Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ علماء کا مجموعی عقیدہ کیا ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں شیعہ علماء کا مجموعی عقیدہ کیا ہے؟

جواب: شیعہ علماء کا شیخین حضرت عمر رضی اللہ عنہ و سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لعن طعن کرنے، ان سے براءت کا اظہار کرنے پر اتفاق ہے بلکہ ان کے نزدیک یہ کام امامیہ کی ضروریات دین میں سے ہے۔ 

(العقائد: صفحہ، 58)

اور گزشتہ صفحات پر گزر چکا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق ضروی اور لازمی چیز کا منکر کافر ہے۔ یہ بھی شیعی عقیدہ ہے کہ جو شخص شام کو شیخین کو گالیاں بکے صبح تک اس کا کوئی گناہ لکھا نہیں جاتا۔ 

(دیکھئے ضياء الصالحين: صفحہ، 513)

ان کے امام علامہ مجلسی نے یہ افتراء پردازی کی ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے غلام سے روایت ہے کہ: بعض تنہائی کی مجالس میں می بھی آپؓ کے ساتھ تھا۔ میں نے عرض کی بیشک آپ پر میرا حق ہے کہ آپ مجھے ان دونوں اشخاص سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں خبر دیں؟۔

تو آپ نے کہا: یہ دونوں کافر تھے اور ان سے محبت کرنے والے بھی کافر ہیں۔

(بحار الانوار: جلد، 30 صفحہ، 381 ح، 165 باب كفر الثلاثة، مستدرك الوسائل: جلد، 18 صفحہ، 178)

نیز ان دونوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی اسلام نہیں تھا۔

(وصول الأخيار الى أصول الأخبار: صفحہ، 94) 

ان کے علامہ مجلسی نے یوں گل افشانیاں کی ہیں:

جب سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے ہجرت کی تو انہوں نے اسلام کی خاطر ہجرت نہیں کی تھی بلکہ وہ دونوں اپنے کفر پر قائم تھے۔ ان کا اسلام لانا نفاق تھا۔ اور ان کی ہجرت نافرمانی اور بدبختی تھی۔

یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں:

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا (سورۃ التوبة: آیت، 97)

ترجمہ: بیشک اعراب کفر اور نفاق میں بہت سخت ہوتے ہیں۔

(مرآة العقول: جلد، 25 صفحہ، 125 ح، 18 الحسين بن عبد الصمد)

شیعہ کے معاصر آیت اللہ عبد الحسین المرتشی نے یہ گل افشانی کی ہے کہ:

بیشک سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ تا قیامت اس امت کی گمراہی کے دو سبب ہیں۔

(كشف الاشتباه: صفحہ، 98)

چنانچہ یہ روایت گھڑلی ہے کہ ابو عبد اللہؒ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:

رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَيۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡهُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِيَكُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِيۡنَ۞

(سورة حٰم سجده: آیت، 29)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ دونوں (فریق) رکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں تا کہ وہ انتہائی ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہوں۔

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا دو فریق سے مراد وہ دونوں (ابو بکرؓ و عمرؓ) ہیں۔ پھر فرمایا فلاں تو شیطان تھا۔

(الروضة من الكافی: جلد، 8 صفحہ، 2138 ح، 523)

شیعہ علامہ مجلسی کہتا ہے: دونوں فریق سے مراد ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں اور فلاں سے مراد عمرؓ ہے۔

(مرآة العقول: جلد، 26 صفحہ، 488، 523)

