کیا سیدنا علیؓ کی تاریخ پیدائش 13 رجب المرجب ہے؟ کیا سیدنا علیؓ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی؟ حقیقی طور پر مولود کعبہ کون؟
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓکیا سیدنا علیؓ کی تاریخ پیدائش 13 رجب المرجب ہے؟ کیا سیدنا علیؓ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی؟ حقیقی طور پر مولود کعبہ کون؟
سب سے پہلے تو ہم اجمالاً بتاتے چلیں کہ سیدنا علیؓ مولودِ کعبہ ہرگز نہیں ہیں اور آپؓ کی تاریخِ پیدائش نہ 13 رجب المرجب ہے۔
جن کتابوں میں تاریخِ پیدائش کو ذکر کیا گیا تو مجہول صیغوں کے ساتھ ذکر کیا گیا لہٰذا یہ بات معتبر نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کی تاریخِ پیدائش صرف شہرت کی وجہ سے سند اور معتبر ماخذ کے ذکر کے بغیر لکھ دی گئی لہٰذا جب تک معتبر ماخذ نہیں مل جاتا تب تک یہ بات قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
تیسری بات یہ ہے کہ جنہوں نے ماخذ بیان کیا ہے وہ یا تو شیعوں کی کُتب ہیں یا ایسے شیعوں کی طرف مائل حضرات کی کُتب ہیں جنہوں نے بہت ساری شیعی روایات کو بغیر تحقیق و تنقیح کے نقل کر دیا جیسے امام ذہبیؒ ، ملاعلی قاریؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مستدرک للحاکم کے حوالے سے اور بعض نے مروج الذہب اور فصول المہمہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ہم اسکے حوالے نقل کردیتے ہیں تاکہ دیکھنے اور پڑھنے والے سمجھ سکیں کہ کس طرح سے بغیر سند یا ایسے ماخذ سے سیدنا علیؓ کی پیدائش لکھ دی گئی جو ماخذ قابلِ قبول ہی نہیں ہیں۔
سب سے پہلے امام ذہبیؒ کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں:
امام ذہبیؒ نے جو بات ذکر کی وہ امام حاکمؒ سے ذکر کی تو مستدرک حاکم کی روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُوبَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِی ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْداللَّهِ فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍؓ وَزَادَ فِيهِ وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِالْعُزَّى وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِی الْكَعْبَةِ وَهِی حَامِلٌ فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ وَهِی فِی جَوْفِ الْكَعْبَةِ فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِی نِطَعٍ وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ فِی الْكَعْبَةِ أَحَد قَالَ الْحَاكِمُ وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِی الْحَرْفِ الْأَخِيرِ فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍؓ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِی بْنَ أَبی طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِی جَوْفِ الْكَعْبَة۔
مصعب بن عبداللہ نے سیدنا حکیم بن حزامؓ کا نسب بیان کرنے کے بعد فرمایا ان کی والدہ فاختہ بنت زہیر بن اسد بن عبدالعزیٰ ہیں انہوں نے سیدنا حکیمؓ کو کعبہ میں جنم دیا یہ حاملہ تھیں کعبہ میں گئیں اور وہیں ان کو درد زہ شروع ہوگئی اور سیدناحکیمؓ کی پیدائش ہوگئی چمڑے کے ایک قالین پر پیدائش کا عمل ہوا اور ان کے نیچے جو کپڑے تھے وہ زمزم کے کنویں پر لا کر دھوئے گئے نہ ان سے پہلے کوئی کعبہ میں پیدا ہوا نہ ان کے بعد ۔
امام حاکمؒ کہتے ہیں مصعب کو اس حدیث کے آخر میں وہم ہوا ہے کیونکہ اس بارے میں روایات حدِ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں کہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدؓ نے امیرالمؤمنین سیدنا علیؓ کو کعبہ کے اندر جنم دیا (مستدرک حاکم جلد 5 روایت 6044)۔
