کیا شیعہ علماء نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے ائمہ کے عقیدے کی اتباع کی ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ علماء نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے ائمہ کے عقیدے کی اتباع کی ہے؟
جواب: نہیں بلکہ انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو علی الاعلان کافر، فاسق کہا ہے اور ان پر لعنت بھیجنے کا مذہب اختیار کیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے بارے میں ان کے جملہ عقائد میں سے ہے کہ لوگوں کی زبانوں پر سیدنا عثمانؓ کا نام کافر تھا۔ اور پھر سیدنا حذیفہؓ کی طرف یہ تہمت منسوب کی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے: الحمد للہ کہ سیدنا عثمانؓ کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
(حق اليقين فی معرفة أصول الدين: جلد، 1 صفحہ، 247 لعبد الله الشبر مثالب عثمان)
شیعہ کہتے ہیں: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین و صالحین اور دیگر موجود اہلِ ایمان کا اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ واجبُ القتل حلال الدم ہے۔ جتنا جلدی ہو سکے اسے فوراً قتل کر دینا چاہیئے۔ اسے غسل دینا حلال نہیں۔ اور نہ ہی اس اس پر نمازجنازہ پڑھنا جائز ہے۔ اور نہ ہی اسے دفن کرنا جائز ہے۔
(المصدر السابق جلد، 1 صفحہ، 248)
شیعہ علماء نے تواتر کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے برأت پر اجماع نقل کیا ہے اور یہ کہ آپ دائرہ ایمان واسلام سے خارج ہو چکے تھے۔
(المصدر السابق جلد، 1 صفحہ، 249)
انہوں نے اپنی طرف سے من گھڑت افسانے تراشتے ہوئے صحابہؓ و تابعین کی طرف سیدنا عثمانؓ کے قتل کےحلال ہونے اور آپؓ کا خون بہانے کے جواز اور کافر ہونے کا اجماع منسوب کیا ہے۔
(حق اليقين فی معرفة اصول الدين: جلد، 1 صفحہ، 249)
چنانچہ تمام شیعہ اس بات پر متفق العقیدہ ہیں کہ: سیدنا عثمانؓ کافر ہونے کی وجہ سے قتل کے مستحق تھے۔
(بحار الانوار: جلد، 31 صفحہ، 166)
شیعہ علماء نے سیدنا عثمانؓ کو بجو سے تشبیہ دی ہے کیونکہ بجو جب شکار کرتا ہے تو اس کے ساتھ بدکاری کرتا ہے پھر اسے کھا لیتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک عورت لائی گئی تا کہ اس پر حد لگائی جائے، تو انہوں نے اس سے وطی کی پھر اسے رجم کرنے کا حکم دیا کلبی کتاب المثالب میں لکھتا ہے:
عثمانؓ کے ساتھ بدکاری کی جاتی تھی اور وہ مخنث تھے اور دف بجایا کرتے تھے۔
(الصراط المستقيم: جلد، 3 صفحہ، 30 النوع الثالث فی عثمان: اور الأنوار النعمانية: جلد، 1 صفحہ، 65)
اور کہتے ہیں کہ: کوا سیدنا عثمانؓ کے شیعہ میں سے ہے۔ پھر انہوں نے ایک روایت گھڑ کر ابو جعفرؒ کی طرف منسوب کردی؟ اور کہا سیدنا عثمانؓ کے گروہ کا ایک آدمی ابو جعفرؒ کے پاس بیٹھا ہوا سیدنا عثمانؓ کی تعریف کر رہا تھا پس اچانک دیکھا کہ دیوار پر ایک چھپکلی آواز نکال رہی ہے، تو ابو جعفرؒ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا کہہ رہی ہے؟
میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہہ رہی ہے تم سیدنا عثمانؓ کے ذکر سے باز آجاؤ ورنہ میں سیدنا علیؓ کو گالی دوں گی۔
(بصائر الدرجات: جلد، 2 صفحہ، 180 باب فی الأئمة أنهم يعرفون منطق المسوخ و يعرفونهم)
شیعہ کا شیخ صفوین مجلسی کہتا ہے: بیشک عثمانؓ نے قرآن مجید سے تین چیزیں حذف کی ہیں۔ سیدنا علیؓ کے مناقب، اہلِ بیتؓ کے فضائل اور قریش کی مذمت اور خلفائے ثلاثہؓ کی مذمت۔ جیسا کہ اس آیت کو حذف کر دیا: (يا ليتنى لم أتخذ أبابكر خليلا)
ترجمہ: اے کاش میں ابو بکرؓ کو خلیل نہ بناتا۔
(تذكرة الأئمة: صفحہ، 9)
سیدنا عثمانؓ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کو مارا اور ان سے ان کا مصحف مانگا تا کہ اس میں بھی تغیر و تبدل کریں جیسا کہ انہوں نے باقی مصاحف کے ساتھ کیا تھا حتیٰ کہ کوئی صحیح محفوظ قرآن باقی نہ رہے۔
(بحر الجواہر: صفحہ، 347)
شیعہ کا الجزائری کہتا ہے: رہے عثمانؓ تو ان کے متعلق لوگوں نے ایمان کے بعد مرتد ہونے کی گواہی دی ہے۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 1 صفحہ، 64)
نیز کہتا ہے: عثمانؓ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے نبی ﷺکے زمانے میں اسلام کا اظہار کیا اور نفاق کو چھپائے رکھا۔
(الأنوار النعمانية:جلد، 2 صفحہ، 81)
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ جو شخص اپنے دل میں عثمانؓ کی دشمنی نہیں رکھتا، نہ ان کی عزت کے درپے ہوتا ہے اور نہ ان کے کافر ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے تو ایسا شخص اللہ اور اس کے رسولﷺ کا دشمن اور کتاب اللہ کی روشنی میں کافر ہے۔