شیعہ علماء کے استاد الکلینی نے مقدس کتاب الکافی میں دو روایات ذکر کی ہیں جن میں اس شخص کا حکم بیان کیا گیا ہے جو یہ سمجھتا ہوں کہ ابو بکرؓ اور عمرؓ مسلمان تھے۔ وہ ابو عبد اللہؒ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے روز قیامت اللہ کلام نہیں کرے گا، نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک وہ شخص جس نے اللہ کی طرف سے امامت کے حق کا دعویٰ کیا، حالانکہ وہ اس کا اہل نہ تھا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام کا انکار کیا۔ اور تیسرا وہ شخص جو کہتا ہے کہ ابو بکرؓ و عمرؓ مسلمان تھے (یا اسلام میں ان کا کوئی نصیب و حصہ تھا) 

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 279، 280 كتاب الحجة: جلد، 4 صفحہ، 12) 

شیعہ لوگ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو قریش کے "دو بت" کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عالم علی الکرکی نے کہا ہے: یہ بات مشہور ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ نمازِ وتر میں قریش کے دونوں بتوں پر لعنت کیا کرتے تھے اور ان سے مراد ابوبکرؓ و عمرؓ لیا کرتے تھے۔

(نفحات اللاہوت فی لعن الجبت والطاغوت: صفحہ، 192 الفصل السابع لعلى الكركی) 

ابراہیم الکفعمی (متوفی 900ھ) کی کتاب (البد الامین والدرع الحصین) میں شیعوں کی وہ مشہور دعا لکھی ہے جسے وہ اپنی طرف سے جھوٹ بولتے ہوئے سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس دعاء میں ابوبکرؓ و عمرؓ اور ان کی بیٹیوں عائشہؓ و حفصہؓ کو بد دعائیں دیتے ہیں اور یہ دعا ان کے صبح وشام کے اذکار میں شامل ہے۔ دعا درج ذیل ہے:

اللهم العن صنمی قريش، وجبتيها، و طاغوتيها، و ابنتيهما، اللذين أكلا أنعامك و جحدا آلائك، و خالفا أمرك و أنكرا وحيك، و عصيا رسولك، و قلبا دينك و حرفا كتابك، و عطلا أحكامك، وأبطلا فرائضك، و ألحدا فی آياتك، و عاديا أوليائك، و وليا أعدائك، وأفسدا عبادك، وأضرا ببلادك، اللهم العنهما وأنصارهما، فقد أخربابيت النبوة وردما بابه، ونقضا سقفه، وألحقا سماه بأرضه وعاليه بسافله، وظاهره بباطنه، واستأصلا أهله، وأبادا أنصاره وقتلا أطفاله، وأخليا منبره من وصيه، و وارث علمه، و جحدا نبوته، وأشركا بربهما فعظم ذنبهما، وخلدهما فی سقر، وما أدراك ما سقر، لا تبقى ولا تذر اللهم العنهم بعدد كل منكر أتوه، و حق أخفوه و منبر علوه، و منافق و لوه، و ولى آذوه و طريد آووه، و صاحب طردوه و كافر نصروه، و إمام قهروه و فرض غيروه و أثر أنكروه، و شر أضمروه و دم اراقوه، و خير بدلوه، حكم قلبوه و كفر أبدعوه، و كذب دلسوه، وإرث غصبوه وفیء اقتطعوه، و سحت أكلوه، و خمس استحلوه و باطل أسسوه وجور بسطوه و ظلم نشروه، و وعد أخلفوه، وعهد نقضوه، وحلال حرموه، وحرام حللوه، ونفاق أسروه وغدر أضمروه وبطن فتقوه وضلع كسروه وصك مزقوه، وشمل بددوه، وعزيز أذلوه وذليل أعزوه، وحق منعوه وإمام خالفوه۔ 

اللهم العنهم كل آية حرفوها، وفريضة تركوها، وسنة غيروها، وأحكام عطلوها، وأرحام قطعوها وشهادات كتموها، ووصية ضيعوها، أيمان نكثوها، ودعوى أبطلوها وبيعة أنكروها، وحيلة أحدثوها، وخيانة أوردوها، وعقبة ارتقوها، ودباب دحرجوها، وأزياف لزموها، اللهم العنهما فی مكنون السر، وظاهر العلانية، لعنا دائما دائبا، سرمدا، لا انقطاع لأمده، ولا نفاد لعدده، لعنا يغدو أوله، ولا يروح آخره لهم، ولأعوانهم، وأنصارهم، ومحبيهم، ومواليهم، والمسلمين اليهم والناهضين باحتجاجهم، والمقتدين بكلامهم، والمصدقين بأحكامهم۔