اسی روایت کی تلخیص میں امام ذہبیؒ نے بعینہ یہی روایت نقل کردی اپنا کوئی مؤقف یہاں بیان نہیں کیا اس تلخیص کا اسکین بھی نیچے لگا دیا ہے۔
(مستدرک حاکم وبذیلہ التلخیص للذھبی جلد 3 صفحہ 483)۔
جبکہ امام ذہبیؒ نے اپنا مؤقف اپنی سیر اعلام النبلاء اور تاریخِ اسلام میں سیدنا علیؓ کے لئے مولودِ کعبہ کہیں نہیں لکھا بلکہ سیدنا حکیم بن حزامؓ کے لئے ہی مولودِ کعبہ ہونا لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں:
ورواه الذهبی عن ابن منده وأتى برواية الزبير عن مصعب بن عثمان أن حكيم ولد فی جوف الكعبة
(سیر اعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 46)۔
تو اس تلخیص والی عبارت جو کہ امام حاکمؒ کی ہی بعینہ عبارت ہے اس کو لیکر امام ذہبیؒ کا حوالہ دینے والے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں رہی بات امام حاکمؒ کی تو امام حاکمؒ اس موقع غلطی پر ہیں کیونکہ خود انہوں نے سیدنا علیؓ کے فضائل میں آپکا مولودِ کعبہ ہونا نہیں ثابت کیا ہے نہ کوئی روایت پیش کی جبکہ یہاں کہہ رہے ہیں کہ یہ بات یعنی سیدنا علیؓ کا کعبہ میں پیدا ہونا اس بارے میں رویات حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ امام حاکمؒ کوئی ایک روایت ہی پیش کر دیتے جبکہ نہ فضائلِ سیدنا علیؓ میں کوئی ایسی روایت پیش کی اور نہ یہاں کوئی ایک روایت پیش کی بس ایسے ہی یہ بات کہہ دی کہ یہ بات حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے اور ساتھ ہی امام مصعب کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں وہم ہوا یہ بات کہنے میں کہ کعبہ میں پیدائش صرف سیدنا حکیم بن حزامؓ کی ہوئی حالانکہ امام حاکمؒ نے خود سیدنا حکیم بن حزامؓ کو مولودِ کعبہ ثابت کیا ہے
اپنی اس روایت سے پہلے ہی ایک روایت پیش کی جسے ملاحظہ فرمائیں:
سَمِعْتُ أَبَا الْفَضْلِ الْحَسَنَ بْنَ يَعْقُوبَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِی بْنَ غَنَّامٍ الْعَامِرِی يَقُولُ وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍؓ فی جَوْفِ الْكَعْبَةِ دَخَلَتْ أُمُّهُ الْكَعْبَةَ فَمَخَضَتْ فِيهَا فَوَلَدَتْ فِی الْبَيْت۔
علی بن غنام عامری فرماتے ہیں سیدنا حکیم بن حزامؓ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ان کی والدہ کعبہ کے اندر داخل ہوئیں وہیں ان کو دردِ زہ ہوئی اور سیدنا حکیم بن حزامؓ پیدا ہوگئے۔
(مستدرک حاکم جلد 5 روایت 6041)۔
اب پڑھنے والے دیکھنے والے بتائیں کہ بغیر کوئی ایک روایت بھی پیش کیجئے امام حاکمؒ کا یہ کہہ دینا کہ سیدنا علیؓ کا مولودِ کعبہ ہونا حدِ تواتر کو پہنچا ہوا ہے کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے جبکہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ امام حاکمؒ کا آخری عمر میں ذہنی توازن بگڑ چکا تھا اور یہ کتاب اسی وقت لکھی گئی اور ان پر ایک زمانے تک شیعت غالب رہی تھی۔
امام سیوطیؒ لکھتے ہیں:
و ما وقع فی مستدرک الحاکم من ان علیا ولد فيها ضعیف۔
کہ امام حاکمؒ کی یہ بات ضعیف ہےكہ سیدنا علیؓ کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں۔
(تدریب الراوی للسیوطی صفحہ 880)۔
علامہ نوویؒ نے بھی امام حاکمؒ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔
قالوا ولد حکیم بن حزامؓ فی جوف الکعبة ولا یعرف أحد ولد فیھا غیرہ وأما ما روی أن علی ابن أبی طالب ولد فیھا فضعیف عند العلماء۔
(تہذیب الأسماء واللغات للنووی جلد 1 صفحہ 166)
