ایک مفسد تاریخی شخصیت عبداللہ بن سبا
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہایک مفسد تاریخی شخصیت عبداللہ بن سبا:
جوں جوں انسانی تمدن ترقی کرتا گیا اپنے نظریات کے حلقے کو وسیع کرنے کے لیے کبھی زیر زمین بھی گئے اور مخفی تنظیمات قائم کیں حالات کو نںٔی ترتیب دینے میں ان خفیہ تنظیمات نے اپنے اپنے عہد میں بہت کام کیا اور پرانی سے نئی زندگی میں لانے والے یہ آزاد قومی معمار اپنے کاموں سے نہیں اپنے کارناموں سے پہچانے جاتے رہے سوسائٹی کے ظاہر اعمال کے پیچھے یہ مخفی تنظیمات دور تک اثر انداز رہی ہیں۔
سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کی سیاسی کی عظمت کا سورج عین نصف النہار پر تھا کہ ایک یہودی منتقمانہ پروگرام لے کر اسلام کی صفوں میں داخل ہوا اس نے اپنا نام عبداللہ رکھا اور اپنی تحریک کا آغاز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کے خلاف پراپگینڈے سے کیا رفتہ رفتہ یہ لوگ صحابہؓ کے خلاف ہونٹ ہلانے لگے تاہم ان فری میسنز (بین الاقوامی یہودی تنظیم) کی کاروائیاں مسلمانوں میں کچھ سیاسی انتشار پیدا کرنے سے آگے نہ بڑھ سکیں تحریک زیر زمین چلتی رہی یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری کے نصف آخر میں مسلمانوں میں ایک نئے مذہب نے جنم لیا اور چوتھی صدی ہجری میں عبداللہ ابن سباء کا پہلا تاریخی تعارف ان الفاظ میں سامنے آیا۔
ابو عمرو الکشی 370ھ لکھتا ہے:
ذكر بعض أهل العلم ان عبد الله بن سبا كان يهوديا فاسلم و والى عليا علیه السلام وكان اول من اشهر بالقول بفرض امامة على علیه السلام واظهر البرأة من اعداںٔه وكاشف مخالفيه واكفرهم فمن ههنا قال من خالف الشيعة ان اصل التشيع والرفض ماخوذ من اليهودية (رجال کشی: صفحہ 85)
ترجمہ: بعض اہلِ علم نے کہا عبداللہ بن سباء یہودی تھا وہ اسلام میں داخل ہوا اور سیدنا علیؓ کی محبت کا دم بھرنے لگا یہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علیؓ کی منصوص امامت کی بات اڑائی اور آپ کے دشمنوں سے اظہار لا تعلقی کیا اور آپ کے مخالفین سے پردہ اٹھایا اور ان کی تکفیر کی اسی جہت سے وہ لوگ جو شیعہ کے خلاف ہوئے کہتے ہیں تشیع اور رفض کی جڑ یہودیوں سے چلی ہے۔
آںٔیے اب ہم آپ کو پانچویں صدی میں لے چلیں، ابو المظفر الاسفرائنیؒ 457 کی شہادت لیجیے:
وزعم ابو المظفر الاسفرائني في الملل والنحل ان الذين احرقهم على طائفة من الروافض ادعوا فيه الالهٰية وهم السبائية وكان كبيرهم عبد الله بن سبا يهوديا فاظهر الاسلام وابتدع هذه المقالة۔
(نقلہ فی فتح الباری: جلد 26، صفحہ 100)
ترجمہ: علامہ اسفرائنی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ لوگ جنہیں سیدنا علیؓ نے آگ میں جلا دیا تھا وہ رافضیوں کا ایک گروہ تھا جو حضرت علیؓ میں خدائی طاقت کے مدعی تھے وہ سبائی تھے اور ان کا بانی عبد اللہ ابن سباء یہودی تھا اس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور یہ باتیں گھڑیں۔
یہ الفاظ كہ كان يهوديا فاظهر الاسلام بتلاتے ہیں کہ وہ ایک خفیہ پروگرام سے اسلام کی صفوں میں گھسا تھا یہی الفاظ ہم چھٹی صدی میں حافظ ابنِ عساکر الدمشقیؒ (571ھ) سے سنتے ہیں:
كان اصله من اليمن وكان يهوديا فاظهر الاسلام وطاف بلاد المسلمين ليلفتهم عن طائفة الائمة ويدخل بينهم الشد و دخل دمشق لذلك۔
(تاریخ ابن عساکر: جلد قلمی)
ترجمہ: اس کی اصل یمن سے تھی وہ یہودی تھا بظاہر اسلام لایا اور اس نے تمام صوبوں کا دورہ کیا تا کہ انہیں اںٔمہ کے گروہ سے بچلا وے اور ان میں شر داخل کر دے اس کے لیے وہ دمشق آیا۔
آئیے اب ہم آپ کو ساتویں صدی میں لے چلیں مؤرخ علامہ ابن اثیر جزریؒ (630ھ) اپنی تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:
ان عبد الله بن سبا كان يهوديا واسلم ايام عثمان ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصره ثم بالكوفة يريد اضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك فاخرجه اهل الشام فاتي مصرا فاقام فيهم
