رافضی کا ذبیحہ کھانے اور ان کو ملازم رکھنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ کسی رافضی کو سنی حضرات اپنے مدرسے میں کھانا پکانے کی غرض سے ملازم رکھ سکتے ہیں کہ نہیں؟ اور اُس رافضی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ زید اور بکر کے مترادف قول اس مسئلہ میں یہ ہیں۔
زید کہتا ہے کہ چونکہ اُجرت لے کر رافضی کھانا پکاتا ہے، لہٰذا اس کے ہاتھ کا کھانا کھانا جائز ہے۔ اور بکر کا قول ہے کہ کسی صورت میں جائز نہیں، خواہ اُجرت لے کر یہ کام انجام دے خواہ بغیر اُجرت لیے ہوئے۔ کس کا قول صحیح ہے؟
جواب: اعلیٰ حضرت فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اسماعیلی رافضی کا ذبیحہ مردار ہے، اور ان کے یہاں کا پکا ہوا گوشت بھی حرام ہے، مگر یہ کہ مسلمانوں نے ذبح کیا ہو اور اُس وقت سے اس وقت تک مسلمانوں کی نگاہ سے غائب نہ ہوا ہو۔ بقیہ کھانوں پر حرمت کا حکم نہیں، پرہیز مناسب ہے۔ رافضیوں کو بلا ضرورت ملازم رکھنا منع ہے۔
(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 4 صفحہ، 327)