کیا شیعہ علماء نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور محبت میں اپنے ائمہ کے عقیدے کی اتباع کی ہے؟ اختصار سے بیان کریں۔
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ علماء نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور محبت میں اپنے ائمہ کے عقیدے کی اتباع کی ہے؟ اختصار سے بیان کریں۔
جواب: جی نہیں! تفصیل درج ذیل دو مسئلوں سے آپ کے سامنے آئے گی۔ ان شاء اللہ
مسئلہ نمبر 1: شیعہ شیوخ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد تمام مسلمان مرتد ہو گئے تھے۔ لہٰذا شیعہ عالم محمد رضا مظفر کہتاہے: نبیﷺ فوت ہو گئے اور ہر مسلمان نے بھی یقیناً فوت ہونا ہے، مجھے اب معلوم نہیں، وہ سب مرتد ہو گئے تھے۔ (السقيفة: صفحہ، 19)
بلکہ شیعہ یہاں تک کہتے ہیں کہ نبیﷺ پر تمام انسانوں میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا تھا اور وہ شخص تھا جو اپنے ملک سے حقیقی مذہب کی تلاش میں نکلا تھا، اور وہ سیدنا سلمان فارسیؓ ہیں۔
(كتاب الشيعة والسنة فی الميزان: صفحہ، 21،20)
تعلیق: ملاحظہ فرمائیں شیعہ علماء نے کس بے حیائی کے ساتھ تمام مسلمانوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے عزیز و اقارب اور آلِ بیتؓ کو مرتد قرار دیا ہے۔ ہم الله تعالیٰ سے گمراہی اور گمراہ لوگوں سے الله تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
شیعه عالم تستری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کہتا ہے: محمدﷺ آئے اور انہوں نے بے شمار لوگوں کو ہدایت دی لیکن وہ آپﷺ کی وفات کے بعد ایڑیوں کے بل پلٹ گئے۔
(احقاق الحق و ازهاق الباطل: صفحہ، 315)
اور نوری طبرسی کہتا ہے: ہم امامیہ کی رائے میں قلیل سی تعداد کے علاوہ باقی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہوگئے تھے۔
(فصل الخطاب: صفحہ، 100)
کلینی جھوٹی روایت بیان کرتا ہے (حالانکہ وہ اس سے بری ہیں) کہ ابوجعفرؒ نے فرمایا: نبیﷺ کی وفات کے بعد تین اشخاص کے سوا تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے۔ میں نے عرض کی وہ تین کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا سیدنا مقداد بن اسودؓ ، سیدنا ابوذر غفاریؓ اور سیدنا سلمان فارسیؓ۔
(الروضة من الكافی: جلد، 8 صفحہ، 2084، حدیث نمبر:341 تفسير العياشی جلد، 1 صفحہ، 199 ح، 148 (سورة آلِ عمران) رجال الكشی: جلد، 1صفحہ، 67 حدیث نمبر، 12 مناقب آلِ ابی طالب جلد، 2 صفحہ، 752 تفسير الصافی: جلد، 1 صفحہ، 389 سورة آلِ عمران)
تعارض: شیعہ کے علامہ الجزائری بیان کرتے ہیں کہ ابو جعفرؒ نے فرمایا: نبیﷺ کے بعد چار افراد کے سوا تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں: سیدنا سلمان فارسیؓ، سیدنا ابوذر غفاریؓ، سیدنا مقدادبن اسودؓ اور سیدنا عمارؓ اس بات میں ذرہ برابر اشکال نہیں ہے۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 1 صفحہ، 81)
تضاد بیانی: فضیل بن بسیار، ابوجعفرؒ سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بے شک جب رسول اللہﷺ فوت ہوئے تو چار افراد کے سوا تمام لوگ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں: سیدنا علیؓ، سیدنا مقدادؓ، سیدنا سلمانؓ اور سیدنا ابوذرؓ، میں نے پوچھا سیدنا عمارؓ کو شمار نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو بالکل تبدیل نہ ہوئے تو وہ یہی تین ہیں۔
(تفسير العياشی: جلد، 1صفحہ، 223 حدیث نمبر: 149 سورة آلِ عمران تفسير الصافی: جلد، 1 صفحہ، 389 تفسير البرهان: جلد، 2 صفحہ، 116 ح، 7 سورة آلِ عمران، بحار الأنوار: جلد، 22 صفچہ، 333 حدیث نمبر: 46 باب فضائل سلمانؓ وأبی ذرؓ)
حالانکہ پہلے چار افراد ذکر کیے تھے؟
دندان شکن: بلا شبہ شیعہ علماء کی یہ منحوس روایات من گھڑت شیعہ مذہب کی حقیقت کھول دیتی ہیں اور یہ روایات ثابت کر دیتی ہیں کہ یہ شیعہ اہلِ بیتؓ کے دشمن ہیں۔ جیسا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بھی دشمن ہیں۔ یہ شیعہ کی کم عقلی اور نادانی کی بھی دلیل ہیں، کیونکہ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک سیدنا حسنؓ، سیدنا حسینؓ ، سیدہ فاطمهؓ، سیدہ خدیجہؓ ، آلِ عقیل، آلِ جعفر، آلِ عباس اور آلِ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب اہلِ جاہلیت اور مرتد تھے۔ (نعوذ باللہ)