(کامل ابن اثیر: جلد 3، صفحہ 77، احوال 35ھ)
ترجمہ: عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا وہ حضرت عثمانؓ کے دور میں اسلام لایا اور حجاز چلا آیا پھر بصرہ گیا پھر کوفہ آیا مسلمانوں کو اپنی راہ سے گمراہ کرنے کے در پے ہوا اور اس پر قادر نہ ہو سکا اہلِ شام نے اسے نکالا تو وہ مصر چلا آیا اور ان میں رہا۔
آئیے اب آپ کو اگلی صدی میں لے چلیں شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہؒ 724ھ لکھتے ہیں:
فالرافضة تنتحل النقل من اهل البيت لما لا وجود له واصل من وضع ذلك لهم زنادقة مثل رئيسهم الأول عبد الله بن سبا الذي ابتدع لهم الرفض
(فتاویٰ ابنِ تیمیہ: جلد 24، صفحہ، 367)
ترجمہ: سو روافض (شیعہ) اہلِ بیت کے نام سے وہ چیزیں گھڑتے ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور جس نے ان کے لیے یہ باتیں گھڑیں وہ زندیق تھا جیسے کہ ان کا پہلا رئیسں جس نے ان کے لیے رفض کو ایک دین بنایا عبداللہ بن سباء یہ بات یہ مؤرخین ہی نہیں کہہ رہے صدیوں سے یہ بات ان میں عام رہی ہے۔
ذكر غير واحد منهم ان اول من ابتدع الرفض والقول بالنص على علی وعصمته كان منافقا زندیقا اراد فساد دين الاسلام واراد ان يصنع بالمسلمين ما صنع بولص بالنصارى لكن لم يتأت له ما تأتي لبولص لضعف دين النصارى او عقلهم فان المسيح عليه السلا رفع۔
(منہاج السنۃ: جلد 3، صفحہ 261)
ترجمہ: اسے کئی لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ پہلا شخص جس نے رفض گھڑا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے منصوص اور معصوم امامت کی بات بنائی وہ ایک منافق تھا جس نے زندقہ کا طریقہ اختیار کیا وہ دین اسلام کو برباد کرنا چاہتا تھا اور اس نے چاہا مسلمانوں میں وہ وہی کام کرے جو پولوس نے عیسائیوں میں کیا ہے لیکن اسے وہ قوت حاصل نہ ہوئی جو پولوس کو حاصل تھی دین نصاریٰ کی کمزوری اور ان کی بے سمجھی کی وجہ سے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا گیا (اور ان کی خلافت قائم نہ ہو سکی تھی)
اس صدی کے آخر میں حافظ ابنِ کثیرؒ الدمشقی 774ھ میں بھی یہی کہتے تھے:
ان رجلا يقال له عبد الله بن سبا كان يهودياً فاظهر الاسلام و صار الى مصر فاوحىٰ إلى طائفة من الناس كلاما اخترعه من عند نفسه
(البدایہ والنہایہ: جلد 7، صفحہ 167)
ترجمہ: ایک شخص تھا جسے عبداللہ ابن سباء کہا جاتا تھا وہ یہودی تھا اس نے اپنے آپ کو مسلمان کہا اور مصر چلا آیا اور کچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے خفیہ طور پر ان سے کچھ باتیں کیں اور وہ باتیں سب اس کا اختراع تھیں۔
اب آئیے اگلی صدی میں چلیں، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (852ھ) بھی کہتے ہیں:
اخبار عبد الله بن سبا شهيرة في التاريخ وليست له رواية ولله الحمد وله اتباع يقال لهم السبائية معتقد والاهية على بن ابى طالب وقد احرقهم على بالنار في خلافته
(لسان المیزان: جلد 3، صفحہ 290)
ترجمہ: عبداللہ بن سبا کی خبریں تاریخ میں عام ہو چکیں اور اس کی کوئی روایت (حدیث و تاریخ میں) نہیں ہے اس پر خدا کا شکر ہے، جو اس کے پیرو ہوںٔے انہیں سبائی کہا جاتا تھا وہ سیدنا علیؓ کی الوہیت کے قائل تھے حضرت علیؓ نے اپنے دورِ خلافت میں انہیں آگ میں زندہ جلایا۔
حافظ ابن حجرؒ اس پر خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ عبداللہ ابن سباء سے کوئی روایت مروی نہیں ہے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نے کوئی معروف زندگی نہ گزاری بلکہ وہ زیادہ جاسوس لوگوں کے پیرائے میں رہا کبھی ظاہر اور کبھی مخفی اور اس قسم کے لوگ اسی پیرائے میں رہتے ہیں حتیٰ کہ بعض لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ کوئی فرضی شخصیت ہے تاہم اس کی خبریں اس درجہ میں شہرت پا چکیں کہ اب اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا اس شخص کا یہ الحادی کردار خبر متواتر کے طور پر چلا اور اس کا ذکر تقریباً تمام بڑے مؤرخین نے کیا ہے۔
