صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ازواج مطہراتؓ کے بارے میں شیعہ کے کفریہ عقائد
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ازواج مطہراتؓ کے بارے میں شیعہ کے کفریہ عقائد
میرے محترم دوستو!
قدسیوں کی اُس جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقدیس و تعدیل پر ہمارے افکار و نظریات، ہمارے قرآن، ہمارے سنت، اور ہمارے تمام اسلامی نظام کا مدار ہے۔ وہ دین اور شریعت کی اساس ہیں۔ وہ ہمارے قرآن کی صداقت اور ہمارے پیغمبرﷺ کی حقانیت کے گواہ ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے دین کے سرکاری گواہ ہیں۔ جن کی عدالت اور صفائی خود اللہ رب العزت اور نبی اکرمﷺ نے فرمائی ہیں۔ قرآن و سنت اور دین و شریعت کے نام سے جو کچھ بھی ہمارے پاس ہیں وہ اسی قدسی جماعت کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ ان کی بے انتہا قربانیوں اور کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں کفر و شرک اور ظلم و ضلالت کی ظلمتوں کی جگہ ایمان ویقین اور عدل و انصاف کی روشنی نصیب ہوئی ہے۔
اگر دین کے یہ اولین محافظ بقول شیعہ کے منافق، سازشی، خود غرض یا اقربا پرور اور (معاذ الله) جابر و ظالم تھے تو جو دین اور شریعت اور جو کتاب و سنت ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہم تک پہنچی اور جس پر دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے، یہ ساری عمارت اور سارا ڈھانچہ خود بخود دھڑام سے گر پڑے گا۔
پس یہ کیسی بدبختی اور شقاوت کی انتہا ہے کہ آج شیعیت اسلام کے انہی بنیادوں پر تیشہ چلا رہے ہیں، اور آج پوری دنیائے شیعیت اسلام کا دعویٰ کر کے اپنی ساری قوت گویائی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعدیل و تقدیس کو مجروح کرنے میں خرچ کر رہی ہیں۔
غیر تو غیر، اپنوں میں سے بھی اگر کوئی اُٹھ کر دین اسلام کے ان ستونوں کو گراتا ہے، ان کی عدالت مجروح کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے، ان کی عظمت اور تقدس کو داغدار کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے ملی خود کشی اور اپنے دین اور اپنے پیغمبر اور اپنی شریعت سے دشمنی ہی سمجھیں گے اور پوری خیر خواہی، اخلاق اور خدا ترسی سے اُس ہاتھ، اُس قلم اور اُس زبان کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
دردمندانِ اسلام اور علمائے حق کا اولین فریضہ ہے کہ وہ متفق ہو کر اس کفر کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔
میرے محترم مسلمان بھائیو!
اُمتِ مسلمہ کا اجماعی اور قطعی فیصلہ ہے کہ روئے زمین پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ و افضل ہے، کیونکہ یہ منصب اور عہدہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی خوش قسمت انسان کو ہی ملتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی تکفیر کریں تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیعہ مذہب کے بنیادی عقائد میں جہاں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین شامل ہیں، وہاں خود حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے ساتھ ساتھ پورے دین اسلام کے انہدام کی سازش بھی ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد (بقول شیعہ مذہب کے) اگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نعوذ بالله کافر کہہ دیا جائے تو پھر حضور اکرمﷺ کو ناکام نبی ثابت کرنا اور دینِ اسلام کے تمام احکامات کے خاتمے کا اعلان کرنا کوئی دشوار کام نہیں رہ سکتا، دراصل یہی شیعہ مذہب کے وجود کا مقصدِ اعظم ہے۔
چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی حضور اکرمﷺ کی نبوت اور آپ کے دین کے عینی شاہد اور چشم دید گواہ ہیں اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ جب کسی مقدمہ کے چشم دید اور اصل گواہان کو جھوٹا ثابت کر دیا جائے تو وہ مقدمہ اور دعویٰ خود بخود جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔
چنانچہ دینِ اسلام کی اس سازش کے لئے مذہب شیعہ کو وجود میں لایا گیا، اب اگر حضور اکرمﷺ کی نبوت اور آپﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کے چشم دید گواہوں کو ہی معاذ اللہ مرتد، کافر اور منافق کہہ دیا جائے تو پھر آپﷺ کی نبوت، آپ کے لائے ہوئے دین، کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور قرآن کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ یہ تمام چیزیں خود بخود غلط اور جھوٹ ثابت ہو جاتی ہیں۔
یہی وہ بدبخت اور لعین ترین طبقہ ہے جو حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دینا لعنت بھیجنا تو درکنار بلکہ ان کی توہین اور تکفیر کرنا نہ صرف جائز بلکہ دین کا حصہ اور اہم عبادت قرار دیتے ہیں۔
میرے محترم قارئین کرام!