ترجمہ: اے اللہ قریش کے دو بتوں اور جبت پر ان کے دونوں طاغوتوں پر، اور ان کی دونوں بیٹیوں پر لعنت کر جنہوں نے تیری نعمتیں کھائیں اور تیرے انعام کا انکار کیا۔ تیرے حکم کی مخالفت کی۔ اور تیری وحی کا انکار کیا، تیرے رسول کی نافرمانی کی، تیرے دین کو بدل ڈالا ، تیری کتاب میں تحریف کردی، تیرے احکام کو معطل کر ڈالا۔ تیرے فرائض کو باطل کر دیا۔ تیری آیات میں الحاد کیا، تیرے اولیاء سے دشمنی کی اور تیرے دشمنوں سے محبت کی، اور تیرے بندوں کو تباہ کر دیا۔ تیرے ملک میں ضرر پھیلایا۔ اے اللہ! ان دونوں پر اور ان کے انصار پر لعنت کر۔ انہوں نے یقیناً نبوت کے گھرانے کو ویران کر دیا اور ان کے دروازے کو توڑ دیا اس کی چھت کو گرا دیا اور گھر کے آسمان کو زمین کے ساتھ ملا دیا۔ بالائی حصہ کو نچلے حصہ سے ملا دیا۔ ظاہر اور باطن کو ایک کر دیا۔ اور اہلِ بیتؓ کی جڑیں کاٹ دیں۔ ان کے بچوں کو قتل کیا، نبی کے وصی سے منبر خالی کرالیا جو کہ اس کے علم کا وارث بھی تھا۔ انہوں نے اس کی نبوت کا انکار کیا، اپنے رب کے ساتھ شرک کیا، ان کے گناہ کو اور بڑھا دے۔ اور انہیں جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھینک دے۔ اور تجھے کیا معلوم کہ جہنم کی وادی سقر کیا؟ یہ وہ وادی ہے جو کسی چیز کو باقی نہیں چھوڑتی۔ اے اللہ! انہیں ان کے ہر برے عمل پر لعنت کر، اور جو حق انہوں چھپایا اور جتنے بھی منبروں پر چڑھے اور جتنے اہلِ نفاق سے انہوں نے دوستی کی، اور مومنوں کو دور کیا یا ولی کو اذیت دی یا راندہ درگاہ کو پناہ دی یا حق دار کو راندہ درگاہ کیا یا جتنے کافروں کی مدد کی یا امام کو مغلوب کیا؟ اور فرائض میں تبدیلی کی یا اثر کو بدل ڈالا یا جتنا بھی شر انہوں نے چھپایا جتنا بھی خون بہایا؟ جتنی بھی احادیث کو بدلا احکام کو تبدیل کیا؟ کفر ایجاد کیا؟ یا جھوٹ کی تدلیس کی وراثت کو غصب کیا؟ یا مال فئے کو ختم کیا، جتنا بھی حرام کھایا جس کو اپنے لیے حلال کیا؟ یا باطل کی بنیاد رکھی جتنا بھی ظلم پھیلایا ظلم کو پذیرائی دی وعدوں کی خلاف ورزی کی عہد و پیمان کو توڑا حلال کو حرام کیا یا حرام کو حلال کیا نفاق کو دل میں چھپایا غدر کو پوشیدہ رکھا، جتنے بھی پیٹ چاک کئے پسلیاں توڑیں، تحریروں کو پھاڑا جتنی بھی پگڑیوں کو اچھالا ذلیلوں کو عزت دی یا عزت داروں کو ذلیل کیا جتنا بھی حق روک لیا یا امام کی مخالفت کی اتنی ہی تعداد میں ان پر لعنت کر۔ 

