Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا شیعہ علماء میں ائمہ کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

 کیا شیعہ علماء میں ائمہ کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؟

جواب:  جی ہاں! کلینی نے ابو جعفرؒ پر الزام تراشی کرتے ہوئے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی ولایت کا راز جبرائیل علیہ السلام کو دیا جبرائیل علیہ السلام نے یہ بات خفیہ طریقے سے محمدﷺ کو بتائی اور محمدﷺ نے سیدنا علیؓ کو بتائی اور سیدنا علیؓ نے جسے چاہا چپکے سے ولایت کی خبر دے دی۔

(أصول الكافی: صفحہ، 5772 كتاب الايمان والكفر: حدیث نمبر، 10 باب الكتمان)

شیعه عالم المازندرانی لکھتا ہے: 

حضرت علیؓ نے اپنی طاہر اولاد اور مؤمنوں میں سے راز داروں کو یہ بات بتائی۔

(رجال الكشی: جلد، 5 صفحہ، 439 ح، 700، بحار الانوار: جلد، 13صفحہ، 260، ح، 13 باب رد مذهب الوافية)

 اس روایت میں أئمہ کی تعیین نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی تعداد بیان ہوئی ہے۔ گویا کہ جس عرصے میں یہ روایت گھڑی گئی اس میں ابھی ائمہ کی تعداد غیر حتمی تھی؟ 

پھر شیعہ علماء نے ترقی کر لی اور نئی روایات گھڑی گئیں۔

مثلاً کچھ روایات کے مطابق ائمہ کی تعداد سات ہے۔ روایت کہتی ہے: ہمارا ساتواں امام القائم ہے۔ شیعہ کے اسماعیلی فرقے کے نزدیک ائمہ کی یہی تعداد حتمی ہے۔ 

(رجال الكشی: جلد، 5 صفحہ، 493 ح، 700 بحار الانوار: جلد، 48، صفحہ، 260)

لیکن جب شیعہ کے موسوی یا قطعیہ فرقے جسے اثنا عشری بھی کہا جاتا ہے، اس کے نزدیک ائمہ کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو سابقہ روایت کی وجہ سے شیعہ پیروکاروں میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔ لہٰذا شیعہ مذہب کے مؤسسین نے اس شک و شبہ کی کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے درج ذیل روایت گھڑی۔

داؤد الرقی کہتا ہے: میں نے ابوالحسن الرضا سے عرض کی: میں آپ پر قربان! بے شک اللہ کی قسم میرے سینے میں آپ کے کسی معاملے میں کوئی شک و شبہ نہیں سوائے اس ایک روایت کے جسے ذریح نے ابو جعفر سے انہوں نے مجھ سے پوچھا وہ روایت کیا ہے؟ میں نے عرض کی میں نے ذریح کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ہمارا ساتواں امام القائم ہو گا ان شاء اللہ۔ ابوالحسن کہنے لگے تم نے بھی سچ کہا ہے اور زریح اور ابو جعفر نے بھی سچ فرمایا ہے۔ اللہ کی قسم اس بات سے میرا شک مزید بڑھ گیا۔ پھر انہوں نے مجھے فرمایا اے داؤد بن ابی خالد اللہ کی قسم اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عالم کو یہ نہ کہا ہوتا کہ عنقریب اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ تو وہ اس سے کچھ پوچھتے۔ اسطرح اگر ابو جعفر نے یہ نہ کہا ہوتا اگر اللہ نے چاہا تو ان کی بات پوری ہو کر رہتی۔ (المصدر السابق)

اس طرح شیعہ علماء نے اس مسئلے کو بھی البداء اور اللہ کی مشیت میں تبدیلی کے ساتھ جوڑ دیا ہے (اس کی تفصیل عنقریب بیان ہوگی ان شاء اللہ) پھر یہ مسئلہ علماء کے ہاں آگے بڑھتا اور ترقی کرتا رہا۔ لہٰذا الکافی میں یہ روایت ملتی ہے کہ ائمہ کی تعداد تیرہ (13) ہے۔

