حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھانجی اور بھتیجیوں کو پانچ دفعہ دودھ پلانے کا کہتی تھیں
مولانامفتی محمدتقی عثمانیحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھانجی اور بھتیجیوں کو پانچ دفعہ دودھ پلانے کا کہتی تھیں
سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ایک حدیث جو کہ پانچ بار دودھ پلانے کے بارے میں ہے اس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ آیات جو اس امر میں نازل ہوئیں اور حضورﷺ کی وفات تک پڑھی جاتی تھی پھر بعد میں ان آیات کو تاریخی قرآنی مسودات میں سے کسی میں نہیں پایا گیا۔
الحدیث: عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنْ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ اللہ نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے (دس بار دودھ پینے سے) پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا، اور جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قرأت کیے جا رہے تھے۔
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، حدیث: 3597)
اس روایت سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ آیات آپﷺ کے بعد کھو گئی تھی ہم اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں۔
خبر واحد اور قرآن:
اگرچہ اس کے راوی قابل بھروسہ ہیں لیکن بات جب قرآن مجید کے متعلق ہو تو کسی چیز کے قرآن کا حصہ ہونے کے ثبوت کے لیے متواتر روایتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جبکہ موجودہ صورتحال میں ایسا نہیں ہے، اس حدیث کو اس انداز میں سیدہ عائشہؓ سے صرف ایک راوی نے روایت کیا ہے، امام نووی صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں قرآن کے بارے کسی بات کو خبر واحد سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح النووی: جلد 5، صفحہ 183)
وہ الفاظ جو سب سے ذیادہ ہمارا دھیان کھینچتے ہیں یہ ہیں: اور جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قرأت کیے جا رہے تھے۔
اگر ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس متعلق باقی روایتوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف عبد اللہ بن ابی بکر ہی نے ان الفاظ کا استعمال کیا، جبکہ دوسرے راویوں قاسم بن محمد اور یحییٰ بن سعید نے یہی حدیث روایت کی اور اس میں ان الفاظ (جب آپﷺ کی وفات ہوئی ان آیات کی تلاوت کی جاتی تھی) کا کوئی ذکر نہیں کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عبد الرحمان بن ابی بکر سے ذیادہ قابل بھروسہ اور مستند ہیں جیسا کہ امام طحاوی نے لکھا ہے، دیکھیے (مشکل آثار: جلد 10، صفحہ 171)
اسی لیے محققین نے لکھا کہ یہ عبد اللہ بن ابی بکر کا اپنا وہم امام طحاوی فرماتے ہیں یہ بات ہمیں عبد اللہ بن ابی بکر کے علاوہ کسی پتا نہیں چلتی اور ہمارے نزدیک یہ انکا اپنا وہم ہوسکتا ہے۔
(مشکل الاثار: جلد 5، صفحہ 73، حدیث 1740)
شیخ ابن عربی نے بھی اسے راوی کا وہم قرار دیا ہے۔
(Aardha al- Ahwazi جلد 5، صفحہ92)
در حقیقت پانچ بار دودھ والا حکم بھی منسوخ ہو گیا تھا۔
اس بارے میں باقاعدہ ثبوت موجود ہیں کہ اس آیت (پانچ بار دودھ پلانے سے نکاح کا حرام ہونا) کی تلاوت اورحکم دونوں آپﷺ کی حیات طیبہ میں ہی منسوخ ہو گئے تھے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے: لقد كان في كتاب الله عزو جل عشر رضعات، ثم رد ذلك إلى خمس، ولكن من كتاب الله ما قبض مع النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: دس رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا ذکر قرآن میں موجود تھا پھر اسے پانچ سے بدل دیا گیا اور پھر کچھ نہیں تھا مگر وہ آپﷺ کی موجودگی میں منسوخ ہوگیا تھا۔
(مصنف عبد الرازق، حدیث: 13928)