دوسرے نمبر پر ملاعلی قاری کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں:
ملاعلی قاریؒ نے شرح شفاء میں امام حاکمؒ کا ہی قول نقل کیا ہے سیدنا علیؓ کے مولودِ کعبہ ہونے کا اور ساتھ وضاحت بھی فرما دی کہ سیدنا حکیم بن حزامؓ ہی مولودِ کعبہ ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی مولودِ کعبہ ہے اور یہی مشہور ترین ہے:
حکیم بن حزامؓ ولد فی الکعبة ولا یعرف احد ولد فی الکعبة غیره علی الاشهر۔
(شرح الشفاء للقاری جلد 1 صفحہ 159)
تیسرے نمبر پر شاہ والی اللہ محدث دہلویؒ کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں:
اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی امام حاکمؒ کا ہی قول نقل کیا ہے:
(ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 406) اب جبکہ امام حاکمؒ نے ہی بلادلیل یہ بات کہی تو امام حاکمؒ سے اس بات کو ذکر کرنے والوں کی بات کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی یعنی ماخذ ہی بے بنیاد ہے۔
ان تینوں حوالوں میں جو ماخذ بیان کیا گیا ہے اس ماخذ کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہیں اب جو روایت عام طور پر پیش کی جاتی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں:
الخوارزمي في كتابه المناقب وُلِدَ علی بمكة المشرفة بداخل البيت الحرام فی يوم الجمعة الثالث عشر من شهر الله الأصم رجب الفرد سنة ثلاثين من عام الفيل قبل الهجرة بثلاث وعشرين سنة وقيل بخمس وعشرين وقبل المبعث باثنی عشرة سنة وقيل بعشر سنين ولم يولد فی البيت الحرام قبله أحد سواه۔
سیدنا علیؓ کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر خدا کے مہینے رجب کی تیرہ (13) تاریخ بروز جمعہ عامُ الفیل کے تیئیس سال اور کہا گیا ہے کہ پچیس سال بعد ہوئی اور کعبہ میں سیدنا علیؓ سے پہلے کوئی پیدا نہ ہوا
(الفصولُ المہمہ جلد 1 صفحہ 170،172)۔
اسی فصولُ المہمہ سے زینتُ المحافل ترجمہ نزہت المجالس میں یہی روایت نقل کی گئی ہے اور اس بات کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے کہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدؓ جو کہ والدہ ہیں سیدنا علیؓ کی وہ بغرضِ طواف تشریف لائیں تو انہیں دردِ زہ اٹھا تو انہیں ابو طالب نے اشارہ کیا کعبہ میں داخل ہونے کا تو آپ کی والدہ اندر تشریف لے گئیں وہیں آپ پیدا ہوئے۔
(زینتُ المحافل ترجمہ نزہت المجالس صفحہ 609)۔
جبکہ فصولُ المہمہ میں اس بات کی کوئی سند ذکر نہیں کی گئی اور فصولُ المہمہ ایسی کتاب بھی نہیں کہ اس میں لکھی بات اہلِ سنت پر حُجت ہو کیونکہ اس کتاب کی ابتداء ہی ایسے کلمات سے ہوتی ہے جو شیعوں کے ایک مخصوص عقیدے کو ظاہر کر رہی ہے اور اس کے مصنف کو شیعیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
اس عبارت کو بھی اسکین میں ملاحظہ فرمائیں جو شیعوں کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہے مثلاََ ولایت کا ذکر کرنا اور مہدی منتظر کا ذکر اس جیسے اور عقیدے الفصولُ المہمہ کے مصنف نے بیان کیے ہیں۔
(الفصولُ المہمہ جلد 1 صفحہ 71۔72)۔
اور اس کتاب الفصولُ المہمہ کی اس روایت کو علامہ شمس الدین السفیری ضعیف لکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
وما نقله فی الفصولُ المہمة لبعض المالكية من أن سيدنا علی بن أبی طالب ولدته أمة فی جوف الكعبة فهو ضعيف عند العلماء كما نقله النووی ولم يولد فی جوف الكعبة سوى حكيم بن حزام دخلت أمه الكعبة وهی حامل فضرها المخاض فأتيت بنطع فولدته فی الكعبة ولا يعرف ذلك لغيره۔
