شیعہ اور عقیدہ ختم نبوت و توہین انبیاء کرام علیہم السلام و عقیدۀ امامت
شیعہ اور عقیدہ ختم نبوت و توہین انبیاء کرام علیہم السلام و عقیدۀ امامت
میرے محترم دوستو!
پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی اور قطعی عقیدہ ہے کہ نبوت ایک عطائی اور وہبی منصب ہے، کوئی بھی شخص اپنی قابلیت، بزرگی، تقویٰ، پرہیز گاری، مال و منال، حسن و جمال اور عہدہ و منصب کی بنیاد پر اگر یہ چاہے کہ اس کو نبوت حاصل ہو جائے تو یہ بات ہرگز ممکن نہیں بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے انتخاب سے یہ مرتبہ و مقام حاصل ہوتا ہے۔
اسی طرح پوری امت مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ جس مقصد و مشن کی تکمیل کی خاطر اللہ تعالیٰ، انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا جاتا رہا، وہ اس مشن کی تکمیل کیلئے سرگرم عمل رہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات بلا کم و کاست بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسے لوگوں تک مکمل پہنچا دیا ۔ اور یہ کہ حضور اکرمﷺ کے بعد دوسرا نبی نہیں آ سکتا۔ اب اگر کوئی شخص حضور اکرمﷺ کے بعد کسی ایک شخص کو نبی یا رسول مانے وہ بلا شبہ ختمِ نبوت کا منکر اور کافر ہوگا۔ تو جو گروہ یہ عقیدہ رکھے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد جس سلسلۂ امامت کا آغاز ہوا، اور بارہ امام پیدا ہوئے اور یہ کہ ان بارہ ائمہ کا درجہ نبوت سے بھی بلند و بالا ہے، تو پھر کیا ایسے شخص اور گروہ کو مسلمان کہا جائے گا؟
میرے پیارے بھائیو!
شیعہ ختمِ نبوت کے ظاہری طور پر قائل ہونے کا اعلان تو کرتے ہے، اور اس فرقہ کے رہنماؤں اور لیڈروں نے تقیتاً: علمائے کرام کے ساتھ مل کر ختمِ نبوت کی تحریکوں میں حصہ بھی لیا ہے لیکن یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ خود شیعہ ہی سب سے زیادہ ختمِ نبوت کے منکر بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بد ترین گستاخ بھی ہیں۔ شیعہ کی معتبر ترین
کتابوں سے ان کے کفریات ملاحظہ فرمائیں:
- امام ہی ہدایت کنندہ ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ،191)
- ولایتِ علیؓ کا رتبہ نبوت سے زیادہ ہے۔ (ہزار تمہاری دس ہماری: صفحہ، 52)
- امام اللہ کی مخلوق پر اللہ کے گواہ ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 190)
- محمد اور آلِ محمد اولادِ آدم سے نہیں ہے۔ (جلاء العیون: جلد، 2 صفحہ، 59)
- ائمہ خود ذاتِ محمد ہیں۔ (کتاب البرہان: جلد، 1 صفحہ، 25)
- امامتِ علیؓ کا منکر نبوتِ محمدﷺ کا منکر ہے۔ (تفسیر مرآة الانوار: صفحہ، 24)
- پنجتن پاک ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ (وسیلہ انبیاء: صفحہ، 90)
- امام، رسول اللہ کے برابر ہیں۔ (اصولِ کافی: جلد 1، صفحہ، 270)
- امام کے بغیر دنیا قائم نہیں رہ سکتی۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 178)
- امام پر وحی نازل ہوتی ہے۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 176)
- اماموں کی اطاعت فرض ہے۔ (اصولِ کافی: جلد 1، صفحہ، 185)
- امامت کا درجہ نبوت و پیغمبری سے بالاتر ہے۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 3)
- امام میں نبیﷺ سے بڑھ کر صفات موجود ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 388)
- حضور ﷺ کی وفات کے وقت میت بِکس گئی اور پیٹ پھول گیا تھا۔ ( تنزیہ الاسباب: صفحہ، 10)
- شبِ قدر میں امام پر سالانہ احکام نازل ہوتے ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 248)
- امام اپنی موت کا وقت جانتا ہے، اور اپنے اختیار سے خود مرتا ہے۔ (اصول کافی: صفحہ، 258)
- امام مہدی ظہور کے بعد سب سے پہلے سنی علماء کو قتل کریں گے۔ (حق الیقین: جلد، 1 صفحہ، 527)