اے اللہ! ان کی ہر تحریف کردہ آیت کی تعداد میں ان پر لعنت کر اور ہر اس فریضہ کی تعداد میں جو انہوں نے ضائع کیا یا سنت کو تبدیل کر دیا یا دعویٰ کو باطل کر دیا اور بیعت کا انکار کیا اور حیلہ جو ایجاد کیا؟ یا پھر خیانت کا ارتکاب کیا یا جتنی بھی گھاٹیوں پر چڑھے۔ یا جتنے بھی دباب لڑھکائے؟ یا جو بھی ناکارہ چیز انہوں نے اپنے اوپر لازم کر لی (اس کی تعداد میں ان پر لعنت کر) اے اللہ! اپنے سربستہ راز میں اور کھلے اعلانیہ میں ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لعنت کر دائمی و ابدی لعنت کر جو کہ ختم ہونے والی نہ ہو۔ اور نہ ہی اس کی تعداد کی کوئی منتہا ہو۔ ایسی لعنت کہ جس کی صبح ہو مگر شام نہ ہو۔ ان پر ان کے اعوان و انصار ان سے محبت کرنے والے اور دوستی رکھنے والے ان کی بات ماننے والے اور ان کا دفاع کرنے والے اور ان کا کلام پیش کرنے والے اور ان کے احکام کی تصدیق کرنے والے سب پر لعنت کر۔ پھر اس دعا کے بعد چار بار کہے: اے اللہ! ان پر لعنت کا ایسا عذاب برسا کہ جس سے اہلِ جہنم بھی پناہ مانگتے ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔

(البلد الأمين والدرع الحصين: صفحہ، 646 علم اليقين، جلد، 2 صفحہ، 701، 703 مفتاح الجنان: صفحہ، 113، 114 تحفه عوام مقبول: صفحہ، 423، 424)

علامہ مجلسی صاحب اس دعاء کے بارے میں رقمطراز ہیں یہ بہت ہی عظیم الشان رفیع المرتبت دعا ہے۔ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ دعائےقنوت میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اور کہا کرتے تھے: 

یہ دعا کرنے والا بالکل ایسے ہی ہے جیسے نبی کریمﷺ کے ساتھ مل کر بدر و احد اور حنین کے جہاد میں دس لاکھ تیر چلانے والا۔

(بحار الأنوار : جلد 85 صفحہ، 260 كتاب الصلاة باب: القنوتات الطويلة المروية عن أهل بيت عليهم السلام)

نیز شیعہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو فرعون اور ہامان کا لقب بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے راوی مفضل نے ابو عبد اللہ سے پوچھا: اے میرے آقا! فرعون اور ہامان کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں۔

(مختصر بصائر الدرجات: صفحہ، 424 قرة العيون:صفحہ، 432، 433 بحار الانوار: جلد 53 صفحہ، 17 الزام الناصب فی اثبات الحجة الغائب: جلد، 2 صفحہ، 285)

ایسے ہی حضراتِ شیخینؓ  کو دشمنین (دو مورتیاں) کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس بارے میں عیاشی بہتان تراشی کرتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ ابوحمزہ نے ابوؒجعفر سے سوال کیا اللہ آپ کی اصلاح فرمائے، اللہ کے دشمنوں سے کون مراد ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ان سے چار بت مراد ہیں۔ میں نے عرض کی وہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا:

ابو الفصیل (ابو بکرؓ کی توہین کرنے کے لئے گھڑا گیا نام) رمع (عمرؓ کو الٹا کر بنایا گیا اسم) نعثل بوڑھا بجو مراد (عثمانؓ لیتے ہیں) اور معاویہؓ۔ اور جس نے ان کے دین کو اختیار کیا، جس نے ان کے ساتھ دشمنی کی اس نے اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کی۔