اور جو بات الفصولُ المہمہ میں نقل کی گئی ہے بعض مالکیوں کی طرف سے کہ سیدنا علی بن ابی طالب کو انکی والدہ نے جنم دیا کعبہ کے اندر تو علماء کے نزدیک یہ بات کمزور ہے کہ سیدنا علیؓ مولودِ کعبہ ہیں بلکہ مولودِ کعبہ صرف سیدنا حکیم بن حزامؓ ہیں ان کے علاوہ کوئی مولودِ کعبہ نہیں ہے۔
(المجالس الوعظیة فی شرح احادیث خیرُ البریة من صحیح الامام البخاری جلد 2 صفحہ 161)
الفصولُ المہمہ کے مصنف کو شیعہ میں شمار کیا گیا ہے اور اس کتاب میں بھی الفصولُ المہمہ کے مصنف شیخ نورالدین علی بن محمد ابنِ صباغ المالکی المکی کے شیعی عقائد کو ذکر کیا گیا ہے۔
(کشفُ الظنون عن اسامی الکتب و الفنون جلد 2 صفحہ 1271)۔
اس لئے یہ کتاب الفصولُ المہمہ بھی کسی طور پر قابلِ قبول نہیں اور اسی طرح اس کتاب الفصولُ المہمہ سے جس جس نے روایت کی ہے وہ بھی قابلِ قبول نہیں۔
اب جبکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیدنا علیؓ سے متعلق مولودِ کعبہ ہونے والی روایات مستند نہیں تو انہی روایات میں موجود تاریخِ پیدائش جو 13 رجب المرجب بیان کی گئی ہے وہ بھی ثابت نہیں۔
یہاں تک یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ مولودِ کعبہ صرف سیدنا حکیم بن حزامؓ ہیں سیدنا علیؓ مولودِ کعبہ نہیں ہیں بلکہ سیدنا علیؓ کی جائے پیدائش کونسی جگہ ہے اس پر بھی چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
سیدنا علیؓ کو مولودِ کعبہ سمجھنا ایسا کمزور گمان ہے جس کے ثبوت پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ آپ اپنے والد ابو طالب کے مکان شعب بنی ہاشم کے اندر پیدا ہوئے تھے جس مکان کو لوگ مولدِ سیدنا علیؓ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اس مکان کے دروازے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی:
ھذا مولد امیر المؤمنین علی ابنِ ابی طالب یعنی یہ امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب کی ولادت گاہ ہے۔
اور اہلِ مکہ بھی اس پر بغیر اختلاف کے متفق تھے سیدنا علیؓ کی جائے پیدائش خلیفہ بن خیاط صحیح سند کے ساتھ لکھتے ہیں کہ:
ولد علی بمکة فی شعب بنی هاشم۔
یعنی سیدنا علیؓ کی ولادت مکہ میں شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔
(تاریخِ خلیفہ بن خیاط صفحہ 199)۔
ابنِ عساکرؒ صحیح سند کے ساتھ لکھتے ہیں کہ:
ولد علی بمکة فی شعب بنی هاشم۔
سیدنا علیؓ کی ولادت مکہ میں شعب بنی ہاشم میں ہوئی
(تاریخِ دمشقِ کبیر جلد 42 صفحہ 575)۔
مولودِ کعبہ صرف سیدنا حکیم بن حزامؓ ہیں اس پر چند مزید حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
امام مسلم بن حجاج قشیری تحریر فرماتے ہیں:
ولد حکیم ابنِ حزامؓ فی جوف الکعبہ۔
ترجمہ:سیدنا حکیم بن حزامؓ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
(صحیح مسلم کتابُ البیوع بابُ الصدق فی البیع والبیان جلد 5 حدیث 3856)۔
امام بدرُ الدین عینی حنفی تحریر فرماتے ہیں:
حکیم بن حزام ولد فی بطن الکعبۃ۔
ترجمہ: سیدنا حکیم بن حزامؓ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
(عمدۃُ القاری شرح صحیح بخاری جلد 13 صفحہ 142)۔
امام ابنِ حجر عسقلانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
وحکی الزبیر بن بکار ان حکیما ولد فی جوف الکعبہ۔
سیدنا زبیر بن بکارؓ نے حکایۃً بیان کیا کہ سیدنا حکیم بن حزامؓ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ صفحہ 337)