- امام مہدی کی بیعت تمام ملائکہ، جبرائیل اور میکائیل کریں گے۔ (چودہ ستارے: صفحہ، 594)
- امام تمام گناہوں اور عیوب سے پاک اور مبرا ہوتا ہے۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 200)
- انبیاء کو نبوت علیؓ کی امامت کے اقرار سے ملی۔ (المجالس الفاخره فی اذكار العترة الطاهرة: صفحہ، 12)
- امام کی معرفت کے بغیر خدا کی حجت پوری نہیں ہو سکتی۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 177)
- امام مہدی نئی شریعت لائے گا اور نئے احکامات جاری کریں گے۔ (بحار الانوار: صفحہ، 597)
- حضرت علیؓ واقعی رسول کا حصہ ہے، اور انہیں علمِ غیب عطا کیا گیا۔ (عالم الغیب: صفحہ، 47)
- امام تمام گناہوں اور عیوب سے پاک اور مبرا ہوتا ہے۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 200)
- اماموں کے بغیر اللہ تعالیٰ کی حجت مخلوق پر قائم نہیں ہوتی۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 177)
- اماموں کی بزرگی تسلیم کرنے پر نبی، اولوالعزم انبیاء بن گئے۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 1009)
- حضرت علیؓ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہے۔ (جلاء العیون: جلد، 2 صفحہ، 20)
- حضرت علیؓ کے در کے بھکاری تو اولوالعزم پیغمبر ہیں۔ (خلقت نورانیه : جلد، 1 صفحہ، 201)
- زمین صرف اماموں کے وجود سے قائم ہے۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 196)
- امت کے اعمال نبی کریمﷺ اور اماموں پر پیش کئے جاتے ہیں۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 219)
- امام جب بھی کسی چیز کو جاننا چاہیں جان لیتے ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 258)
- جو بات امام سے ملے وہ حق ہے اور اس کے ماسوا سب باطل ہے۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 398 )
- ساری زمین اماموں کی ہے، جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 401)
- حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ اماموں کے طفیل قبول ہوئی۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 26)
- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اماموں کی بزرگی تسلیم کی تو ان کو امامت ملی۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 26)
- خدا کی سب سے بڑی نعمت جو مخلوق کو ملی اماموں کی امامت و ولایت ہے۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 315)
- حضرت نوح علیہ السلام کو اماموں کے طفیل غرق ہونے سے نجات ملی۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 450)
- جو نبی بھی آئے وہ انصاف کے نفاذ کیلئے آئے، اُن کا مقصد بھی یہی تھا کہ تمام دنیا میں انصاف کا نفاذ کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے، یہاں تک کہ حضور اکرمﷺ جو انسانوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ (اتحاد و یکجہتی امام خمینی کی نظر میں: صفحہ، 15)
- امام مہدی جب غار سے باہر آئے گے تو اس کے ہاتھ پر سب سے پہلے حضور اکرمﷺ بیعت کرے گے اس کے بعد حضرت علیؓ اس کے ہاتھ پر بیعت کرے گے۔ (حق الیقین: صفحہ، 160)
- ہمارے مذہب کے ضروری عقائد میں سے ہے کہ ہمارے ائمہ کا وہ درجہ ہے کہ جہاں تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل نہیں پہنچ سکتا۔ (الولايۃ التكوينيۃ: صفحہ، 52)
- ائمہ معصومین حضور اکرمﷺ کے قائم مقام ہیں، اور وہ انبیاء سے افضل ہیں۔ (انوار النجف فی اسرار المصحف: صفحہ، 11)
- ائمہ گزشتہ اور آئندہ تمام امور جانتے ہیں اور ان پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 260)
- ائمہ جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کرتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے حرام کرتے ہیں۔ (خلقت نورانيه: صفحہ، 155)
