کر دی کہ آپ اس آیت:
إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَـٰمُ الخ۔
(سورة آلِ عمران: آیت، 19)
کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد ہے حضرت علیؓ ابنِ ابی طالب کی ولایت کے لیے سرتسلیم خم کرنا۔
(مناقب آلِ أبی طالب جلد، 3 صفحہ، 271 فصل فی أنه الإيمان والإسلام والدين والسنة والسلام و الولی)
پھر ایک دوسری روایت میں امام زین العابدین اور ابو جعفرؒ پر جھوٹ گھڑ لیا کہ آپ دونوں حضرات فرماتے ہیں۔
ٱدۡخُلُواْ فِى ٱلسِّلۡمِ ڪَآفَّةً الخ
(سورة البقرہ: آیت، 208)
ترجمہ: پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ
اس سے مراد یہ ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت میں داخل ہو جاؤ۔
(المصدر السابق: جلد، 3 صفحہ، 672)
دندان شکن: شیعہ علماء و مشائخ نے روایت کیا ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی جانے لگی تو آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو اور میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرو۔ اس لیے کہ ایک ایسے نکتہ پر کھڑے ہیں جس کے کئی چہرے اور کئی رنگ ہیں۔ اور دل اس کے لیے مطمئن نہیں ہور ہے۔ اور نہ ہی عقول اس کے سامنے ٹھہر سکتی ہیں۔ بیشک اہلِ خرد و دانش بھی بیہوشی کا شکار ہیں۔ اور راہیں اوپری ہوگئی ہیں۔ اور اگر میں نے تمہاری بات مان لی تو میں تمہیں اپنے علم کے مطابق لے کر چلوں گا۔ اور میں کسی کہنے والے کی بات نہیں سنوں گا اور نہ ہی کسی عتاب کرنے والے کے عتاب کی پرواہ کروں گا۔ اور اگر آپ لوگ مجھے چھوڑ دو گے تو میں بھی تم میں سے کسی ایک عام آدمی کی طرح ہوں گا۔ شاید کہ میں تم سب سے زیادہ اس آدمی کی بات مانے والا اور اطاعت کرنے والا ہو جاؤں جسے تم اپنا امیر بنالو۔ میرا وزیر بن کر رہنا تمہارے لیے میرے امیر بن کر رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔
(شرح نہج البلاغة جلد، 2 صفحہ، 393 رقم، 92 باب: المختار من خطب أمير المؤمنين)
یہ نص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی طرف سے منصوص امام نہ تھے۔ اگر ایسے ہوتا تو پھر آپ کے لیے جائز نہیں تھا کہ آپ کہتے: مجھے چھوڑ دو اور کسی دوسرے کو تلاش کرو شیعہ اعتقاد کے مطابق یہ نص مقدس ہے؟ جو کہ اس تمام عمارت کو ہی ڈھا رہی ہے جس کے جھوٹوں کی بنیاد ان کے علماء و مشائخ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت اور بارہ ائمہ کی امامت کی ایجاد پر رکھی تھی۔ مزید برآں انہوں یہ بھی روایت کیا ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے: بیشک میری بیعت لوگوں نے اس بات پر کی ہے جس بات پر انہوں نے سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی۔ موجود کو اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی غائب کو واپس کرنے کا حق ہے۔ ایک شوری مہاجرین اور انصار کے مابین تھی۔ اور اگر یہ لوگ کسی ایک انسان پر جمع ہو جائیں اور اسے اپنا امام بنالیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی نشانی ہے۔ پھر اگر کوئی انسان کسی طعنہ یا بدعت کی وجہ سے ان کی جماعت سے نکل جائے تو واپس جماعت اسے واپس جماعت میں لاؤ۔ اور اگر وہ اس کا انکار کرے تو مؤمنین کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ پر چلنے کی وجہ سے اس سے قتال کرو، اللہ اسے وہیں پھیرے گا وہ جہاں پھرا ہے۔
(شرح نہج البلاغة: جلد، 2 صفحہ، نمبر، 6)
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ کی امامت پر کوئی نص موجود نہیں تھی۔ امامت کے بارے میں شوری مہاجرین وانصار کے مابین تھی۔ جسے وہ تمام لوگ اتفاق سے اپنا امام بنالیں تو وہی امام ہوگا۔ اور جو کوئی اس بات کو نہ مانے تو اہلِ ایمان کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ پر چلنے کی وجہ سے اس سے قتال کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر سیدنا علیؓ کی امامت پر رسول اللہﷺ کی جانب سے کوئی نص موجود ہوتی تو سیدنا علیؓ کبھی بھی یہ الفاظ ارشاد نہ فرماتے۔ انہوں نے یہ بھی روایت نقل کی ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے: اللہ کی قسم خلافت میں میری طرف کوئی رغبت نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس ولایت میں کوئی شرف و منزلت ہے۔ لیکن تم لوگوں نے ہی مجھے اس کی طرف بلایا اور اس کا بوجھ میرے کاندھوں پر ڈال دیا۔ (نہج البلاغة جلد، 4 صفحہ، 432 نمبر، 97)
اس نص میں سیدنا علیؓ بھی خود بتا رہے ہیں کہ: ان لوگوں کے مطالبہ پر اور آپ کو منتخب کرنے کی وجہ سے آپ خلیفہ بنے۔ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی نص موجود نہیں تھی۔ تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شیعہ علماء و مشائخ اس دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتے جا رہے ہیں جس کی بنیاد عبداللہ بن سباء یہودی نے رکھی تھی۔