Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا شیعہ علماء اپنے ائمہ کے عدم نسیان اور عدم سہو کے قائل ہیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

کیا شیعہ علماء اپنے ائمہ کے عدم نسیان اور عدم سہو کے قائل ہیں؟ 

جواب: جی ہاں یہ عقیدہ ان کے مذہب کے لوازمات میں سے ہے اور عہدِ حاضر کے شیعہ محمد رضا مظفر کے نزدیک یہ عقیدہ شیعہ کی ضروریات دین میں شامل ہوتا ہیں بلکہ ہر غلطی بھول سے معصوم ہونا امام کی شرط میں شامل ہے۔ 

(عقائد الامامیۃ فی ثوبیہ الجدید: صفحہ، 97 الفصل الثالث الامامة، تصحیح اعتقادات الامامیہ: صفحہ، 135 فصل فی اللغو و التفویض)

اور معاصر شیعہ عالم محمد آصف حسینی لکھتا ہے:  اس پر شیعہ کا اجماع ہے۔  

(صراط الحق: جلد، 3 صفحہ، 102 المبحث العاشر فی عصمت النبی خاتم) 

شیعہ علامہ مجلسی کہتا ہے:

بیشک ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیہم ہر چھوٹے بڑے، عمداً اور سہواً گناہ سے معصوم ہیں، نبوت اور امامت ملنے سے قبل بھی اور بعد میں بھی۔ بلکہ وہ اپنی ولادت سے لے کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ملاقات کرنے تک معصوم ہیں۔ اس مسئلے میں صرف صدوق محمد بن بابویہ اور اس کے استاد ابن الولید قدس اللہ روحہما کا اختلاف ہے۔ انہوں نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ اللہ کسی نبی یا امام کو کوئی بات بھلا دے۔ وہ سہو جو شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ اور شائد کہ ان کا اختلاف اجماع کے لئے مضر نہیں ہے کیونکہ دونوں اختلاف اجماع ہی معروف حسب و نسب والے شیعہ ہیں۔ 

(بحار الانوار: جلد، 17 صفحہ، 108 باب سھوة و نومه عن الصلوۃ) 

شیعہ عالم عبدالله شبر لکھتا ہے:

یہ واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان کوئی واسطہ ضرور ہو؛ خواہ یہ واسطہ نبی کا ہو یا امام کا۔ بس انہیں معصوم ہونا چاہیے۔ اس مسئلہ میں امامیہ شیعہ باقی تمام فرقوں سے منفرد ہیں-

(حق الیقین فی اصول معرفۃ الدین: جلد، 1 صفحہ، 135 کتاب النبوۃ فصل الثانی)

بلکہ شیعہ کا امام خمینی کہتا ہے: 

ائمہ سے سہو و غفلت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

(الحکومۃ الاسلامیہ: صفحہ، 91) 

شیعہ کا یہی عقیدہ ان کے عقیدہ البداء اور تقیہ کی نشوونما کا بنیادی سبب ہے۔ جیسا کہ اس کا بیان عنقریب آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ 

لہٰذا جب ان کے اقوال میں اختلاف و تناقص واقع ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بداء ہے یا یہ قول تھے کے طور پر کہا گیا تھا۔ جیسا کہ ان کے امام سلیمان بن جریر نے اعتراف کیا ہے جس نے شیعہ مذہب ترک کر دیا تھا اور شیعہ کی ایک جماعت نے ان کی پیروی کی تھی۔

تعلیق:

شیعہ کے سیدنا رضاؒ سے کہا گیا: بے شک کوفہ کی ایک بڑی تعداد کہتی ہے کہ نبیﷺ سے نماز میں سہو نہیں ہوا۔ تو انہوں نے فرمایا: وہ جھوٹ بکتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہو، جس ذات کو سہو نہیں ہوتا وہ تو صرف ذات الہٰی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

(عیون اخبار الرضا: جلد، 2 صفحہ، 540 ح، 5 باب، 46 ماجاءہ عن الرضاع، بحار الانوار: جلد، 25 صفحہ، 350 ح، 1 باب نفی السھو عنہم علیھم السلام)

اللہ تعالیٰ نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے:

سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓى۞ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ‌ الخ۔ 

(سورۃ الاعلیٰ: آیت، 6، 7)

ترجمہ: ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا مگر جو اللہ چاہے۔

شیعہ کی رسوائی:

مقتدمین شیعہ علماء اس عقیدے سے برات کا اظہار کرتے آئے ہیں بلکہ اس عقیدے کے قائلین کو کافر قرار دیتے تھے اور انہوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے سہو کے متعلق ثابت روایات کو رد کرنا دینِ شریعت کو رد کرنے کا پیش ان شریعت کو رد کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ شیعہ شیخ ابنِ بابویہ لکھتا ہے: بے شک غالی اور مفوضہ، ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، یہ رسول اللہﷺ کے سہو کا انکار کرتے ہیں اگر اس مسئلے میں آنے والی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا تو تمام قسم کی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا اور روایات کو رد کرنا در حقیقت دین و شریعت کو رد کرنا ہے۔ 

(من لا یحضرہ الفقیہ: جلد،1 صفحہ، 139 ح، 1032 (باب احکام السھو فی الصلوۃ عدم السھو النبیﷺ صفحہ، 28 اور بحارالانوار: جلد، 17 صفحہ، 111 باب سھوہ و نومہﷺ عن الصلوۃ)

جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ متاخرین شیعہ اس مسئلے کو ضروری اور دینی ضروریات میں سے شمار کرتے ہیں۔ اور ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ شیخ شبر کہتا ہے: جو کوئی انسان نبی کریمﷺ کے لیے سہو کو جائز سمجھے اس سے اس پر کفر واجب ہوتا ہے۔

(حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین: جلد، 1 صفحہ، 135 کتاب النبوۃ باب الثانی: العصمۃ)

اس طرح متقدمین شیعہ متاخرین شیعہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور متاخرین اپنے سلف کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے: 

وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَيۡرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوۡا فِيۡهِ اخۡتِلَافًا كَثِيۡرًا۞ 

(سورۃ النساء: آیت 82)

ترجمہ: اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