Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ مذہب میں تقیہ اور کتمان کی اہمیت اور فضائل


شیعہ مذہب میں تقیہ اور کتمان کی اہمیت اور فضائل

میرے محترم دوستو!

جھوٹ بولنا ایک ایسی تسلیم شدہ اور مانی ہوئی برائی ہے جس کی ہر مذہب و ملت، سماج و معاشرہ اور ہر ملک میں اس کی مذمت کی گئی ہے، اور اس کو ہر ذی شعور انسان ان برائیوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے جو کہ اُم الخبانث ہے۔ یعنی جھوٹ ایسی برائی ہے کہ اس سے دوسری بُرائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس لئے کسی مذہب کو تو چھوڑیں بلکہ انسانوں کی کوئی قوم یا قبیلہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو جھوٹ کو عیب نہ سمجھتا ہو۔ برعکس اس حقیقت کے کہ یہ خصوصیت (جھوٹ بولنا) صرف شیعوں کو ہی حاصل ہے کہ ان کے ہاں جھوٹ، فریب، دھوکہ اور دغا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کو دین کی اصل اور بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ آگے شیعہ مذہب کی مسلم و مستند روایتوں سے کتمان اور تقیہ سے متعلق ان کے جو عقائد ونظریات ہیں ان کی پوری حقیقت ناظرین کے سامنے آ جائے گی۔

میرے محترم قارئین کرام!

اہلِ تشیع کی کسی جماعت یا کسی فرد کی پوری حقیقت سمجھنے کیلئے یہ بات بھی ضرور مدِ نظر رکھنی چاہیئے کہ یہ لوگ اپنے عقائد کے اظہار میں حد سے زیادہ تلبیس سے کام لیتے ہیں۔ بقول شاعر:

دیتے ہیں دھو کہ یہ بازی گر کھلا 

ہر شیعہ کے دل میں کم و بیش صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اور بالخصوص سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں بغض و عناد ضرور ہوتا ہے۔ اس بغض وعناد پر پردہ ڈالنے کیلئے کبھی وہ حبِ علیؓ کی آڑ لیتے ہیں کبھی حبِ اہلِ بیتؓ کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ورنہ ان کی حضرت علیؓ اور اہلِ بیت اور اُن کی تعلیمات سے جو محبت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

مثلاً کوئی شیعہ جب یہ کہے کہ میں تو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باقی تمام صحابہ کرام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل سمجھتا ہوں، تو در پردہ وہ یہ بھی کہہ رہا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس افضل ترین شخص کے ہوتے ہوئے خلافت سنبھالی یا جن لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے کسی اور کو خلیفہ بنایا وہ یقینا غلطی پر تھے۔ کیونکہ افضل کے ہوتے ہوئے غیر افضل کو مقتداء بنالینا واضح طور پر غلط ہے۔ شیعہ لوگ اس ساری بات کو بڑی ہوشیاری سے محبِ علیؓ کے پردے میں کہہ جاتے ہیں۔ لہٰذا اہلِ تشیع کو سمجھنے کے لئے پوری باتوں کو مدِ نظر رکھا جائے محض ان کے دعویٰ سے دھوکہ نہ کھایا جائے۔

تقیہ کی تعریف

حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوؒی فرماتے ہیں کہ شیعوں کے کیدو مکر کا سب سے بڑا حربہ تقیه ہے۔ تقیہ کا مطلب ہے اہلِ عقل و شعور سے اپنے باطل مذہب اور غلط عقائد کو چھپائے رکھنا۔ سادہ لوحوں، بیوقوفوں، جاہلوں، بچوں اور عورتوں پر اس کو پیش کرنا۔

اہلِ عقل و دانش سے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی گمراہی اور جھوٹ پر مطلع ہو کر کہیں وہ ان کا تارو پورنہ بکھیر دیں۔ اہلِ علم کی طرف سے جب ان کی گرفت کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں کتاب میں تو ائمہ سے ایسی روایت پائی جاتی ہیں جو تمہاری روایت اور عقیدہ دونوں کی تردید کرتی ہیں۔ تو جان چھڑانے کیلئے ان کو بہترین جواب ایک ہی ہے کہ یہ ان کا تقیه تھا۔ گو یہاں یہ تقیہ ان کے مذہب کا سب سے بڑا اُصول ہے۔ اگر یہ بھی ان کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو بیوقوف اور احمق بھی ان کے ہاتھ نہ آتے اور ان کی نظروں سے بھی ان کا یہ مذہب گر جاتا اور اتنا رواج نہ پاتا۔