(تفسير العياشی: جلد، 2 صفحہ، 122 حدیث نمبر: 155 بحار الأنوار: جلد 27 صفحہ، 58 حدیث نمبر: 16)

ایسے ہی شیعہ کے ہاں اللات و العزی سے مراد سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔

(كمال الدين و تمام النعمة: جلد، 1 صفحہ، 240، ح، 2 باب: 23 نص الله تبارك و تعالىٰ على القائم و أنه الثانی عشر من الأئمة عليهم السلام عيون أخبار الرضا: جلد، 1 صفحہ، 84 كتاب الرجعة: صفحہ، 112 لأحمد الأحسائی)

شیعہ کے نزدیک بے شک آدم علیہ السلام کے دور سے لے کر تا قیامت جو گناہ بھی کیا جائے گا تو وہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کافعل ہوگا! شیعہ روایت کے مطابق ابو عبد اللہؒ نے کہا ہے: 

یہی وہ دونوں ہیں جنہوں نے ہابیل بن آدم علیہ السلام کو قتل کیا، ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ جلائی، یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا، یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں قید کیا، یحییٰ علیہ السلام کو قتل کیا، عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھایا، جرجیس اور دانیال کو عذاب میں مبتلا کیا، سیدنا سلمان فارسیؓ کو مارا امیر المومنین سیدنا علیؓ، فاطمہؓ اور حسنؓ و حسینؓ کو جلانے کے لیے ان کے دروازے پر آگ جلائی۔ صدیقہ کبریٰ فاطمہؓ کے ہاتھ پر کوڑا برسایا اور ان کے پیٹ میں ٹانگ مار کر ان کے بیٹے محسن کا حمل گرایا، حسنؓ کو زہر دیا اور حسینؓ کو قتل کیا، ان کے بچوں کو ذبح کیا اور ان کے چچا زاد بھائیوں کو مار ڈالا اور ان کے انصار کو قتل کر دیا۔ رسول اللهﷺ کی اولاد کو لونڈیاں بنا لیا، اور آلِ محمدﷺ کا خون بہایا۔ لہٰذا ہر خون جو بہایا گیا اور ہر شرم گاہ جو حرام طریقہ سے استعمال کر لی گئی، اور ہر زنا، ہر بد معاشی، بے حیائی، گناہ ظلم و جور اور غنڈہ گر دی جو آدم علیہ السلام کے عہد سے لے کر القائم کے ظہور تک ہو گی وہ ان دونوں کے ذمے ہو گی اور ان کے کھاتے میں ڈالی جائے گی۔ یہ دونوں ان کا اعتراف کریں گے۔ لہٰذا حاضرین مجلس کے مظالم کا ان سے بدلہ لیا جائے گا۔ پھر انہیں درخت پر سولی دے گا اور زمین سے نکلنے والی آگ کو حکم دے گا جو انہیں درخت سمیت جلا دے گی۔ پھر وہ ہوا کو حکم دے گا تو وہ انہیں سمندر میں پھینک دے گی۔

مفضل کہتا ہے: میں نے کہا اے میرے آقا! کیا یہ ان کا آخری عذاب ہوگا؟ انہوں نے کہا افسوس ہے اے مفضل! بالکل نہیں۔ اللہ کی قسم! ان سے ہر ظلم کا بدلہ لیا جائے گا یہاں تک کہ انہیں ہر روز ایک ہزار مرتبہ قتل کیا جائے اور ان کے رب نے جب تک چاہا ان کو جہنم میں ڈالے گا۔

(مختصر بصائر الدرجات: صفحہ، 415 صفحہ، 512 الزام الناصب: جلد، 2 صفحہ، 281)

آخری بات:

تمام شیعہ علماء کا اجماع ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ مشرک تھے اور وہ دونوں نبی کریمﷺ کی زندگی میں منافقت کے ساتھ اسلام کا اظہار کرتے تھے۔

