Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ ائمہ کا عقیدہ مختصر بیان کریں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ ائمہ کا عقیدہ مختصر بیان کریں؟ 

جواب: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مسلمانوں کے والی امیر بنے تو انہوں نے لوگوں کو اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا کیا اور خود بھی عمل پیرا ہو گئے حتیٰ کہ اسلام خوب مضبوط اور توانا ہو گیا۔

(نہج البلاغة: صفحہ، 504 حدیث نمبر: 487 باب المختار من حكم امير المومنين، خصائص الأئمة: صفحہ، 124 الزيادات فی آخر النسخة المخطوطة)

شارحین نہج البلاغہ نے اس قول کی شرح کی ہے۔ ان میں سے میثم البحرانی الدنیلی کہتا ہے والی سے مراد حضرت عمرؓ  بن خطاب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام اسی طرح پائیدار اور مضبوط ہو گیا جیسے اونٹ پوری مضبوطی سے جم کر اپنے باڑہ میں بیٹھ جاتا ہے۔

(شرح نہج البلاغة: جلد، 5 صفحہ، 1030 نمبر، 439 الدرة النجفية: صفحہ، 394)

حضرت عمرؓ کی بیعت: حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے سیدنا عمرؓ ہی کو بلا کر اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ تو ہم نے ان کے احکامات سنے اور ان کی اطاعت و خیر خواہی کی۔ اور حضرت عمرؓ نہایت پسندیدہ سیرت و کردار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔

(الغارات للثقفی: جلد، 1 صفحہ، 307)

سیدنا علیؓ کا اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کرنا اس واقعہ کو شیعہ کے اکابر مؤرخین نے ذکر کیا ہے مثلاً أحمد بن ابی یعقوب لکھتا ہے اس سال سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ سے ان کی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کا رشتہ مانگا۔ امِ کلثومؓ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں۔ تو سیدنا علیؓ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں۔ اس پر سیدنا عمرؓ نے فرمایا جس طرف آپ کا دھیان گیا ہے، میرا وہ مقصد نہیں (بلکہ میں تو رسول اللہﷺ کے خاندان سے نسبت جوڑنا چاہتا ہوں) تو سیدنا علیؓ نے سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح ان سے کر دیا اور سیدنا عمرؓ نے اسے دس ہزار دینار حق مہر دیا۔

(تاريخ اليعقوبی: جلد، 2 صفحہ 149،150 دیکھیئے: فروع الكلينی: جلد، 5 صفحہ، 1010 كتاب النكاح، حدیث نمبر: 1 باب نمبر: 2 باب تزويج امِ كلثوم تہذيب الأحكام: جلد، 8 صفحہ، 1962 ح، 157 مناقب آل أبی طالب: جلد، 3 صفحہ، 848 الشافی: صفحہ، 116)

مضحکہ خیز نکتہ:

حکومت صفویہ کے شیخ طریقت نے یہاں پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: سیدنا علیؓ نجران کی ایک یہودی جننی کی طرف پیغام بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ سیدہ امِ کلثوم بنتِ علیؓ کی شکل اختیار کر کے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ سے شادی کرلے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔

(مرأة العقول: جلد، 20 صفحہ، 42 باب فی تزويج أمِ كلثومؓ)