ایسے سینکڑوں حوالے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولودِ کعبہ سیدنا حکیم بن حزامؓ ہی ہیں اور ایسے مزید سینکڑوں حوالے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 13 رجب المرجب سیدنا علیؓ کی تاریخِ پیدائش نہیں ہے کیونکہ جس جگہ پر 13 رجب المرجب کا ذکر ہے وہیں پر سیدنا علیؓ کے مولودِ کعبہ ہونے کا ذکر ہے جبکہ ماقبل میں یہ بات ثابت ہو چکی کہ سیدنا علیؓ کے مولودِ کعبہ ہونے کی روایات ہر طرح سے باطل ہیں تو یقینی طور پر سیدنا علیؓ کی تاریخِ پیدائش 13 رجب المرجب نہیں بنتی ہے۔
سیدنا علیؓ کی تاریخِ ولادت کو شیعوں نے مقرر کیا شیخ عباس قمی کی کتاب ھداية الانام کے حاشیہ پہ شیعہ کے مقدس مؤرخ آیت اللہ المرعشی النجفی کا مندرجہ ذیل بیان پیش کیا جو حقائق کو عیاں کررہا ہے۔
5 ستمبر 1710ء بمطابق 11رجب 1122 ہجری شاہ حسین صفوی نے اصفہان شہر میں 80 شیعہ علماء کی ایک میٹنگ بلائی کہ امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب کے یومِ پیدائش کا تعین کیا جائے اور کسی ایک دن کو جشنِ ولادت کے لیے مختص کیا جائے (یعنی اس قدر اختلاف تھا اور مذکورہ بالا تاریخ سے قبل جشن ولادت کا دن متعین نہیں تھا) بہت بحث و تمحیص کے بعد بعض علماء نے جن میں آقا جمال الخوانساری بھی شامل تھا 13رجب کو یومِ ولادت متعین کیا بعض علماء جن میں الفاضل الہندی شامل تھے انہوں نے7 شعبان کو صحیح کہا کچھ علماء نے 14 رمضان کو راجح کہا جبکہ بعض علماء نے 7 ذوالحج کو درست یومِ ولادت قرار دیا پھر سلطان حسین صفوی نے اپنی پسند کے مطابق 13 رجب کو جشنِ ولادت منانے کا سرکاری حکم صادر کیا۔
(المختصر والمعتبر من تواریخ المعصومین الاربعة عشر صفحہ 42)۔
شرالبریة تیرہویں صدی ہجری کے مُجتھد احمد بن صالح آلِ طوق القطیفی اپنی کتاب میں 13 رجب کا ذکر کرنے کے بعد شیخ طوسی کی 7 شعبان والی مندرجہ بالا روایت ذکر کرنے کے بعد پھر دیگر مصادر سے 13 رجب یومِ پیدائش کا ذکر کرتے ہیں۔
اور صفحہ نمبر 50 پہ اس بحث کو اس طرح سمیٹتے ہیں میرے (آیت اللہ القطیفی) کے نزدیک امیر المومنین کی ولادت کے متعلق سب سے صحیح ترین یہ ہے کہ آپ 7 شعبان بروز ہفتہ پیدا ہوئے۔
اور یہ روایت بالکل صحیح ہے کیوں کہ شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) نے یہ روایت بالکل صحیح سند کے ساتھ صفوان بن مہران کے واسطے سے سیدنا صادقؒ سے روایت کی۔
اور صفوان بن مہران (ہم اہلِ تشیع رجال میں) جلیل القدر ثقہ راوی ہے۔
اور پہلی روایت (امیر المومنین کے 13 رجب کو پیدا ہونے والی روایت) کسی صحیح سند سے ثابت ہی نہیں بلکہ کسی حسن سند سے بھی ثابت نہیں حتّیٰ کہ کسی موثق سند سے بھی نہیں بلکہ اس روایت کا حال یہ ہے کہ وہ کسی ایک سند سے بھی ثابت نہیں بالکل بے سند روایت ہے۔
نیز میرے مؤقف کو امام منتظر کی یہ دعا بھی مضبوط کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا:
اے اللہ میں تجھ سے ان رجب میں پیدا ہونے والے دو اماموں سیدنا محمد بن علی تقی اور انکے فرزند سیدنا علی بن محمد نقی کے واسطے سے سوال کرتا ہوں۔(رسائل الطوق القطیفی جلد 4 صفحہ 49)
امام منتظر یعنی بارہویں امام کی یہ دعا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امیر المومنین رجب میں پیدا نہیں ہوئے کیونکہ اگر وہ رجب میں پیدا ہوئے ہوتے تو امام قائم نے صرف اور صرف سیدنا تقی اور سیدنا نقی کا واسطہ کیوں دیا ماہِ رجب کی دعا میں؟ اور امیر المؤمنین کا ذکر بھی نہیں کیا جبکہ امیرالمؤمنین فضیلت و مرتبہ میں مذکورہ دونوں ائمہ سے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔
شیخ طوسی اپنے مزعومہ چھٹے معصوم سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین(سیدنا علیؓ) کی پیدائش بروز ہفتہ 7 شعبان کو ہوئی۔
(مصباح المتھجد للطوسی صفحہ 589)