چنانچہ الکینی طوسی اور دوسرے علماء روایت کرتے ہیں کہ ابو جعفر نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اے علیؓ بے شک میں اور میری اولاد کے بارہ ائمہ اور تو زمین کے بٹن ہیں، یعنی میخین اور پہاڑ ہیں۔ انکے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہلنے اور دھنسنے سے روکا ہوا ہے۔ جب میری اولاد سے بارہ ائمہ ختم ہو جا ئیں گے تو زمین اہلِ زمین سمیت دہنس جائے گی اور انہیں مہلت نہیں ملے گی۔

(اصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 109 كتاب الحجة: حدیث نمبر، 17 باب ماجاء فی الآثنی عشر الغبية للطوسی: صفحہ، 102)

تعلیق: اس روایت سے معلوم ہوا کہ ائمہ کی تعداد سیدنا علیؓ کے بغیر بارہ ہے اور اگر انہیں بھی شامل کیا جائے تو ائمہ کی تعداد تیرہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اس بات کو تسلیم کرنے سے شیعیت کی چولیں ہل جاتی ہیں اور ان کی بلند و بالا عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔

الکلینی نے ابو جعفر سے روایت کیا کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدہ فاطمہؓ کے پاس گیا تو ان کے سامنے ایک لوح رکھی تھی جس میں ان کی اولاد کے اوصیاء کے نام درج تھے۔ تو میں نے انہیں شمار کیا تو وہ بارہ تھے۔ ان کا آخری القائم تھا۔

(اصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 408 كتاب الحجة حديث نمبر، 9 باب ماجاء فی الاثنى عشر، كمال الدين و تمام النعمات: صفحہ، 565، ح، 13 الباب الرابع و العشرون)

میں شیعہ کی ضلالت کے بیان کو اس روایت پر ختم کرتا ہوں، شیعہ شیخ فرات الکوفی اپنی سند سے سیدنا زید بن علی بن حسین سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا بلاشبہ ہمارے ائمہ معصومین کی تعداد پانچ ہے۔ اللہ کی قسم ان کا چھٹا امام کوئی نہیں ہے۔

(تفسير فرات: صفحہ، 339 حديث نمبر، 464 سورة الاحراب) 

مسکت و دندان شکن:

اے شیعو! کیا تمہیں علم ہے کہ تمہارے علماء کے نزدیک مہدی کی تعداد کتنی ہے؟ 

یقیناً تمہارے شیوخ کے عجیب و غریب اعتقادات میں سے یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ تمہارے مہدی القائم کے بعد بھی بارہ مہدی خرید آئیں گے۔

لہٰذا ابو جعفر کی سند سے سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ بات آپ نے اپنی وفات والی رات بیان فرمائی اے ابوالحسنؓ میرے پاس کاغذ اور قلم لاؤ۔ پھر آپ نے اپنی وصیت لکھوائی تھی حتیٰ کہ آپ اس جگہ پہنچ گئے تو فرمایا: اے علیؓ! بے شک میرے بعد بارہ امام ہوں گے، ان کے بعد بارہ مہدی ہوں گے تو ان بارہ میں سے پہلا امام ہے۔ پھر لمبی روایت بیان کی حتیٰ کہ یہ فرمایا یہ امامت حسن عسکری آل محمد سے اپنے بیٹے محمد المستحفظ کو دے گا۔ اس طرح یہ بارہ امام ہوں گے، پھر اس کے بعد بارہ مہدی ہوں گے۔ لہٰذا جب اس کی وفات کا وقت آئے تو وہ امامت اپنے بیٹے کو دے دے جو مقربین کا پہلا ہوگا۔ اس کے تین نام میرے ہم نام ہیں اور اس کے والد کا نام میرے والد کے ہم نام ہے۔ وہ عبد اللہ، احمد اور تیسرا نام مہدی ہوگا اور وہ اول المؤمنین ہے۔