(الفصول المختاره للمفيد: صفحہ، 26) 

اور اس بات پر بھی شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ: یہ دونوں حضرات سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پہلے خلیفہ بننے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ان کے عالم علامہ مفید کا کہنا ہے کہ: فرقہ امامیہ اور بہت سارے زیدیہ کا اجماع ہے کہ حضرت امیر المؤمنین سے پہلے خلیفہ بننے والے گمراہ اور فاسق تھے۔ اور امیر المؤمنین کو رسول اللہﷺ کے مقام سے پیچھے کرنے کی وجہ سے ظالم اور نافرمان ہیں، اور یہ دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔

(أوائل المقالات: صفحہ، 41-42 القول فی المتقدمين على أمير المؤمنين)

علامہ مجلسی نے کہا ہے: میں کہتا ہوں کہ وہ روایات جو کہ سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ اور ان کے امثال کے کفران پر لعنت کرنے کے ثواب اور ان سے اور ان کی بدعات سے برات کے اظہار کو متضمن ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس مجلد میں؟ یا پھر کئی ایک مجلدات ان کا تذکرہ کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں۔ اور جتنی روایات ہم نے ذکر کی ہیں وہ ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینا چاہے۔

(بحار الأنوار: جلد، 30 صفحہ، 399 ح: 165 باب: كفر الثلاثة ونفاقهم وفضائح أعمالهم و قبائح آثارهم)

معاصر شیعہ عالم ابوعلی الاصفہانی نے کہا ہے: سیدنا

ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے کفر کا مسئلہ ایک مسلمہ مسئلہ جس پر بہت ساری روایات دلالت کرتی ہیں اور ان میں سے چند ایک روایات کا تذکرہ ہم بطورِ تبرک کے کریں گے۔

(فرحة الزہراء: صفحہ، 33 عدم أيمان أبی بكرؓ و عمرؓ)

تعلیق:

جس شخص کے پاس عقل و خرد کی رتی بھی موجود ہو، کیا وہ ایسی خرافات کی تصدیق کر سکتا ہے؟

اپنی چھری اپنا گلا:

کلینی روایت کرتا ہے کہ ایک عورت نے سیدنا جعفر صادقؒ سے سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؒ کے بارے میں سوال کیا تو عرض کی کیا آپ ان دونوں کو دوست سمجھتے اور ان سے محبت کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا تم ان سے محبت رکھو۔ اس نے کہا میں جب اپنے رب سے ملوں تو اسے کہہ دوں کہ تم نے مجھے ان دونوں سے محبت رکھنے کا حکم دیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔

(الروضة من الكافی: جلد، 8 صفحہ، 1995 حدیث نمبر : 71 حديث أبی بصير مع المرأة: جلد، 8 صفحہ، 2079 حديث نمبر: 319 حدیث علی بن حسین)

اسی پر بس نہیں بلکہ زید بن علی بن حسین بن علیؓ بن ابی طالب نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا انہوں نے اپنے آباء و اجداد میں سے کسی کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے نہیں سنا۔ 

(الانتفاضات الشيعة: صفحہ، 497)

شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن حبیب نے کہا ہے کہ: سیدنا زیدؒ کی وجہ سے ان لوگوں کا نام رافضی پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت کی بیعت کی اور پھر آپ کا امتحان لینے لگے؟ تو آپ نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہی سے محبت وموالات کا اظہار کیا تو انہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس دن سے ان کا نام رافضی پڑ گیا۔

(المحبر: صفحہ، 483 لمحمد بن حبيب (متوفى 245ھ) الصوارم: صفحہ، 225 رقم، 76 إنا نرفضك فقال إذهبواأنتم الرافضة، اور انہوں نے کہا ہم آپ کی امامت نہیں مانتیں تو انہوں جاؤ تم رافضی ہو)