Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہااور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تعلق کے بارے میں شیعہ کا حتمی عقیدہ کیا ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

رسول اللہﷺ کا اپنی ازواجِ مطہرات عائشہؓ اور حفصہؓ کے ساتھ تعلق کے بارے میں شیعہ کا حتمی عقیدہ کیا ہے؟

جواب: شیعہ کے اکابرین میں سے سید علی غروی جو حوزہ علمیہ کا اہم رکن ہے، وہ کہتا ہے: بے شک نبی کی شرم گاہ ضرور جہنم میں داخل ہوگی کیونکہ انہوں نے بعض مشرک عورتوں سے ہم بستری کی ہے۔ 

(نعوذ باللہ من ذالک) (کشف الاسرار وتبرۃ الآئمہ اطہار: صفحہ، 24)

شیعہ کے خیمہ پر لڑہکتی چٹان:

ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کے متعلق شیعہ عقائد کہ وہ کافر تھیں اور لعنت کی مستحق تھیں وغیرہ کو اس روایت کے ساتھ ختم کرتا ہوں جو شیعیت کی جڑیں کاٹنے کے لیے کافی ہے۔ اس روایت نے شیعیت کی بلند و بالا عمارت کو زمین بوس کر دیا ہے۔

شیعہ کا استاد ابو علی محمد بن محمد اشعث کوفی اپنی سند سے سیدنا حسین بن علیؓ سے بیان کرتا ہے کہ سیدنا ابوذرؓ نے انہیں خبر دی: رسول اللہﷺ نے اپنی وفات سے قبل مسواک منگوائی اور اسے سیدہ عائشہؓ کو بھیجا اور فرمایا: اسے اپنے لعاب سے نرم کر دو، تو انہوں نے اسے نرم کر دیا۔ پھر وہ مسواک آپﷺ کے پاس لائی گئی تو آپﷺ نے اس کے ساتھ دانت صاف کرنے شروع کر دیئے اور ساتھ فرمایا: اے حمیراء تمہارا لعاب میرے لعاب کے ساتھ ہے۔ پھر آپ نے نظر اٹھائی اور کچھ کہتے ہوئے اپنے ہونٹ ہلائے پھر آپﷺ فوت ہو گئے۔

(العشعشیات: صفحہ، 212 مستدرک الموسائل: جلد 16 صفحہ، 434 رقم العام، 20470 رقم الخاص، 2 باب جواز اکل للقمۃ خرجب من فم الغیر) 

بہر حال، شیعہ رافضی علماء کے تلخ ترین گزشتہ اقوال کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ محمدﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ دنیا سے چلے گئے اور ان کے اعمال منقطع ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجر کو جاری رکھنا پسند فرمایا۔ (شیعہ ان کو گالیاں بک کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے ہیں جبکہ ان عظیم ہستیوں کے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛوَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۞

(سورۃ الفتح: آیت، 29) 

ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں۔ ان کی خصوصی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہیں۔ ان کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں، ان کی صفت اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس سے کسانوں کو خوش کرتا ہے۔ (اللہ نے یہ اس لیے کیا) تاکہ ( صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی وجہ سے کفار کو خوب جلائے۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

خود شیعہ علماء نے بیان کیا ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے بیٹوں کے نام خلفائے راشدینؓ کے ناموں پر رکھے تھے۔ ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا جس کی والدہ کا نام لیلیٰ بنتِ مسعود حنظلیہ ہے دوسرے بیٹے کا نام عمر رکھا تھا جس کی والدہ کا نام ام حبیب صہباء بنتِ ربیعہ البکر یہ ہے۔ تیسرے بیٹے کا نام عثمان رکھا جس کی والدہ کا نام ام البنین تھا۔ چوتھے کا نام عثمان اصفر تھا جس کی ماں کا نام اسماء بنتِ عمیس الحثعمیہ تھا۔ اس طرح سیدنا حسنؓ نے بھی اپنے بیٹوں کے نام خلفائے راشدینؓ کے اسماء پر رکھے تھے۔ شیعہ عالم یعقوبی کہتا ہے: سیدنا حسنؓ کے آٹھ بیٹے تھے۔ ان کے نام عمر، القاسم ،ابو بکر اور عبدالرحمٰن تھے۔ ان کی مائیں مختلف لونڈیاں تھیں۔

(تاریخ الیعقوبی: جلد، 2 صفحہ، 137 مقابل الطالبین: صفحہ، 178)

سیدنا حسینؓ نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا تھا۔

(دیکھیئے التنبیہ: صفحہ، 263 جلال العیون: صفحہ، 582)