شیعہ کافر ہے، اور امام باڑہ و تعزیہ کو مساجد پر قیاس کرنا نری جہالت ہے
شیعہ کافر ہے، اور امام باڑہ و تعزیہ کو مساجد پر قیاس کرنا نری جہالت ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین ان مسائل میں کہ
- فرقہ شیعہ کب سے ہے اور یہ مسلمان ہے کہ نہیں؟ اور اعلیٰ حضرت نے کیا فتویٰ دیا ہے؟ اگر مسلمان نہیں ہیں تو کس بنیاد پر؟ اور زید کہتا ہے کہ اگر وہ سینہ کوبی کرتے ہیں تو محبت ہی کی بناء پر ان کے غم میں کرتے ہیں۔
- زید کو تعزیہ پر منع کیا گیا اور بتایا گیا کہ آج تعزیہ کی اصل نہیں ہے اور اعلیٰ حضرت نے اس کو نا جائز و حرام فرمایا ہے۔ اس پر زید کہتا ہے کہ یہ تعزیہ تیمور بادشاہ کی ایجاد ہے اور اس کے بعد جتنے بھی بادشاہ ہوئے ہیں سب کے دور میں تعزیہ رہا اور اس وقت بھی عالم میں موجود ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی عبارت دکھائیے جو بادشاہ کے وقت میں تعزیہ کو نا جائز و حرام کہا گیا ہو۔
اور پھر یہ کہنا کہ اصل نقشہ نہیں ہے اس لیے نا جائز و حرام ہے۔ تو پھر آج اصل وہ مسجد کہاں ہے جو حضور اقدسﷺ کے دور میں بنائی جاتی، آج تو چار چار مینار، اینٹ، ماربل وغیرہ ہے۔ اگر آپ کا یہ جواب ہے کہ اُس دور میں نہیں تھا اور آج ہے تو آج بنائی جاتی ہے تو پھر زید کہتا ہے کہ بس یہی جواب ہم دیں گے جو جواب تم دوں گے۔
لہٰذا آپ جناب سے مؤدبانہ عرض ہے کہ مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اور سوال نمبر 1 میں جب جواب تحریر فرمائیں تو یہ بھی تحریر فرما دیں کہ شیعہ کو مسلمان جانے مسلمان ہو کر تو اُس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: 1: سیدنا علی المرتضیٰؓ کے عہد مبارک میں عبد اللہ ابن سبا یہودی نے جو بظاہر مسلمان بنا ہوا تھا
مسلمانوں میں یہ خیالات پھیلائے کہ حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو چھوڑ کر سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کافر و مرتد ہو گئے (معاذ اللہ)۔ اور اس نے یہ خیال بھی پھیلایا کہ علی رضی اللہ عنہ خدا ہے (معاذ اللہ)۔
اُن میں سے کتنوں کو سیدنا علیؓ نے قتل کر دیا، خود ابنِ سبا ملعون کو شہر بدر کر دیا۔ یہ ساری تفصیل حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی کتاب تحفہ اثناء عشریہ میں ہے۔ اُن پر کفر و ارتداد کا فتویٰ اسی قسم کے عقائد پر ہے جو اوپر ذکر ہوئے۔
2: کسی کے غم میں سینہ کوبی، نوحہ و ماتم اس لیے حرام ہے کہ حضور اکرمﷺ کی حدیث مبارک ہے لیس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوة الجاهلية جو چہروں پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت والے بول بولے (نوحہ کرے) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
امام باڑہ اور تعزیہ کو مساجد پر قیاس کرنا نری جہالت اور کور فہمی ہے
مسجد خانہ خدا تعالیٰ اور عبادت الٰہی کا مقام ہے۔ جس کیلئے کوئی خاص شکل و صورت شرع کی جانب سے مقرر نہیں، بلکہ عمارت اور تعمیر بھی ضروری نہیں۔ خالی زمین کو اگر کسی نے مسجد قرار دے دیا تو وہ حصہ زمین ہمیشہ کیلئے مسجد ہو گیا، عمارت اس پر چاہے بھی نہ بنے۔ دنیا میں عام مسجدوں میں کعبہ شریف سب سے افضل اور برتر ہے، لیکن کسی مسجد بنانے والے نے دنیا کے کسی گوشہ میں مسجد بناتے وقت کعبہ شریف کی شکل اور نقل کو ملحوظ نہ رکھی۔ ہر علاقہ کے لوگوں نے اپنے ہی علاقہ کے طرز تعمیر پر مسجد کی عمارت بنائی۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد کی شریعت کی طرف سے کوئی متعین صورت مقرر نہیں کی گئی۔ تو مساجد میں کوئی مسجد کسی کی نقل نہیں ہے، ہر مسجد اپنی جگہ پر اصل ہے۔ جبکہ امام باڑہ نوحہ و ماتم خانہ ہے۔ اور تعزیہ روضہ سیدنا حسینؓ کی شبیہ اور نقل ہے، جس کا اعتراف زید کو بھی ہے اور عام تاریخی روایتوں سے بھی یہی ثابت ہے۔
