صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مرویات کے متعلق علماء شیعہ کا موقف کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مرویات کے متعلق علماء شیعہ کا مؤقف کیا ہے؟
جواب: شیعہ شیخ آلِ کاشف الغطاء اپنے شیعہ علماء کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ شیعہ ان روایات کو سنت نہیں کہتے میری اس سے مراد احادیثِ نبویہ ہیں، وہ صرف ان روایات کو سنت معتبر سمجھتے ہیں جو ان کے لیے اہلِ بیتؓ کی سند سے ان کے نانا سے صحیح ثابت ہو جائیں۔ یعنی جسے سیدنا صادقؒ اپنے والد باقرؒ سے وہ اپنے والد زین العابدینؒ سے وہ سیدنا حسینؓ سے اور وہ اپنے باپ سیدنا علیؓ بن ابی طالب سے اور وہ رسول اللہﷺ سے روایت کریں۔
اور رہی وہ احادیث جنہیں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً سیدنا ابو ہریرہؓ اور سیدنا سمرہ بن جندبؓ، مروان بن الحکم عمران ابنِ حطان الخارجی اور سیدنا عمرو بن العاصؓ اور ان کے امثال و نظائر وغیرہ روایت کرتے ہیں تو یہ روایات امامیہ کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ہی نہیں بلکہ مچھر کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔
(اصل الشیعہ واصولہا: صفحہ، 83)
اسی لیے ان کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ: كُلُّ مَا لَمْ يَخْرُجُ مِنْ عِنْدِهم (يعنى الْأَئِمَّةِ) فَهُوَ بَاطِلٌ۔
ہر بات وہ جو ائمہ کی منہ سے نہ نکلی ہو وہ باطل ہے۔
(أصول الكافی للكلينی: جلد، 1 صفحہ، 300 باب انه ليس شيئ من الحق فی يد الناس الا ما خرج من عند الأئمة عليہم السلام و ان كل شيئ لم يخرج من يخرج من عندهم فهو باطل)
شیعہ کو منہ توڑ جواب:
شیعہ مشائخ مرویات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رد کرنے کے لیے اپنا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کے اماموں میں سے ایک امام یعنی سیدنا علیؓ بن ابو طالب کی امامت کا ان کے خیال کے مطابق انکار کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ ان لوگوں کی روایات کو کیوں قبول کرتے ہیں جو ان کے بہت سارے ائمہ کا منکر ہو وہ اس کی روایات کو کس طرح قبول کر سکتے ہیں؟ تو شیعہ علماء نے جیسے کہ الحر العالمی نے پر زور الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ:
عبداللہ بن بکیر سے فطحیہ (فطحیہ يہ لوگ عبداللہ بن جعفر بن الصادقؒ کے پیرو کار تھے انہیں فطحیہ اس لیے کہا جاتا تھا کہ عبد اللهؒ فطح الرأس یعنی چوڑے چپٹے سر والا تھا۔ النوبختی نے کہا ہے شیعہ کے اجل علماء اور فقہاء کا میلان اسی مقولہ کی طرف ہے اور یہ عبداللہؒ اپنے باپ کے بعد صرف ستر یوم زندہ رہا تو لوگوں نے اس کی امامت کے قول سے رجوع کر لیا تھا۔
(رجال الکشی: جلد، 3 صفحہ، 328 رقم، 472 مسائل الإمامه و مقتطفات من الكتاب الأوسط فی المقالات، صفحہ، 46 لعبد الله بن الناشی الأكبر)
کی روایات اور واقفہ (الواقفہ ان لوگوں نے شیعہ کے ساتویں امام موسیٰ بن جعفرؒ پر توقف کرتے ہوئے اس کے بعد کسی بھی امام کی امامت کے قائل نہیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال کے مطابق موسیٰ بن جعفرؒ فوت نہیں ہوا بلکہ وہ ابھی تک زندہ ہے اور اس کے خروج کے منتظر ہیں۔