- تمام مخلوقات پر اماموں کی اطاعت اور فرمانبداری لازم ہے اور مخلوق کے تمام کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کر دیے ہیں، سو حضراتِ ائمہ کرام جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کرتے اور جس چیز کو چاہتے حرام کر دیتے ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 441)
- تمام دنیا اور آخرت امام کی ملکیت ہے وہ جس کو چاہیں دے دیں اور جس کو چاہیں نہ دے دیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 409)
- قومِ عاد، ثمود اور فرعون کو ہلاک کرنے والے اور موسیٰ کو نجات دینے والے علیؓ ہیں۔ (وسيلہ انبياء: جلد، 2 صفحہ، 110)
- امامت بھی نبوت کی طرح منصب الہٰی ہے، امام کا معصوم ہونا ضروری ہے، امام کا خطاءاور نسیان سے محفوظ ہونا واجب ہے، امام کیلئے سارے زمانے پر فوقیت رکھنا ضروری ہے۔ (تحفہ نماز جعفریہ: صفحہ، 28)
- ائمہ اطہار سوائے جناب سرور کائناتﷺ کے دیگر تمام انبیاء اولوالعزم وغیرہم سے افضل و اشرف ہے۔ (احسن الفوائد فی شرح العقائد: صفحہ، 406)
- امام، معدن علم شجرہ نبوت ہیں اور ان کے پاس فرشتوں کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ (اصولِ کافی جلد، 1 صفحہ، 221)
- اماموں کو آنحضرتﷺ کا اور پہلے کے تمام انبیاء و اصفیاء کا علم حاصل ہے۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 223)
- قرآن صرف اماموں نے پورا حاصل کیا ہے، اور وہی اس کا پورا علم جانتے ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 228)
- امام ان تمام علوم کو جانتے ہیں جو فرشتوں، نبیوں اور رسولوں کی طرف نکلے ہیں۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 255)
- امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے۔ (اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 258)
- اللہ تعالیٰ نے جو کچھ حضورﷺ کو سکھایا حضرت علیؓ کو اس کے سکھانے کا حکم دیا۔ اور حضرت علیؓ علم میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ شریک ہیں۔ (اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 263)
- حضرت علیؓ اور اولادِ علی کے لئے مسجد نبویﷺ میں عورتوں سے مقاربت حلال ہے۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 434)
- اماموں کی اطاعت رسولﷺ کی طرح واجب ہے اور وہ معجزے دکھلانے پر قادر ہیں۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 779)
- حضرت آدم علیہ السلام نے اماموں کا نہ اقرار کیا نہ انکار، اس لئے وہ اولوالعزم نہ ہوئے۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 637)
- خدا نے اماموں کی ولایت پانیوں پر پیش کیا جس نے قبول کر لی وہ میٹھا ہو گیا، جس نے قبول نہیں کیا وہ کڑوا ہو گیا۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 725)
میرے محترم قارئین کرام!
ان حوالہ جات سے معلوم ہو گیا کہ شیعہ مذہب میں تمام خدائی اختیارات حضرات آئمہ کرام کو حوالہ کیا گیا ہیں،
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشیاء کے حلال و حرام کرنے کے تمام اختیارات بھی ان کو حاصل ہیں، وہ جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعہ تقیہ، اور بداء وغیرہ جیسے گندے اعمال و نظریات کو بیک جنبش قلم حلال کر دیا۔ اور جس چیز کو چاہیں حرام کر دیں، اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ازواج مطہراتؓ کی محبت و عقیدت کو حرام قرار دے دیا۔ اس کے برخلاف اہلِ اسلام کا یہ پختہ اور غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ تحلیل و تحریم صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے، اس میں اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