Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا شیعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی ان پر ناراض ہوا، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئی تھیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

کیا شیعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئی تھیں؟ 

جواب: جی ہاں انہوں نے ابو الحسن موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے آپ فرماتے ہیں: 

بیشک شیعہ پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی جان یا شیعہ میں کسی ایک کا اختیار دے دیا۔

(شرح اصول الاکافی: جلد، 6 صفحہ، 41 ح، 5 باب بان الآئمۃ علیھم السلام یعلمون متیٰ یموتون)

علامہ مار زندانی اس کی وجہ بیان کرتے ہیں: ان کی کثرت مخالفت اور قلت اطاعت کی وجہ سے ایسے ہوا تھا۔

(المصدرالسابق: جلد، 6 صفحہ، 41)

تعلیق:

شیعہ کے اعتقاد کے مطابق ان کے امام معصوم کی ان کے متعلق یہ گواہی ہے کہ شیعہ پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے۔ اس کی وجہ ان کی مذہبی گمراہی ہے۔

اے نوجوانان شیعہ اب تمہارا اس غضب آلود مذہب پر باقی رہنے کا کیا جواز ہے؟

شیعہ راوی بیان کرتا ہے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا پروگرام بنایا تھا تو رسولﷺ اور آپﷺ کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ سے سخت ناراض ہوئے حتیٰ کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

اے علیؓ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سیدہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، اور میں اس کا ہوں جس نے اسے تکلیف دی تو گویا اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی۔ اور جس نے اسے میری وفات کے بعد تکلیف دی تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے اسے میری زندگی میں تکلیف دی۔ اور جس نے اسے میری زندگی میں تکلیف پہنچائی تو وہ ایسے ہی ہے جس نے میری وفات کے بعد اسے تکلیف پہنچائی۔

(علل الشرائع: جلد، 2 صفحہ، 184 ح، 2 باب 149 العلۃ التی من اجلھا دفنت فاطمۃؓ باللیل)

یہ روایت بھی کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: سیدہ فاطمہؓ میرے جگر کا گوشہ ہے۔ اور وہ میرے دو پہلوؤں میں روح ہے۔ جو چیز اسے تکلیف دے وہ مجھے بھی تکلیف دیتی ہے۔ اور جو اسے اچھی لگے وہ مجھے بھی اچھی لگتی ہے-

(بحار الانوار: جلد، 27 صفحہ، 63 ح، 21 وجوب موالاة اولیائھم)

اسی طرح جب سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا علیؓ کا سر ایک لونڈی کی گود میں دیکھا تو وہ سخت غضبناک ہو گئیں۔ انہوں نے فرمایا: اے ابو الحسنؓ! کیا تم نے اس سے مباشرت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں اے بنتِ محمد، اللہ کی قسم! میں نے کچھ نہیں کیا کیا تم کیا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا: کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں اپنے ابا کے گھر چلی جاؤں؟ سیدنا علیؓ نے کہا: ہاں اجازت ہے۔ لہٰذا انہوں نے برقعہ پہنا، چادر اوڑھی اور نبیﷺ کے پاس چلی گئیں۔

(علل الشرائع: جلد، 1 صفحہ، 163 ح، 2 باب 130 العلة التی من اجلھا صار علی بشارۃ المصطفیٰ صفحہ، 163 جلد، 127 الجزء الثانی بحار الانوار: جلد، 43 صفحہ، 147 ح، 3 کیفیته معاشرتھا مع علی)