(مسائل الامامة: صفحہ، 47 رجال الكشى: جلد، 6 صفحہ، 512 المقالات والفرق: صفحہ، 93 للقمی)
کی روایات پر مثلاً سماعتہ بن مہران اور الناووسیہ۔ (ایک امام ناووس نامی آدمی کے پیروکار ہیں یہ کہتے ہیں چھٹے امام جعفر بن محمدؒ فوت نہیں ہوئے وہ ابھی تک زندہ ہیں اور مستقبل بعید میں ظہور فرمائیں گے اور حکومت کریں گے۔
(دیکھیے المقالات والفرق: صفحہ، 80 فرق الشيعة: صفحہ، 94)
کی باتوں پر کیوں عمل کیا جائے؟ ان فرقوں کے بعض لوگوں کو شیعہ علماء نے ثقہ اور معتبر قرار دیا ہے حالانکہ انہوں نے بارہ ائمہ میں سے اکثر کا انکار کیا ہے؟
شیعی علامہ الکشی نے الفطحیہ کے بعض راویوں مثلاً محمد بن الولید الخزار اور معاویہ بن حکیم اور مصدق بن صدقہ اور محمد بن سالم بن عبد الحمید وغیرہ کے متعلق یوں کہا ہے یہ سب اشخاص فطحیہ میں سے تھے اور یہ جلیل القدر علماء، فقہاء اور انصاف پرور ہستیوں میں سے تھے، بعض نے سیدنا رضاؒ کو بھی پایا ہے۔
(رجال الكشی: جلد، 6 صفحہ، 605 رقم، 1062 فی محمد بن وليد الخزاز و معاوية بن حكيم و مصدق بن صدقة)
مجلسی نے بھی ذکر کیا ہے کہ اس کا فرقہ ان جیسے راویوں کی مرویات پر عمل کرتا ہے۔ لہٰذا وہ کہتا ہے اسی لیے ہم نے یہ کہا ہے کہ ایک جماعت نے عبد اللہ بن بکیر الفطحی اور سماعہ بن مہران الواقفی جیسے راویوں کی روایات پر عمل کیا ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 2 صفحہ، 253 حدیث نمبر، 72 باب علل اختلاف الأخبار)
اور پھر اس نے بعض سر کردہ واقفہ کے بارے میں اس نے بذاتِ خود اور دوسرے اس کے برادرانِ شیعہ علماء نے اپنے اعتقاد کے مطابق اپنے امام معصوم کے قول سے اعراض و روگردانی کرتے ہوئے یوں کہا ہے:
واقف (واقفہ فرقے کا فرد) حق سے روگردانی کرنے والا اور برائی پر قائم رہنے والا ہے اگر وہ اس برائی کے ساتھ ہی فوت ہو جائے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
(رجال الكشی: جلد، 5 صفحہ، 515 حدیث نمبر، 860 560 فی الواقفة بحار الأنوار: جلد، 48 صفحہ، 263 حدیث نمبر، 118 باب رد مذہب الواقفية والسبب الذى لأجله قيل بالوقف على موسىٰ)
مزید فرماتے ہیں وہ حیرت زدہ رہتے ہوئے زندگی گزاریں گے اور زندیق (بے دین) ہو کر مریں گے۔
اور یہ بھی کہا ہے بلا شبہ وہ کافر، مشرک اور زندیق ہیں۔
(رجال الکشی: جلد، 5 صفحہ، 515 حدیث نمبر،861، 862 فی الواقفة بحار الأنوار: جلد، 48 صفحہ، 263 حدیث نمبر، 19)
شیعہ علماء کے لیے زبردست مصیبت:
رافضی(شیعہ) الکلینی نے ابنِ حازم سے روایت ہے اس نے کہا: میں نے ابو عبداللہؒ سے عرض کی:
فَأَخْبِرْنِی عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِﷺ صَدَقُوا عَلَى مُحَمَّدٍ أَمْ كَذَبُوا؟ قَالَ: بَلْ صَدَقُوا۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 50 کتاب فضل العلم ح، 3 باب اختلاف الحديث)
ترجمہ: مجھے رسول اللہﷺ کے اصحاب کے متعلق خبر دو کیا انہوں نے محمدﷺ پر سچ بولا تھا یا جھوٹ بولا تھا، فرمایا بلکہ انہوں نے سچ بولا تھا۔
الله اكبر: وَقُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا۞
(سورة بنی اسرائیل: آیت، 81)
ترجمہ: اور کہو کہ حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