شیخ تقی عثمانی لکھتے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بتاتی ہے کہ یہ پانچ رضعات والی آیت آپﷺ کی وفات سے پہلے ہی منسوخ ہو چکی تھی۔
(تکملہ فتح الملہم: جلد 1، صفحہ 46)
یہی سچ ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی وفات کے کافی عرصہ بعد تک زندہ رہیں، اور جب آپ (رضی اللہ عنہا) کے والد حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے قرآن کی پہلی سرکاری نقل تیار کروائی تو آپ تب بھی موجود تھیں، اور تب بھی جب عثمان (رضی اللہ عنہ) نے دوبارہ نقول تیار کیں، اور ہم جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا قرآن و حدیث کے علم کے معاملے میں صحابہ میں بہت اونچا مقام تھا، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ کافی مشہور قرأتیں آپ سے منسوب (مروی) ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی ایسے الفاظ موجود نہیں، یہی وجہ ھے کہ علماء کے نزدیک یہ الفاظ محض راوی کا گمان اور غلط فہمی ہے۔
در حقیقت یہ حکم بتدریج تبدیل ہوا، پہلے دس بار دودھ پینے پر نکاح کے حرام ہونے کا حکم تھا پھر اسے پانچ سے منسوخ کردیا گیا اور پھر زمانہ شیر خواری میں ایک بار دودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہونے کا حکم آگیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ الرَّضَاعِ فَقُلْت: إنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ لَا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَلَا الرَّضْعَتَانِ قَالَ: قَدْ كَانَ ذَاكَ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَالرَّضْعَةُ الْوَاحِدَةُ تُحَرِّمُ۔
طاؤس نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ مجھ سے پستانوں سے دودھ پینے کے بارے دریافت کیا گیا، تو میں نے کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ایک یا دو دفعہ کا پینا نکاح حرام نہیں کرتا، انہوں نے کہا پہلے ایسا تھا پر اب ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جائے گا۔
(احکام القرآن: جلد 4، صفحہ 224)
مصنف عبد الرازق میں طاؤس (106 ہجری، آپ تابعی ہیں اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سمیت بہت سے صحابہؓ کے شاگرد ھیں) سے روایت ہے كان لازواج النبي صلى الله عليه وسلم رضعات معلومات، قال: ثم ترك ذلك بعد، فكان قليله وكثيره يحرم۔
ترجمہ: پیغمبر اکرمﷺ کی بیویوں نے کہا کہ دودھ کاایک مخصوص تعداد (پانچ یا دس) تک پینا رضاعی رشتے (یعنی نکاح کو حرام) کو ثابت کرتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ: تو یہ حکم کافی عرصہ رہا پھر بعد میں ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جانے کا حکم لاگو ہوا۔
(مصنف عبد الرازق، حدیث: 13914)
حکم میں تبدیلی کیوں؟
حکم میں بتدریج تبدیلی کی حکمت یہ ہے کہ عرب میں اس وقت ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا عام رواج تھا لیکن دوسری طرف اسکا شادیوں پر بھی اثر پڑنا تھا اس لیے حکم کو آہستہ آہستہ سخت کیا گیا تاکہ معاشرے میں تناؤ اور تکلیف سے بھی بچا جاسکے۔
خلاصہ: اس ساری بحث سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ بلا حدیث قرآن مجید کی صداقت پر کوئی استدلال نہیں کرتی، اور یہ کہ دس اور پانچ بار دودھ پلانے پر نکاح کا حرام ہونا والی آیات حیات طیبہﷺ میں ہی منسوخ ہو گئی تھیں، اب یا تو معترضین ہمارے قوانین کے مطابق روایات کی جانچ پڑتال کو مانیں یا انکی حقانیت کو غلط ثابت کرنے کی ہمت پیدا کریں، (اس بحث سے مقصد یہ نہیں تھا کہ کتنی بار دودھ پلانے سے رضاعی رشتہ ثابت ہوتا ہے بلکہ اس شک کو رفع کرنے کا تھا کہ آپﷺ کے بعد قرآن مجید میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، مزید اس مسئلے کی تفصیل اور دلائل کے لیے دیکھیے
(تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم از مفتی تقی عثمانی)