مگرمچھ کھانا حلال ہے یا حرام؟
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینمگر مچھ کھانے کے بارے میں فقہاء کا معتبر اختلاف ہے۔
جمہور اس طرف گئے کہ مگرمچھ کھانا حرام ہے۔
اور بعض اس طرف کے حلال ہے۔
امام محمد بن موسیٰ الدمیری شافعی رحمۃ اللہ متوفی 808ھ فرماتے ہیں:
و أما التمساح فحرام على الأصح
ترجمہ: جہاں تک مگرمچھ کا تعلق ہے تو اس کا حرام ہونا زیادہ صحیح ہے۔
(النجم الوهاج فی شرح منہاج فی الفقہ على المذہب الشافعی: جلد، 6 صفحہ، 229)
امام یحییٰ بن شرف النووی شافعی رحمۃ اللہ متوفی 676 ہجری فرماتے ہیں:
وأما التمساح فحرام على الصحيح المشهور و به
ترجمہ: جہاں تک مگرمچھ کا تعلق ہے تو یہ صحیح اور مشہور قول کے مطابق حرام ہے۔
(المجموع فی شرح المہذب: جلد، 9 صفحہ، 30)
اسی طرح فقہاء احناف کے نزدیک بھی مگرمچھ کھانا حرام ہے۔
(البحر الرائق لابن نجیم: جلد، 3 صفحہ، 29)
(حاشيہ ابنِ عابدين: جلد، 2 صفحہ، 561)
اسی طرح فقہاء حنابلہ کے ہاں بھی مگرمچھ کھانا حرام ہے۔
(الفروع لابن مفلح: جلد، 10 صفحہ، 377)
(الإنصاف للمَرْداوی: جلد، 10 صفحہ، 275)
البتہ مالکیہ کا یہ مذہب ہے کہ مگرمچھ کھانا حلال ہے۔
(الشرح الكبير للدردير وحاشية الدسوقی: جلد، 1 صفحہ، 49)
(الاستذكار لابن عبدالبر: جلد، 5 صفحہ، 284)
لیکن راجح اور جمہور کا مذہب وہی ہے جو ہم نے پہلے ذکر کیا۔
جو فقہاء مگرمچھ کھانے کو حرام کہتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
حدثنا ابو بكر بن ابی شيبة، وإسحاق بن إبراهيم، وابن ابی عمر، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخر ان حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهری، عن ابی إدريس، عن ابی ثعلبة، قال: نهى النبی صلى الله عليه وسلم عن اكل كل ذی ناب من السبع، زاد إسحاق، وابن ابی عمر، فی حديثهما، قال الزهری: ولم نسمع بهذا حتى قدمنا الشام
(صحیح بخاری: 4988)
ترجمہ: سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہﷺ نے ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے۔ زہری نے کہا: ہم نے نہیں سنا اس حدیث کو یہاں تک کہ ہم شام کے ملک میں آئے۔
کچلی نوکیلے تیز دانت کو کہتے ہیں۔
انسانوں میں یہ دانت سامنے کے چار دانتوں کے بعد اور ڈاڑھوں سے پہلے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف ہوتا ہے اوپر بھی اور نیچے بھی۔
چرندوں میں یہ دانت نہیں ہوتے۔
ان دانتوں (کچلیوں) کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ جانور درندوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ عملی طور پر شکار نہ کرتا ہو یا بہت کم کرتا ہو۔ درندوں میں یہ دانت دوسرے دانتوں کی نسبت واضح طور پر بڑے لمبے ہوتے ہیں جیسے کتے اور بلی اور مگرمچھ وغیرہ میں۔
لہٰذا اس حدیث کے تحت مگرمچھ کھانا حرام ہے۔
جو بعض لوگ کھانے کو حلال کہتے ہیں وہ بھی ایک عمومی حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ درج ذیل ہے:
حدثنا عبدالله بن مسلمة، عن مالك، عن صفوان بن سليم، عن سعيد بن سلمة من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابی بردة وهو من بنی عبدالدار اخبره، انه سمع ابا هريرة، يقول: سال رجل النبی صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا نركب البحر ونحمل معنا القليل من الماء فإن توضانا به عطشنا، افنتوضا بماء البحر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الطهور ماؤه الحل ميتته
(سنن ابی داؤد: 83 صحیح)
ترجمہ: قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ (عبداللہ مدلجی نامی) ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسولﷺ! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اس کا پانی بذاتِ خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔
اس حدیث سے حلت پر استدلال کرنے والے کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے بغیر کسی تفریق کے مطلقاً سمندری مردار کو حلال کہا۔
فقہاء فرماتے ہیں اس حدیث میں سمندری مردار جو حلال ہے اس سے وہ جانور مراد ہیں جو پانی ہی میں زندہ رہ سکیں۔ مثلاً مچھلی یہ مطلق نہیں ہے اور اس سے وہ جانور مراد نہیں جو پانی کے باہر بھی زندہ رہ سکتے ہوں۔
لہٰذا مگرمچھ کی حلت پر اس سے استدلال کمزور ہے کیونکہ مگرمچھ سمندری جانور نہیں ہے یہ سمندر سے باہر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔
لہٰذا راجح اور جمہور فقہاء کا مذہب مگرمچھ کی حرمت کا ہے۔
ھذا ما عندی والعلم عند الله