اے محترم قاری! کیا یہ سب کچھ اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ شیعیت کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خبیث ترین سازش کی جارہی ہے اور دشمنان اسلام شیعیت کے پردوں میں چھپ کر اپنے اغراض و مقاصد پورے کر رہے ہیں۔ اور یہ روایات گھڑنے والے شیعہ علماء، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیتؓ کے دشمن ہیں۔
مسئلہ نمبر 2: شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین منافق تھے۔
شیعہ علامہ تستری لکھتا ہے:
بلا شبہ وہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) بہت کم ہی مسلمان ہوئے تھے بلکہ وہ رسول اللہﷺ کے مقام و مرتبے سے کچھ حاصل کرنے کے لالچ میں ظاہراً مسلمان ہوئے تھے۔ بے شک وہ فطری طور پر نفاق کے حامی اور باہمی اختلاف و نزاع کے حمایتی تھے۔
(احقاق الحق و ازهاق الباطل: صفحہ، 3)
شیعہ عالم الکاشانی لکھتا ہے:
ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم حاصل کرنے والے تابعین عظام میں سے اکثر لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حقیقت سے لاعلم تھے اس لیے وہ انہیں عادل قرار دیتے تھے۔ اور ان کے ہاں یہ طے شدہ تھا کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عدول ہیں۔ اور ان میں سے کسی ایک نے بھی راہ حق سے روگردانی نہیں کی۔ حالانکہ انہیں یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان میں سے اکثر کے دلوں میں نفاق تھا۔ وہ الله تعالیٰ پر بڑی جرات سے باتیں بناتے اور رسول اللہﷺ کی دشمنی میں ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں، اورخود نافرمانی پر سر بستہ ہیں۔
(تفسير الصافی: جلد، 1 صفحہ، 9 کتاب کا دیباچہ)
مسکت و مبہت: شیعہ کی ان خرافات کے باوجود شیعہ کے امام ابوعبد اللہؒ یہ بھی کہتے ہیں کہ:
نبیﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں سے آٹھ ہزار اہلِ مدینہ میں سے تھے اور دو ہزار اہلِ مکہ میں ہے اور دو ہزار طلقاء فتح مکہ کے موقع پر آزاد کردہ لوگ تھے۔ ان میں کوئی قدری، مرجئی، حروری، معتزلی یا اہلِ الرائے میں سے نہ تھا۔ وہ خشیتِ الہٰی سے رات دن رونے والے لوگ تھے جو کہ الله تعالیٰ سے یہ دعاکیا کرتے تھے: یا الله تعالیٰ ہمیں خمیری روٹی کھانے سے پہلے پہلے موت دیدے۔
(كتاب الخصال: صفحہ، 640،639 حديث نمبر: 15 باب الواحد الى المائة بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 305 ح، 2 باب فض المہاجرين والانصار و سائر الصحابة والتابعين و جمل احوالهم)
تعلیق: الله تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں کئی مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف و ثناء بیان کرتے ہوئے ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے مثال کے طور پر الله تعالیٰ نے فرمایا:
وَ السَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهْجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ الخ۔
(سورۃ التوبة: آیت، 100)
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو الله تعالیٰ کا ان سب سے ہے۔
اور الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرَىٰهُمْ رُكَّعًۭا سُجَّدًۭا يَّبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًۭا الخ (سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں الله تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔
اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًۭا قَرِيبًۭا
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
ترجمہ: یقینا الله تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، جو کچھ ان کے دلوں میں تھا اس نے معلوم کر لیا، ان پر اطمینان وسکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح سے نوازا۔ نیز فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًاوَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
(سورۃ الحشر: آیت، 8)
ترجمہ: ان تنگدست مہاجرین کے لیے جن کو اپنے گھر بار سے نکالا گیا وہ الله تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں۔ اور الله تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
(اور اس قسم کی دیگر آیات قرآنیہ۔ پس کسی مسلمان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ جو چیز ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں یقینی طور پر معلوم ہے اسے ہم ان جھوٹی روایات کی وجہ سے رد کر دیں۔ جن روایات کا گھڑنے والا نہ ہی الله تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہے اور نہ ہی الله تعالیٰ کے وقار و عزت کا خیال رکھتا ہے)