(نفحات اللاهوت فی لعن الجبت والطاغوت: صفحہ، 140)
شیعہ علماء سیدنا ابو عبد اللہؓ پر یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر یوں کرتے تھے: وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱمۡرَأَتَ فِرۡعَوۡنَ الخ۔
(سورۃ التحریم: آیت، 11)
ترجمہ: اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی۔
آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ مثال رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کے لیے بیان کی ہے۔ جس کی شادی عثمانؓ بن
عفان سے ہو گئی تھی۔ اور پھر آگے چل کر کہتے ہیں:
وَنَجِّنِى مِن فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِهِ الخ۔ (سورۃ التحریم: آیت، 11)
ترجمہ: اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچائے۔
اس سے مراد تیسرا خلیفہ اور اس کے عمال ہیں۔
اور یہ کہ: وَنَجِّنِى مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ۞
(سورۃ التحریم: آیت، 11)
ترجمہ: مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔
یہاں پر ظالم لوگوں سے مراد بنوامیہ ہیں۔
(ويل الآيات الظاهرة تا تفسير جلد، 2 صفحہ، 700 ح، 8 سورة التحريم، البرہان: جلد، 8 صفحہ، 62 ح، 4)
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
أَيَحۡسَبُ أَن لَّن يَقۡدِرَ عَلَيۡهِ أَحَدٌ۞
(سورة البلد: آیت، 5)
ترجمہ: کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس پر کوئی قادر نہیں۔ کی یہ تفسیر کی ہے کہ کیا عثمانؓ نبیﷺ کی بیٹی کو قتل کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قادر نہیں۔
شیعہ علامہ قمی نے اپنی تفسیر میں ابو جعفرؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: أَيَحۡسَبُ أَن لَّن يَقۡدِرَ عَلَيۡهِ أَحَدٌ۞
(سورة البلد: آیت، 5) میں لکھا ہے کہ نبیﷺ کی بیٹی کے قتل کی وجہ سے قتل کیا جائے گا تو وہ کہے گا:
يَقُوۡلُ اَهۡلَكۡتُ مَالًا لُّبَدًا ۞
(سورة البلد: آیت، 6)
ترجمہ: وہ کہتا ہے میں نے ڈھیروں مال لٹا دیا۔
یعنی جنگِ تبوک کے موقع پر لشکر کی تیاری کے لئے جو مال کثیر رسول اللہﷺ کو دیا تھا۔
نیز اس آیت اَيَحۡسَبُ اَنۡ لَّمۡ يَرَهٗۤ اَحَدٌ۞
(سورة البلد: آیت، 7)
ترجمہ: کیا وہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں۔
اس کی تفسیر یہ کی کہ اس کے دل میں فساد تھا۔
اور اس آیت:
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّهٗ عَيۡنَيۡنِ۞ (سورة البلد: آیت، 8)
ترجمہ: کیا ہم نے اسے دو آنکھیں نہیں دیں؟
کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس سے مراد رسول اللہﷺ ہیں۔ اور وَلِسَانًا اور زبان سے مراد امیر المؤمنین سیدنا علیؓ ہیں۔ اور وَّشَفَتَيۡنِ اور دو ہونٹ سے مراد سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ ہیں۔
(تفسير القمی: صفحہ، 754 سورة البلد، اور بحار الانوار: جلد، 9 صفحہ،251 ح، 157)
اللہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا۞
(سورۃ الکہف: آیت، 5)
ترجمہ: یہ بات بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ مقتولہ سیدہ رقیہؓ ہیں۔
ان کا شیخ مجلسی سیدند عثمانؓ کے متعلق کہتا ہے: اس نے سیدہ رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کو قتل کیا اور ان کی باندی سے زنا کا ارتکاب کیا۔
(بحار الأنوار جلد، 31 صفحہ، 174 باب مثالب عثمان)
تعلیق:
چونکہ جھوٹ کا انجام ہمیشہ رسوائی ہوتا ہے اس لئے شیعہ بھی یہ جھوٹ بول کر بھول گئے اور دوسری روایت میں مقتولہ کا نام سیدہ امِ کلثومؓ بیان کیا ہے۔ شیعہ علامہ الجزائری لکھتا ہے: سیدہ رقیہؓ کے بعد سیدہ امِ کلثومؓ سے بھی عثمانؓ نے نکاح کر لیا اور وہ بھی انہی کے گھر فوت ہوئیں کیونکہ انہوں نے اسے شدید چوٹ ماری تھی جس سے وہ وفات پاگئیں۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 1 صفحہ، 367 نور فی مولود النبی)
شیعہ نے یہ افتراء بازی بھی کی ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے ان کی پسلیاں توڑ دی تھیں۔
(مرآة العقول: جلد، 26 صفحہ، 186 ح، 321 تتمة كتاب الروضة، سيرة الأئمة الاثنی عشر: جلد، 1 صفحہ، 67 لهاشم الحسينی)
کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہؓ اپنے خاوند کی چوٹ سے فوت ہو گئی۔
(الصراط المستقيم إلى مستحقى التقديم: جلد، 3 صفحہ، 34 النوع الثالث: فی عثمان)