معروف شیعہ مورخ مرزا محمد تقی نے ناسخ التواریخ لکھ کہ اپنے زعم میں اپنی پہلی سب تواریخ پر پانی پھیر دیا تاہم عبداللہ ابن سبا کے تاریخی وجود کا اس نے بھی اقرار کیا عبداللہ بن سبا نے مسلمانوں میں کن کن عقائد کو فروع دیا اسے مرزا محمد تقی کی زبانی سنیے اور سر دھنیے( افسوس کیجیئے) گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
گفت ہاں اے مردم مگر نشنیده اید کہ نصاریٰ گویند عیسیٰ علیہ السلام بدیں یہاں رجعت کند و باز آید چنانکه در شریعت ما نیز ایں سخن استوار است چوں عیسیٰ رجعت تواں کرد محمد کہ بے گماں فاضلتر از دست چگونه رجعت نه کند و خداوند نیزور قرآن کریم مے فرماید ان الذي فرض عليك القرآن لرادك إلى معاد
(ناسخ التواریخ: جلد 3، صفحہ، 234)
ترجمہ: اس نے کہا اے لوگو! کیا تم نے سنا نہیں کہ عیسائی کہتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں پھر لوٹیں گے اور دوبارہ آئیں گے جیسا کہ ہم مسلمانوں میں بھی یہ بات پختہ ہے جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسکتے ہیں تو حضور اکرمﷺ جو بلاشبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہیں وہ یہاں دوبارہ کیوں نہ آسکیں گے اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں حضور اکرمﷺ کو کہا ہے وہ خدا جسں نے تمہیں قرآن دیا ہے البتہ تجھے پھر لوٹائے گا لوٹنے کی جگہ پر۔
اس کا ایک خفیہ کارکن دروازہ پر آیا اور برملا سوال کیا، تمہارا عقیدہ سیدنا علیؓ کے دوبارہ آنے میں کیا ہے؟
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے اس کی ڈٹ کر تردید کی ہے
(تذكرة الحفاظ: جلد 1، صفحہ 54)
اسلام میں یہ کوئی معمولی زیادتی نہ تھی امام عجلیؒ کوفی (261ھ) نے اس پر کفر اسلام کا فاصلہ قائم بتلایا ہے اور کہا ہے جو حضرت علیؓ کی رجعت پر ایمان رکھتا ہے وہ کافر ہے(تذکرہ صفحہ 404)
عبداللہ بن سباء کے ایک دوسرے الحادی عقیدے کی ترغیب بھی آپ اس سے سنیں:
ہمانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم راعلی علیه اسلام وصی و خلیفه بود چنانچه خود فرمودانت منى بمنزلة هارون من موسیٰ، ایزی میتواں دانست که علی علیه السلام خلیفه محمد صلی اللہ علیہ وسلم است (ایضاً)
ترجمہ: یقیناً علی حضرت محمدﷺ کے وصی اور خلیفہ تھے چنانچہ آپ نے انہیں خود کہا تم میرے لیے اس طرح ہو جیسے ہارون، موسیٰ کے لیے تھے اس سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ حضورﷺ کے خلیفہ بلا فصل حضرت علیؓ ہیں۔
معلوم نہیں اس سے یہ کیسے جانا گیا کہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ سیدنا علیؓ ہیں، حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ نہ ہوئے تھے وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہوئے وہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے خلیفہ رہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ بھی حضورﷺ کے جنگ تبوک کے جانے کے موقع پر حضورﷺ کے خلیفہ رہے اور حضور اکرمﷺ کے گھر بار کی نگرانی بھی آپ کے سپرد رہی۔
مؤرخین کی یہ متواتر تاریخی شہادتیں اس یہودی کی تاریخی وجود کا پتہ دے رہی ہیں اس نے جن نظریات کو جنم دیا وہ آج تک اثناء عشری مذہب میں جعلی عنوانوں سے تسلیم کیے گئے ہیں اور شیعوں کو اس کے نقش پر چلنے کی خبر دے رہے ہیں ہاں یہ شخص چونکہ ایک خفیہ تحریک کا کارکن تھا اس لیے ہو سکتا ہے کبھی چھپنا کبھی ظاہر ہونا اس کی عادت رہی ہو اسی غلط فہمی میں کسی نے یہ سمجھ لیا ہو کہ یہ کوئی فرضی شخص ہوگا یہ بات صحیح ہے کہ حضرت علیؓ نے اسے زندقہ کی سزا دی اسے آگ میں جلوا دیا اور موت کی گھاٹ اتار دیا اور ظاہر ہے سزائے موت کسی فرضی شخصیت پر جاری نہیں کی جا سکتی وہ کوئی حسی وجود ضرور تھا۔