شیعوں کا عقیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ازواج مطہراتؓ کے بارے میں کیا ہے؟ شیعہ کے معتبر ترین کتب سے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
- حضرت عمرؓ کے کفر میں شک کرنا کفر ہے۔ (جلاء العیون: جلد، 1 صفحہ، 63)
- فرعون و ہامان سے مراد حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ ہیں۔ (حق الیقین: صفحہ، 364)
- عمر اصلی کافر اور زندیق ہے۔ (کشف اسرار: صفحہ، 119)
- حضرت ابو بکر صدیقؓ گالیاں دینے والے تھے۔ (شیخ سقیفہ: صفحہ، 148)
- حضرت عثمانؓ کا باپ نامرد اور ماں فاحشہ تھی۔ (تنزية الانساب: صفحہ، 66)
- خالد بن ولید زانی تھے۔ (قول جلی در حل عقد بنت على: صفحہ، 135)
- سیدنا امیرِ معاویہؓ ظالم اور جابر تھے۔ (زندگانی حضرت زینبؓ: صفحہ، 160)
- عمرو بن عاص جہنمی تھے۔ (زندگانی حضرت زینب: صفحہ، 95)
- صحابہ کرام جہنمی کتے ہیں۔ (مناظره حسنیہ: صفحہ، 76)
- خلفائے ثلاثہ سے نفرت کرنے والا جنتی ہے۔ (نور ایمان: صفحہ، 321)
- عمر فرعون اور ہامان و قارون کا دل تھے۔ (نور ایمان: صفحہ، 295)
- ابو بکر صدیقؓ موت کے وقت کلمہ نہ پڑھ سکے۔ (اسرار آل محمد: صفحہ، 211)
- حضرت عائشہؓ کافرہ تھیں۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 726)
- خلفائے ثلاثہؓ ظلمات کے مصداق تھے۔ (ترجمہ مقبول دہلوی: صفحہ، 707)
- ابوبکرؓ و عمؓر شیطان کے ایجنٹ تھے۔ (ترجمہ مقبول دہلوی: صفحہ، 674)
- جہنم کے سات دروازوں سے ایک دروازہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ ( حق الیقین: صفحہ، 500)
- امام مہدی ابوبکرؓ و عمرؓ کو قبر سے نکال کر سزا دیں گے۔ (حق الیقین: صفحہ، 361)
- نمرود، فرعون، ہامان کے ساتھ ابو بکؓر عمؓر ، عثماؓن جہنم میں ہوں گے ۔ (حق الیقین: صفحہ 522)
- تین صحابہ کرامؓ کے سوا سب کافر تھے ۔ (ترجمہ حیات القلوب: جلد 2: صفحہ 923)
- حضرت عمرؓ کے کفر میں جو شک کرے وہ کافر ہے۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 842)
- ابوبکرؓ عمرؓ اور عثمانؓ سمیت چودہ آدمی منافقین میں سے تھے۔ (تذکرة الا ائمہ: صفحہ، 31)
- ابوبکرؓ و عمرؓ شیطان کے ایجنٹ تھے۔ (قرآن مترجم: مولوی مقبول دهلوی: صفحہ، 674)
- شیطان سے بڑھ کر شقی ترین بدبخت ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (حق الیقین: جلد، 1 صفحہ، 509)
- خلفاء ثلاثہ (ابوبکرؓ عمرؓ ، عثمانؓ) سے نفرت کرنے والا جنتی ہے۔ (نور ایمان: صفحہ، 321)
- ابوبکرؓ جاہل تھے بے شک وہ ظالم اور جہل تھا۔ (ضمیمہ مقبول نوٹ نمبر1: صفحہ، 466)
- سنی اپنے سر پرست عمرؓ کی طرح شہوت پرست تھے۔ (حقیقت فقہ حنفیہ در جواب فقہ جعفريہ: صفحہ، 122)
- علیؓ اور اولاد علیؓ خانہ کعبہ میں شب باشی کر سکتے ہیں۔ (ترجمہ مقبول دهلوی: صفحہ، 434)
- حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ منافق تھے۔ (شرح نہج البلاغہ: جزء، اول صفحہ، 358)
- حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کافرہ اور منافقہ عورتیں تھیں۔ (حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 900)
- حضرت عائشہؓ فاحشہ مبینہ تھی۔ (قرآنِ مجید مترجم مولوی مقبول دھلوی: صفحہ، 840)
