Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت عین ایمان ہے۔

  الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی

اہلِ سنت والجماعت اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے اصحاب و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نبی کریمﷺ‏ سے سچی اور مخلصانہ محبت رکھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی ان سے محبت اور دوستی رکھے ان کے حقوق کا خیال رکھے اور ان کی فضیلت کا اعتراف کرے وہ بھی کامیاب ہونے والوں کے ساتھ کامیاب ہو جائے گا اور جو کوئی ان سے بغض رکھے اس قدسی جماعت پر سبِّ وشتم کرے اور ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کرے جو کہ دین اسلام کے دشمن ان پر الزام لگاتے ہیں تو وہ بھی ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔
اس کی دلیل یہ فرمانِ الہٰی ہے:
وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ ۞
 (سورۃ الحشر: آیت 10)
ترجمہ: اور (یہ مال فیئ) ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان (مہاجرین اور انصار) کے بعد آئے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔ اے ہمارے پروردگار! آپ بہت شفیق، بہت مہربان ہیں۔ 
صحیحین میں ہے نبی کریم ﷺ‏ نے فرمایا:
آیَۃُ الْإِیْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَ آیَۃُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ 
(أخرجہ البخاری فی صحیحہ فی کتاب مناقب الأنصار، باب: حب الأنصار من الإیمان: جلد، 3 صفحہ، 39 رقم، 3784 و مسلم فی صحیحہ فی کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن حب الأنصار و علی رضی اللہ عنہم من الإیمان و علاماتہ، و بغضہم من علامات النفاق: جلد، 1 صفحہ، 85 رقم، 128) 
ترجمہ: ایمان کی نشانی انصار سے محبت اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض و عداوت ہے۔
نبی اکرمﷺ‏ نے کئی ایک احادیث میں ان سے محبت کے واجب ہونے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کی محبت ایمان کی نشانی ہے، اور ان سے بغض و نفرت منافق ہونے کی نشانی ہے۔
جب انصار کے حق میں یہ بات ثابت ہو گئی تو بلاشبہ مہاجرین اس کے زیادہ حق دار اور درجہ میں اولویت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ اجمالی طور پر مہاجرین انصار سے افضل ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نبی کریمﷺ‏ کے دین کی نصرت بھی ہر طرح سے کی ہے اور آپﷺ‏ کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت بھی کی ہے۔
اَلْأَنْصَارُ لَا یُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَ لَا یُبْغِضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اللّٰہُ وَ مَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اللّٰہُ 
(البخاری: ح، 3783 و مسلم: ح، 75)
ترجمہ: انصار سے مؤمن کے علاوہ کوئی بھی محبت نہیں کر سکتا اور منافق کے علاوہ کوئی بھی ان سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ جس نے ان سے محبت کی، اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں، اور جس نے ان سے بغض رکھا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھتے ہیں۔
اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریمﷺ‏ نے فرمایا:
لَا یُبْغِضُ الْاَنْصَارَ رَجُلٌ یُؤُمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ 
(صحیح مسلم: ح، 76)
ترجمہ: جو انسان اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو پھاڑا، اور نفس (جان) کو پیدا کیا بیشک نبی اکرمﷺ‏ کا میرے ساتھ یہ عہد ہے، مجھ سے مؤمن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھے گا۔
(صحیح مسلم: ح، 78) 
ان نصوص کی بناء پر اور ان کے علاوہ وہ نصوص جو اس معنی میں آئی ہیں (ان کی بناء پر) اہلِ سنت والجماعت نبی کریمﷺ‏ کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور اسی بات کا انہوں نے اپنے اقوال اور کتب میں حکم دیا ہے۔
(شرح العقیدۃ الواسطیۃ لابن عثیمین: جلد، 2 صفحہ، 256)
کتاب و سنت کے وہ تمام دلائل جو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جانے والی محبت کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں وہ تمام اصحابِ رسول اللہﷺ‏ کی محبت پر بھی دلالت کرتے ہیں اس لیے کہ وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر اس محبت اور دوستی کے حق دار ہیں۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہﷺ‏ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی محبت میں افراط سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا ہے یا انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا ہم اس سے بغض رکھتے ہیں۔ ان کی محبت دین، ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔ 
(العقیدۃ الطحاویہ مع شرحہا لابن ابی العز: صفحہ، 689) 
یہاں پر اس سلسلہ میں ایک بہت ہی لطیف اور عمدہ قول نقل کیا جا رہا ہے۔ امام لالکائی نے امام مالک رحمۃ اللہ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: سلف صالحین اپنے بچوں کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ایسے سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھائی جاتی ہے۔
(شرح اصول اعتقاد اہلِ سنت والجماعت: جلد، 7 صفحہ، 1240 رقم، 2325 تاریخ مدینہ دمشق: جلد، 44 صفحہ، 383 الحجۃ فی بیان المحجۃ: جلد، 2 صفحہ، 338) 
امام ابو نعیم نے اپنی کتاب الحلیۃ میں حضرت بشر بن حارث رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے. آپؒ فرمایا کرتے تھے:
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرا سب سے زیادہ پختہ اور پُر امید عمل أصحابِ رسول اللہﷺ‏ کی محبت ہے۔
(شرح اصول اعتقاد اہلِ سنت والجماعت: جلد، 8 صفحہ، 338)
حضرت بشر بن حارث رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: میں نے مالک بن مغول رحمۃ اللہ سے کہا: مجھے وصیت کیجیے۔ فرمایا: میں تمہیں جناب شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں۔ کہتے ہیں میں نے پھر دوبارہ کہا: مجھے وصیت کیجیے۔ فرمایا: میں تمہیں جناب شیخین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے محبت کی وصیت کرتا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت زیادہ بھلائی عطا کی ہے؟ فرمایا: ہاں اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے ان دونوں حضرات کی محبت پر وہ انعام و بدلہ ملنے کی امید کرتا ہوں، جس انعام و بدلے کی امید تمہارے لیے توحید بجا لانے پر کی جا سکتی ہے۔ 
(شرح اصول أعتقاد اہلِ سنت: جلد، 7 صفحہ، 1245)
نیز آپ نے حضرت شعیب بن حربؒ سے یہ بھی روایت کیا ہے۔ فرمایا:
عاصم بن محمدؒ کی مجلس میں سیدنا سفیان ثوریؒ کا ذکر کیا گیا، اور ان کے مناقب شمار کیے جانے لگے۔ یہاں تک کہ تقریباً پندرہ مناقب شمار کیے گئے تو عاصم بن محمدؒ نے پوچھا: کیا تم لوگ اپنی گفتگو سے فارغ ہو گئے؟
مجھے ایک ایسی منقبت کا بھی علم ہے جو ان تمام سے افضل ہے، وہ یہ ہے کہ: آپ کا سینہ اصحابِ محمدﷺ‏ کے لیے بالکل صاف تھا۔
(شرح اصول اعتقاد اہلِ سنت والجماعت: جلد، 8 صفحہ، 1240)