Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

برائے کرم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ ائمہ کا عقیدہ اختصار کے ساتھ بیان فرمائیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

براہِ کرم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ ائمہ کا عقیدہ اختصار کے ساتھ بیان فرمائیں؟

جواب: یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے۔

شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے:

شیعہ عالم الطبرسی لکھتا ہے: پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز کے لیے تیار ہوئے اور مسجد آئے اور حضرت ابوبکرؓ ہی کے پیچھے نماز پڑھی۔

(احتجاج امير المومنين عليه السلام دیکھئے مرآة العقول: جلد، 5 صفحہ، 340 ح، 3 باب مولد الزهراء اور کتاب سليم بن قيس صفحہ، 125 طبع دار الارشاد الاسلامی)

شیخ طوسی سیدنا ابوبکرؓ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیچھے نماز ادا کرنے کے متعلق لکھتا ہے: یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے۔

(تلخيص الشافی: جل، 2 صفحہ، 158 طبع ایران)

اور سیدنا علیؓ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپؓ فرمایا کرتے تھے: نبیﷺ کے بعد اس امت کے بہترین افراد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں۔

(مناقب الامام امير المؤمنين علىؓ بن ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 521 ح، 451 الباب، 53 باب حديث المنزلة الصوارم المہرقة صفحہ، 25 رقم، 10)

سیدنا علیؓ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپؓ نے فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا۔

(العيون والمحاسن: جلد، 2 صفحہ، 122،122)

اور جب ان سے سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: 

اگر ہم سیدنا ابوبکرؓ ہی کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے۔

(السقيفة و فدك صفحہ، 40 شرح نہج البلاغة: جلد، 2 صفحہ، 287) 

مزید لکھتا ہے کہ جب سیدنا علیؓ سے عرض کی گئی کیا آپ وصیت نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا جو وصیت رسول اللہﷺ نے کی تھی میں بھی اس کی وصیت کرتا ہوں۔ لیکن جب اللہ لوگوں کی خیر خواہی کرنا چاہتا ہے تو انہیں بہترین شخص کی حکومت تلے جمع کر دیتا ہے جیسا کہ نبیﷺ کے بعد انہیں امت کے بہترین شخص کی خلافت میں جمع کر دیا تھا۔

(الشافی فی الامامة: صفحہ، 171) 

سیدنا علی نے اپنے خطبے کے دوران فرمایا تھا اے اللہ ہماری اسی طرح اصلاح فرما جیسی تم نے خلفائے راشدینؓ کی اصلاح فرمائی تھی۔ ان سے پوچھا گیا وہ خلفاء کون ہیں؟ فرمایا : وہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں جو ہدایت یافتہ امام تھے۔ جس نے ان کی اقتداء کی وہ بچ گیا اور جس نےان کے نقش قدم کی پیروی کی وہ سیدھی راہ پا گیا۔

(الصراط المستقيم الى مستحقى التقديم: جلد، 3 صفحہ، 149،150)

عراق سے کچھ لوگ سیدنا علی بن حسینؓ کے پاس آئے تو انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی شان میں نازیبا باتیں کیں۔ جب وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو سیدنا علی بن حسینؓ نے انہیں فرمایا کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ کیا تم اولین مہاجرین میں سے ہو جن کے بارے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُهٰجِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاَمۡوَالِهِمۡ يَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا وَّيَنۡصُرُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوۡنَ‌۞

(سورۃ الحشر: آیت، 8) 

ترجمہ: (مال فئی) ان مہاجر فقراء کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔

وہ عراقی کہنے لگے نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ الخ۔  

(سورۃ الحشر: آیت، 9) 

ترجمہ: اور (مال فئی ان کے لیے) جنہوں نے (مدینہ کو) گھر بنا لیا تھا اور ان (مہاجرین) سے پہلے ایمان لا چکے تھے، وہ (انصار) ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرے اور وہ اپنے دلوں میں اس (مال) کی کوئی حاجت نہیں پاتے جوان (مہاجرین) کو دیا جائے اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو۔ اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

عراقی گروہ نے جواب دیا نہیں۔ ہم ان میں بھی شامل نہیں۔ تو حضرت علی بن حسینؓ نے فرمایا: خبردار! تم نے ان دو گروہوں سے لاتعلقی کا اظہار خود ہی کر دیا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہو جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞

(سورة الحشر: آیت، 10)

ترجمہ: جوان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت نرمی والا، نہایت رحم والا ہے۔

(اے عراقیو) میرے پاس سے چلے جاؤ اللہ تمہیں برباد کرے۔

(كشف الغمة: جلد، 2 صفحہ، 242 الصوارم المهرقة: صفحہ، 232،250 نمبر: 85)

ابو جعفر الباقرؒ سے تلوار کو سونے چاندی سے منقش کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تلوار کو منقش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا آپ بھی انہیں صدیق کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں۔ جو شخص صدیق نہ کہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے کسی قول واقرار کی تصدیق نہ فرمائے۔

(الصوام المهرقة: صفحہ، 219 نمبر: 72)

اللہ اسے دنیا و آخرت میں جھوٹا کر دے۔

کوفہ کے رؤسا اور معززین اور سیدنا زیدؒ  ہی کی بیعت کرنے والے جمع ہوئے تو انہوں نے سیدنا زیدؒ سے کہا:

اللہ آپ پر رحم فرمائے، سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ  کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

انہوں نے فرمایا: میں ان دونوں کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہوں گا جیسا کہ میں نے اپنے اہلِ بیتؓ سے ان کے بارے میں خیر ہی سنی ہے۔ ان دونوں نے ہم اور کسی دوسرے پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اللہ کی کتاب اور سنتِ رسولﷺ پر عمل کیا ہے۔

جب اہلِ کوفہ نے ان کی یہ کلام سنی تو ان کی امامت کے منکر ہو گئے اور ان کے بھائی باقرؒ کے گرد جمع ہو گئے۔ اس پر زیدؒ نے فرمایا: آج انہوں نے ہمارا انکار کر دیا ہے، اسی لیے اس جماعت کا نام رافضہ (امامت زید کے منکرین) پڑ گیا۔

(ناسخ التواريخ: جلد، 2 صفحہ، 590 أحوال الامام زين العابدينؒ أعيان الشيعة: جلد، 1 صفحہ، 222)

 معتزلی عالم نشوان حمیری ان سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے جب زیدؒ سے کہا سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ ان سے براءت کا اعلان کرو، وگرنہ ہم آپ کی امامت کا انکار کر دیں گے؟ تو زیدؒ نے فرمایا اللہ اکبر! مجھے میرے والد محترم نے بیان کیا رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: بے شک عنقریب ایک قوم آئے گی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے گی وہ اپنے برے لقب سے پہچانے جائیں گے۔ پھر جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔ جاؤ چلے جاؤ تم رافضہ ہو۔

(الحور العين: صفحہ، 185)