- صحابہ کرام خود جہنمی ہیں ان کی اتباع باعث رشد و ہدایات کیسے ممکن ہے۔ (احسن الفوائد: صفحہ 356)
- عائشہؓ حفصہؓ پر لعنت ہو، انہوں نے مل کر حضورﷺ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ ( جلاء العیون: صفحہ، 82)
- ابوبکرؓ عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ بت ہیں، یہ تمام لوگ خلقِ خدا میں بدترین ہیں۔ (حق اليقين: جلد، 1 صفحہ، 519)
- نماز میں ابو بکرؓ عمرؓ، عثمانؓ، معاویؓہ، عائشہؓ حفصؓہ ھندہؓ اورام الحکؓم پر لعنت بھیجنا ضروری ہے۔ (عين الحياة: صفحہ، 599)
- رسول اللہ ﷺ کے بعد چار صحابہ کے علاوہ سب مرتد ہو گئے۔ ابوبکرؓ گوسالہ کی مثل اور عمرؓ سامری کے مشابہ ہے۔ (اسرار آل محمد: صفحہ، 23)
- شیعہ مذہب کا امام مہدی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمؓر کی لاشوں کو پرانے درخت پر لٹکانے کا حکم دیں گے۔ (بصائر الدرجات: صفحہ، 81)
- حضرت مقدادؓ، حضرت سلمانؓ، حضرت ابوذرؓ کے سوا تمام صحابہ مرتد ہو گئے تھے۔ (قرآن مجید مترجم مولوی مقبول دهلوی: صفحہ، 134)
- شیطان کے مذہب کو سب سے پہلے قبول کرنے والا ابوبکر صدیؓق تھا۔ (چراغ مصطفوی اور شرار بولهبی: صفحہ، 18)
- حضرت عمرؓ حضرت عائشؓہ پر لعنت، حضرت امیرِ معاویہؓ بائیس رجب کو واصل جہنم ہوئے تھے۔ شیعوں کوچاہیئے کہ اس دن شکرانے کا روزہ رکھیں۔ (زاد المعاد: صفحہ، 34)
- ابوبکرؓ نے صرف تخت ہی حاصل کرنے کیلئے بے رحم بادشاہوں کی سنت پر عمل نہیں کیا بلکہ بعض موقعوں پر تو آپ ہلاکو خان اور چنگیز خان کے قبیلے والے لگتے ہیں۔ (شیخ سقیفہ: صفحہ، 10)
- خلفائے راشدینؓ خدا پر جھوٹ بولنے والے تھے، ان ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔ (احسن الفوائد: صفحہ، 599)
- جس طرح فرانس اور امریکہ کے پریزیڈنٹ وہاں کے بزرگان دین نہیں ہیں، اسی طرح خلفائے ثلاثہؓ ہم تم مسلمانوں کے مذہبی رہنما نہیں ہیں۔ (نور ایمان: صفحہ، 164)
- جب امام مہدی آئے گا تو حضرت عائشؓہ کو زندہ کریں گے اور ان پر حد جاری کریں گے۔ (حيات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 901 ايضاً بحار الانوار سیزدہم: جلد، 10 صفحہ، 576)
- بی بی حفصؓہ بدخلق تھی سنی بھائیوں نے کیا مکاری کی ہے کہ جس بدخلق عورت کو لینے کے لئے کوئی تیارنہ تھا اس کے لئے فقہ میں ایک باب بنا دیا۔ (تحفہ حنفیہ در جواب تحفہ جعفريہ: صفحہ، 123)
- حضور اکرمﷺ نے شبِ زفاف علیؓ اور فاطمؓہ سے فرمایا جب تک میں نہ آجاؤں کوئی کام نہ کرنا، جب حضرت تشریف لائے اپنے دونوں پاؤں بستر میں ان کے درمیان دراز فرمائے۔ (جلاء العیون: صفحہ، 189)
- جو آیاتِ قذف اللہ تعالیٰ نے نازل کئے جن کو اہلِ سنت کہتے ہیں کہ عائشہؓ کے حق میں نازل ہوئی وہ
- عائشہؓ کے کفر و نفاق کے اظہار کے لئے خدا نے بھیجی ہیں۔ (حیات القلوب اردو ترجمہ: جلد، 2 صفحہ، 879) ابوبکرؓ عمرؓ اور ان کے رفقاء عثمانؓ ابو عبیدہؓ وغیرہ دل سے ایمان ہی نہیں لائے تھے۔ صرف حکومت و اقتدار کی طمع اور ہوس میں انہوں نے بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور اسلام اور رسولﷺ کے ساتھ اپنے کو چپکارکھا۔ (کشف الاسرار: صفحہ، 113)
- ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کے بارے میں جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ یہ خلافت حق ہے، وہ عقیدہ بالکل گدھے کے عضو تناسل کی طرح ہے، کیونکہ جیسی خلافت ہو اس کیلئے ویسا ہی عقیدہ چاہیئے۔ (حقیقت فقہ حنفیہ درجواب فقہ جعفريہ: صفحہ، 72)
- حضرت عثمانؓ نے اپنی دوسری بیوی اُمِ کلثومؓ کو اذیت جماع سے مار ڈالا تھا، اور پوری دنیا میں یہ پہلا خلیفہ ہے جس نے شرم و حیاء باڈر توڑ کر اپنی بیوی کے مردہ سے ہمبستری کی ہے۔ (تحفہ حنفیہ در جواب تحفہ جعفريہ: صفحہ 432)
- ابوبکرؓ عمرؓ، عثمانؓ طلحہؓ زبیرؓ عبد الرحمٰن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، ابو عبیدہ بن جراحؓ، معاویہ بن ابی سفیانؓ عمر و بن العاصؓ، ابو ہریرؓہ، ابو موسیٰ اشعریؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ منافقین میں سے ہیں۔ ( تاریخ اسلام: صفحہ، 397)
- مکہ کی زلیخا بی بی عائشہؓ میں کیا رکھا تھا کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی ہم عمر بیویوں کے ہوتے ہوئے یا دوسری جوان عورتوں کے ملنے کے باوجود چھ سالہ ننھی اماں جی سے اپنے پچاس برس کے سن میں شادی رچائی۔ (تحفہ حنفیہ در جواب تحفہ جعفريہ: صفحہ 64)
- صحابہ کرام میں ایسے بے حیا لوگ تھے کہ وہ نبی کی بوڑھی بیویوں کو چھوڑ کر آں جناب کی محبوبہ اور جوان بیوی سے جنابت کا طریقہ سیکھتے تھے، اور اگر اس شریعت کی ٹھیکہ دار بیوی سے کوئی نبی کریمﷺ کے جماع کرنے کا طریقہ پوچھ لیتا تو پھر کیا وہ لیٹ جاتی اور نقشہ دکھا کر علمی دنیا میں اپنا نام روشن کرتی۔ (معاذ اللہ) (تحفپ حنفیہ در جواب تحفہ جعفریہ بحوالہ تاریخی دستاویز: صفحہ، 387)
- بی بی عائشؓہ کوئی امریکی میم یا یورپین لیڈی تو نہیں تھی کہ بہت دور رہتی تھی، اور اس کے رشتہ کی خاطر اس کا فوٹو دکھانا تھا حضورﷺ اور حضرت عائشہؓ دونوں مکہ میں رہتے تھے، اور بقول اہلِ سنت وہ چھ سال کی لڑکی تھی، پس حضورﷺ تو خود عائشہؓ کو دیکھ سکتے تھے، اس لئے یہ تصویر والا ڈھکوسلا من گھڑت ہے۔ (تحفہ حنفیہ در جواب تحفہ جعفريہ: صفحہ، 64)
- اگر یہ شیخین اور ان کی پارٹی والے دیکھتے کہ قرآن کی ان آیات کی وجہ سے (جن میں امامت کیلئے حضرت علیؓ کی نامزدگی ظاہر کی گئی ہوتی) اسلام سے وابستہ رہتے ہوئے ہم حصولِ حکومت کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے، اسلام کو ترک کر کے اور اس سے کٹ کر ہی یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ تو یہ ایسا ہی کرتے اور (ابو جہل و ابولہب کا موقف اختیار کر کے) اپنی پارٹی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہو جاتے۔ (كشف الاسرار: صفحہ، 114)
- عام صحابہ کا حال یہ تھا کہ یا تو وہ ان (شیخین کی) خاص پارٹی میں شریک و شامل، اُن کے رفیق کار اور حکومت طلبی کے مقصد میں ان کے پورے ہم نوا تھے یا پھر وہ تھے جو ان لوگوں سے ڈرتے تھے۔ اور ان کے خلاف ایک حرف زبان سے نکالنے کی ان میں جرات و ہمت نہیں تھی۔ (کشف الاسرار: صفحہ، 119۔120)
- رسولﷺ کے بعد حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا اُن کا جو منصوبہ تھا۔ اس لئے وہ ابتداء ہی سے سازش کرتے رہے اور انہوں نے اپنے ہم خیالوں کی ایک طاقتور پارٹی بنائی تھی۔ ان سب کا اصل مقصد اور مطمع نظر رسول اللہﷺ کے بعد حکومت پر قبضہ کر لینا ہی تھا۔ اس کے سوا اسلام سے اور قرآن سے ان کا کوئی سروکار نہیں تھا۔ (كشف الاسرار: صفحہ، 114،113)
- حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں ظلم کی اتنی نظیریں موجود تھیں کہ ان کے بعد آنے والا ہر ظالم و غاصب حکمران بڑے اطمینان کے ساتھ ظلم و جور کا بازار گرم رکھتا، اور یہ سارے سفاک ابوبکرؓ اور عمرؓ کے لائے ہوئے انوکھے سامراج کے ورثہ دار تھے اور ان کے پاس ہر نوعیت کے ظلم کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ سب کچھ تو ابوبکرؓ و عمرؓ جیسے یارانِ رسولﷺ کر چکے ہیں۔ (شیخ سقیفہ: صفحہ، 159)
- اگر بالفرض قرآن میں صراحت کے ساتھ رسولﷺ کے بعد امامت و خلافت کیلئے علیؓ کی نامزدگی کا ذکر بھی کر دیا جاتا۔ تب بھی یہ لوگ ان آیات قرآنی اور خداوندی فرمان کی وجہ سے اپنے اس مقصد اور منصوبہ سے دست برار ہونے والے نہیں تھے۔ جس کیلئے انہوں نے اپنے کو اسلام سے اور رسولﷺ سے چپکا رکھا تھا۔ اس مقصد کے لئے جو حیلے اور جودا و پیچ ان کو کرنے پڑتے وہ سب کرتے ۔ اور فرمانِ خداوندی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ (كشف الاسرار: صفحہ، 113)
- اگر وہ اپنا مقصد (حکومت واقتدار) حاصل کرنے کیلئے قرآن سے ان آیات کا نکال دینا ضروری سمجھتے جن میں امامت کے منصب پر حضرت علیؓ کی نامزدگی کا ذکر ہوتا) تو وہ ان آیتوں ہی کو قرآن سے نکال دیتے۔ وہ آیتیں ہمیشہ کیلئے قرآن سے غائب ہو جاتیں، اور وہ تورات و انجیل ہی کی طرح محرف ہو جاتا۔
(کشف الاسرار: صفحہ، 114)
- ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے دعا کی کہ اے خدا ان لوگوں کو پھر اپنی نشانیاں دکھا کہ یہ امر تیرے نزدیک آسان ہے تا کہ تیری حجت ان پر اور زیادہ تاکید کر دے، الغرض جب وہ لوگ اپنے گھروں کی طرف واپس گئے تو اندر داخل ہونا چاہا تو زمین نے ان کے پاؤں پکڑ لیے اور ان کو اندر جانے سے روک دیا، اور گھر نے آواز دی کہ ہمارے اندر قدم رکھنا تم پر حرام ہے جب تک کہ ولایت علیؓ ابنِ ابی طالب پر ایمان نہ لاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہہ کر اپنے گھروں میں داخل ہوئے۔ پھر اندر جا کر دوسرے کپڑے بدلنے کیلئے اپنے لباس اتارنے کا ارادہ کیا تب وہ لباس ان پر بھاری ہو گئے اور وہ لوگ اس لباس کو نہ اتار سکیں اور کپڑوں نے ان کو آواز دی کہ تم پر ہمارا اتارنا آسان نہ ہوگا جب تک کہ ولایت علیؓ ابنِ ابی طالب کا اقرار نہ کرو، انہوں نے علیؓ کی ولایت کا اقرار کیا اور کپڑوں کو اتار دیا۔ پھر کھانا کھانے لگے اُس وقت لقمہ ان کے لئے بھاری ہوگیا اور جو لقمے بھاری نہ ہوئے تھے وہ ان کے منہ میں جا کر پتھر بن گئے اور ان کو آواز دی کہ تم پر ہمارا کھانا حرام ہے جب تک کہ ولایت علیؓ ابنِ ابی طالب کا اقرار نہ کرو، تب انہوں نے علیؓ کی ولایت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد وہ پاخانہ و پیشاب کی ضروریات کو رفع کرنے گئے تب وہ عذاب میں مبتلا ہوئے اور ان کا دفعیہ ان کو متحد ہوا اور ان کے پیٹوں اور آلہ تناسل نے آواز دی کہ ہمارے ہاتھ سے خلاصی پانا تم کو حرام ہے، جب تک کہ ولایت علیؓ بن ابی طالب کا اقرار نہ کر لو، اُس وقت انہوں نے اس ولی خدا (علیؓ) کی ولایت کا اقرار کیا۔ (معاذاللہ) (آثار حیدری: صفحہ، 556)