اب چونکہ اس فرقہ کی ساری خوشی اور تمام فخر اس بناء پر ہے کہ ہم نے اپنا مذہب اہلِ سنت سے لیا ہے اور ہم خاندانِ نبوت کے خاص شاگرد ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے کہ اس مذہب کے مدون، مرتب اور مصنفین براہِ راست ائمہ کرام سے تو نہ شرف ملاقات رکھتے ہیں اور نہ ہی بلا واسطہ شاگرد ہیں۔ اس لئے لامحالہ ان کے اور ائمہ کے درمیان ان کے وہی پیشوا واسطہ ہیں جو خود کو ائمہ سے منسوب کرتے ہیں اور ان ہی سے نقلِ مذہب کا دعویٰ کرتے تھے۔ (تحفہ اثنا عشريہ: صفحہ، 199)

حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ فرماتے ہیں کہ تقیہ ان کے دین کا جز ہے۔ تقیہ کے معنیٰ ہیں جھوٹ بولنا، نفاق سے کام لینا کسی کو دھوکہ دینا وغیرہ۔ ان کے مذہب میں تقیہ جائز ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ثواب ہے۔ جو آدمی نفاق سے کام نہیں لیتا وہ بے دین ہے۔ اصولِ کافی: صفحہ، 482 پر روایت ہے لا دين لمن لا تقية له اور ایک روایت میں ہے لا ایمان لمن لا تقية له یعنی جو شخص لوگوں کو دھوکا نہیں دیتا وہ بے دین اور بے ایمان ہے۔ (احسن الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 95)

میرے محترم مسلمان بھائیو!

شیعہ مذہب کی اصولی تعلیمات میں کتمان اور تقیہ بھی ہیں۔ کتمان کا مطلب ہے اپنے اصل عقیدہ اور مذہب و مسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ کرنا، اور تقیہ کا مطلب ہوتا ہے اپنے قول یا عمل سے واقعہ اور حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ و ضمیر اور مذہب و مسلک کے خلاف ظاہر کرنا اور اس طرح دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنا۔

موجودہ دور کا شیعہ رہنما و پیشوا خمینی ملعون اپنی کتاب کشف الاسرار: صفحہ، 128 پر تقیہ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ تقیہ کے معنیٰ ہیں کہ انسان کسی حقیقت کے خلاف کچھ کہے یا کوئی کام قانونِ شریعت کے خلاف کرے۔

  1. تقیہ واجب ہے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔ (احسن الفوائد: صفحہ، 472)
  2. خانہ کعبہ میں شیعہ کو تقیہ کر کے اہلِ سنت والی نماز پڑھنی چاہیئے۔ (عبادت و خود سازی: صفحہ، 265) 
  3.  بے شک دین کے نوحے تقیہ میں ہیں اور جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔ (اصول کافی: جلد، 2 صفحہ، 217)
  4. جو شخص تقیہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا اور جو تقیہ نہیں کرے گا اسے ذلیل کرے گا۔ (اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 217)
  5. تم ایسے دین پر ہو جو اس کو چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے عزت دے گا اور جو دین کو ظاہر اور اسے شائع کرے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کرے گا۔ (اصول کافی: جلد، 2 صفحہ، 222)
  6.  تقیہ واجب ہے، اس کا ترک کرنے والا مذہبِ امامیہ سے خارج ہے، اور مخالفت کی اس نے اللہ تعالیٰ رسولﷺ اور ائمہ کی۔ (احسن الفوائد: صفحہ، 626) 
  7. جس آدمی کو معمولی عقل اور فہم ہے وہ جانتا ہے کہ تقیہ اللہ تعالیٰ کے قطعی احکام میں سے ہے۔ (كشف لاسرار: صفحہ، 129)

میرے محترم قارئین کرام!

ان واضح اور صریح حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ تقیہ (جھوٹ بولنا) شیعہ کے نزدیک روئے زمین کی تمام اشیاء سے محبوب ترین چیز ہے کہ دین کے نو حصے اسی میں شامل ہیں، اور اسی میں عزت رفعت اور درجات کی بلندی منحصر ہے، یعنی جھوٹ بولنے میں ثواب ہے۔ بقول شاعر:

کیا جو جھوٹ کا شکوہ تو یہ جواب ملا 

تقیہ ہم نے کیا تھا ہمیں ثواب ملا۔