سیدنا علیؓ کا سیدنا عمرؓ کے بارے میں رومیوں سے خوف کیونکہ سیدنا عمرؓ لوگوں کے بہت بڑے پشت پناہ اور پناہ گاہ تھے اور عربوں کے اصل تھے۔ جب سیدنا عمرؓ نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے لیے بنفس نفیس جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا علیؓ سے بھی مشورہ کیا۔ سیدنا علیؓ نے انہیں یہ مشورہ دیا: جب آپ بذاتِ خود دشمن کے ساتھ جنگ کے لیے جائیں گے پھر اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو مسلمانوں کو اپنے ملک سے قریب کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی، آپ کے بعد انہیں کوئی لوٹنے کی جگہ میسر نہ ہوگی۔ اس لیے آپ ان کے ساتھ جنگ کے لیے ایک جنگجو مجاہد روانہ کریں اور اس کے ساتھ اہلِ خیر اور بہادر سپاہی بھیجیں۔ اگر اللہ نے اسے فتح سے ہمکنار کیا تو یہی آپ کی منشاء ہے اور اگر اسے شکست ہوگئی تو آپ مسلمانوں کی پشت پناہی اور پناگاہ کے لیے موجود ہوں گے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا: کل جب عجمی لوگ آپ کو میدان کارزار میں دیکھیں گے تو وہ کہیں گے: یہ عربوں کا اصل ہے، جب تم اسے کاٹ ڈالو گے تو تم راحت پا جاؤ گے۔

(نہج البلاغة: صفحہ، 196 نمبر: 146 ومن كلام عليه السلام وقد استشاره عمرؓ)

سیدنا علیؓ کی آرزو تھی کہ: وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں سیدنا عمرؓ جیسے اعمال لے کر حاضر ہوں۔

ابولؤلؤ مجوسی ایرانی نے سیدنا عمر بن خطابؓ کو خنجر کے وار سے شدید زخمی کر دیا تو رسول اللہﷺ کے دو چچا زاد بھائی سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ ان کی تیمارداری کے لیے حاضر ہوئے۔ سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا تو ہم نے سیدہ امِ کلثوم بنت علیؓ کے رونے کی آواز سنی جو سیدنا عمرؓ کے زخمی ہونے پر ہائے عمر کہہ کر رو رہی کے ساتھ دیگر عورتیں بھی رو رہی تھیں جس سے ان کا گھر رونے کی آواز سے گونج گیا۔ اس پر سیدنا ابن عباسؓ نے سیدنا عمر بن خطابؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا اللہ کی قسم! تمہارا اسلام مسلمانوں کے لیے عزت کا باعث تھا۔ تمہاری حکومت فتوحاتِ اسلامیہ کی سبب بنی اور تم نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے فرمایا اے ابنِ عباسؓ تم میرے بارے میں ایسی گواہی دے رہے ہو۔ تو گویا انہوں نے یہ گواہی دینا (منہ پر تعریفی کلمات کہنا) ناپسند کیا تو وہ رک گئے۔ اس پر سیدنا علیؓ نے سیدنا ابنِ عباسؓ سے کہا کہو ہاں میں گواہی دے رہا ہوں کہ آپ ان صفات کے حامل ہیں، اور میں (سیدنا علیؓ) بھی تمہارے ساتھ ہوں۔ لہٰذا سیدنا ابنِ عباسؓ نے کہا ہاں میں یہ گواہی دیتا ہوں۔ پھر جب سیدنا عمرؓ کو غسل دے کر کفن دے دیا گیا اور چادر میں لپیٹ دیا گیا تو سیدنا علیؓ انہیں دیکھ کر کہنے لگے، میرے نزدیک اس چادر میں لیٹے شخص سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں کہ میں اس جیسے اعمال لے کر اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں۔ 

(كتاب الشافی: صفحہ، 171 معانی الأخبار: صفحہ، 389 حدیث نمبر: 102 باب نوادر المعانی، بحار الانوار: جلد، 28 صفحہ، 117 كتاب الفتن و المحن)

سیدنا عمرؓ کا آلِ بیتؓ کا حد درجہ اکرام کرنا سیدنا عمرؓ اپنے بیٹے سیدنا عبداللہؓ پر سیدنا حسینؓ کو فضیلت دیتے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے سیدنا حسینؓ کے بارے میں یہ مشہور مقولہ کہا: کیا تمہارے علاوہ بھی کسی نے سر پر بال اگائے ہیں۔

(شرح نہج البلاغة: جلد، 12 صفحہ، 236 لابن أبی الحديد)