(كتاب الغیه للطوسی: صفحہ، 107 ما يدل على امامة صاحب الزمان، بحار الأنوار: جلد، 36 صفحہ، 260 ،261 حديث نمبر، 18 باب نصوص الرسول)

تضاد بیانی:

شیعہ کے علامہ الطوسی نے مہدی کی تعداد گیارہ بیان کی ہے۔ لہٰذا ابوحمزہ، ابو عبد اللہ سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: 

اے ابو حمزہ! بے شک ہم میں سے القائم کے بعد سیدنا حسینؓ کی اولاد سے گیارہ مہدی ہوں گے۔

(كتاب الغیبة للطوسی صفحہ، 309 فصل فی ذكر طرفة من صفاته مختصر بصائر الدرجات صفحہ، 110 ح، 110 الكرات حالاتها وماء فيها)

پڑے خاک تو جل جائیں جل جانے والے:

شیعہ نے یہ روایت بیان کی ہے کہ سیدنا علیؓ اوصیاء کے آخری وصی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی وصی نہیں ہے۔ یہ روایت ان کی مذہبی بنیادوں میں زلزلہ برپا کر کے شیعیت کی عمارت کو انہی پر منہدم کر دینے والی ہے۔ اس روایت میں شیعہ احمقوں نے سیدنا علیؓ پر الزام تراشی کی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اللہ کا امین ہوں، میں اس کا خازن اور راز دان ہوں۔ میں اس کا حجاب، اس کا چہرہ، اس کا راستہ اور اس کا میزان ہوں۔ میں اس کی طرف لوگوں کو جمع کرنے والا ہوں۔ میں اس کا وہ کلمہ ہوں جس کے ساتھ منتشر جمع ہوتے اور مجتمع کو منتشر کیا جاتا ہے۔ میں اس کے اسمائے حسنیٰ اور اعلیٰ مثال ہوں اور اس کی عظیم نشانی ہوں۔ اہلِ جنت کی شادی اور اہلِ جہنم کا عذاب میرے سپرد ہے۔ ساری مخلوق کو لوٹانے کا کام بھی میرے ہاتھ میں ہے۔ تمام مخلوق کا حساب بھی میں کروں گا۔ میں امیر المؤمنین، متقین کا سردار، سابقین کی نشانی، ناطقین کی زبان، خاتم الوصیین وارث النبین اور رب العالمین کا خلیفہ ہوں۔ میں اپنے رب کا سیدھا راستہ اور اس کا انصاف ہوں۔ میں زمین و آسمان اور ان کے درمیان والی ہر مخلوق پر اللہ کی حجت ہوں۔ میں ہی وہ ہستی ہوں جس کے ساتھ اللہ نے تمہاری پیدائش کی ابتداء میں تم پر حجت قائم کی۔ میں جزا کے دن شاہد ہوں گا۔ مجھے ہی اموات اور مصائب کا علم عطا کیا گیا۔ مجھے فیصلہ کن حکمت اور علم انساب دیا گیا ہے۔ میں ہی وہ ہستی ہوں جس کے لیے بادل، گرج، چمک، قلم، ظلم و اندھیرے، روشنیاں، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، ستارے اور چاند کو مسخر کیا گیا ہے۔ میں ہادی ہوں۔ میں نے ہی ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ میں ہی ہوں جس کو پروردگار عالم نے اپنا نام، اپنا کلمہ، حکمت علم اور فہم و بصیرت سے نوازا ہے۔ (كتاب الرجعة: صفحہ، 205)

تعلیق: اگر یہ ساری صفات سیدنا علیؓ کی ہیں تو شیعہ علماء نے اللہ رب العالمین کے پاس کیا چھوڑا ہے؟ 

وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدۡرِهِ وَٱلۡأَرۡضُ جَمِيعًا قَبۡضَتُهُ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُ مَطۡوِيَّـٰتُۢ بِيَمِينِهِ سُبۡحَـٰنَهُ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشۡرِكُونَ۝

(سورة الزمر: آیت، 67)

ترجمہ: اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، وہ پاک ہے اور اس شرک سے بالاتر ہے جو وہ کرتے ہیں۔