مولوی سید احمد دہلویؒ اپنی کتاب فرہنگ آصفیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ تعزیہ، ماتم پرستی سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کی تربتوں کی نقل جو کاغذ اور بانس کے قبہ کے اندر محرم کے دنوں میں دس دن تک ان کا ماتم یا فاتحہ دلانے کیلئے بطور یادگار بناتے ہیں، یہ دستور صرف ہندوستان میں ہے۔ اس کی ابتداء اس طور پر ہوئی کہ تیمور گورگان اہلِ کوفہ کو قتل کرنے کے بعد کربلائے معلیٰ گیا، وہاں سے کچھ تبرکات ایک پالکی میں رکھ کر نہایت ادب کے ساتھ لایا، جب سے لوگ تعزیہ اسی طور سے بنانے اور اُٹھانے لگے۔ ایک بیان تیمور لنگ سے بھی متعلق ایسا ہی لکھا ہے۔ اور اخیر میں تحریر کیا کہ پس تعزیہ داروں نے بھی وہی ترکیب اختیار کی اور تبرکات کی جگہ دو قبریں سرخ و سبز بنا دیں۔ ہند کے علاؤہ دوسرے علاقہ میں یہ دستور نہیں۔ پس مساجد کو مسجد نبوی کی نقل قرار دے کر تعزیہ کو اس پر قیاس کرنا کس قدر جہالت اور نادانی ہے۔ ہم اُوپر بتا آئے کہ مساجد کسی عمارت کی نقل نہیں۔ پھر بھی اگر کوئی شخص کعبہ شریف یا مسجد نبویﷺ یا دیگر مقدس مقامات کا نقشہ تبرکاً اپنے گھر رکھنا چاہے، تو وہ ٹھیک انہیں مقامات کی واقعی شبیہ تیار کراتا ہے۔ تو روضہ سیدنا حسینؓ کی واقعی شبیہ کی بجائے اناب شناب ہیولے تیار کرنا اور اس کو سیدنا حسینؓ کا روضہ مان کر وہاں ایصالِ ثواب کرنا
یا رسوم نوحہ ماتم اور اس کو اظہار غم کا ذریعہ مقرر کرنا پھر حوالہ میں مسجد نبوی شریف کا نام لینا کیسی عظیم جہالت، اور کتنا بڑا ظلم ہے۔
بلکہ ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ اگر یہ بے معنیٰ نہ ہوتے حسین رضی اللہ عنہ کی حقیقی نقل بھی ہوتے تو وہاں یہ مراسم تعزیہ نا جائز و حرام ہوتے کہ تجدیدِ غم کا سوانگ رچنا حرام و نا جائز اور زیارت قبر بلا مقبور حرام ہے۔ تو یہاں پر اصل و نقل کی یہ بحث ہی بلا ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ قول بھی بے بنیاد اور غلط ہے کہ جب سے تعزیہ کا رواج ہوا، بادشاہوں کے وقت تک کسی عالم یا بادشاہ نے نہ اس کو روکا، نہ منع کیا۔
ہم مولوی سید احمد کے حوالہ سے تحریر کر آئے ہیں کہ اہلِ ہند کے علاوہ کسی اسلامی شہر میں اس کا رواج ہی نہیں تھا۔ تو ان بلاد اسلامیہ کے کسی عالم کو اس سے منع کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ البتہ ہندوستان کے علماء اس کی ایجاد کے وقت سے اس کے نا جائز ہونے کا فتویٰ دیتے آئے ہیں اور عام مسلمانوں کو اس سے منع کرتے رہیں۔
اور محمد طاہر ہندی فتنی جو امام المحدثین کہے جاتے تھے اور عالمی شہرت کے مالک تھے، دسویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں اپنی شہرہ آفاق تصنیف مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں کہ ہر سال سیدنا حسین بن علیؓ کی یادگار تازہ کرنے کو علماء نے مکروہ تحریمی فرمایا۔ ویسے بنیادی اسلامی شہروں میں اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
مشہور ترین عالم دین اور شیخ طریقت حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی صاحبؒ ہیں، جنہوں نے فرقہ شیعہ کے عقائد، مکائد، رسوم عوائد کی تردید میں رسالت رد روافض تصنیف فرمایا اپنے مکتوب میں جگہ جگہ ان کی تردید کی اور ان سے علیحدگی کی تلقین فرمائی۔ وہ اپنے مکتوبات دفتر اول حصہ دوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ تمام بدعتی فرقوں میں بدترین وہ گروہ ہے جو حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و عناد رکھتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ: آج کل اس بد خواہ گروہ نے بہت غلو کر رکھا ہے، اور ملک کے اطراف و جوار میں پھیل چکے ہیں۔ اسی بناء پر اس بارے میں چند کلمے لکھے گئے تاکہ آپ کی مجلس شریف میں اس قسم کے بد خواہ جگہ نہ پاسکیں۔
بارہویں صدی میں دار السلطنت دلی کے مشہور خانواده علمی کے گل، حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی ذات ستودہ صفات تھی جس نے شیعہ فرقہ کے رد میں ایک لاجواب کتاب تحفہ اثناء عشریہ لکھ کر اس گمراه فرقہ کے منہ پر مہر لگائی۔ وہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ
ان سے کسی نے تعزیہ کے پاس شیرینی مالیدہ وغیرہ لے جا کر ایصال ثواب کیلئے سوال کیا تو آپ نے منع فرمایا کہ
فاتحہ اور درود ایسی جگہ پڑھنا چاہیے جو ظاہری اور باطنی نجاست سے پاک ہو۔
چار پانچ سو سال سے یہ ساری تحریر پورے ہندوستان میں گونج رہی ہے۔ آپ کے زید صاحب کس غار میں روپوش رہے کہ نہ کسی تحریر کو دیکھا نہ کسی سے سنا۔ سچ فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کے دل ہی گونگے اور بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں۔
(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 4 صفحہ، 393)