Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

براہ کرم شیعہ کے عقیدہ عصمت ائمہ تشکیل نو کا خلاصہ بیان کریں۔

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

براہ کرم شیعہ کے عقیدہ عصمت ائمہ تشکیل نو کا خلاصہ بیان کریں۔

جواب: گزشتہ صفحات پر گزر چکا ہے کہ شیعہ کے پہلے استاد ابنِ سباء یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن موجودہ شیعہ علماء کے موافق عصمت ائمہ کا عقیدہ اس سے منقول نہیں ہے۔ پھر ہشام بن حکم نے عصمت ائمہ کے عقیدے کو ترقی دی اور کہا کہ بے شک امام سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔

(دیکھیئے بحار الانوار: جلد، 25 صفحہ، 192،193 جلد، 1 باب عصمتھم ولزوم عصمۃ علیھم السلام)

جبکہ شیعہ کے علامہ آل کاشف الغطاء نے امام میں یہ شرط لگائی ہے کہ وہ نبی کی طرح خطاء اور غلطی سے معصوم ہو۔

(اصل الشیعہ: صفحہ، 61 المقصدالثانی)

تبصره:

بے شک شیعہ کا یہ عقیدہ کہ امام سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ان کے عقیدہ قدر کے متضاد ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال میں مکمل آزاد اور بااختیار ہے اور بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔ 

قارئین محترم! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عصمت کا مفہوم شیعہ کے ہاں عقیدہ قدر سے پہلے کا ہے جسے انہوں نے تیسری صدی ہجری میں معتزلہ سے لیا ہے۔

پھر شیعہ عالم ابنِ بابویہ نے اسے نئی شکل دیتے ہوئے اپنا عقیدہ امامت یوں بیان کیا بیشک ائمہ معصوم ہیں، ہر قسم کی غلاظت سے پاک ہیں، بلاشبہ وہ کوئی چھوٹا بڑا گناہ نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے اوامر میں اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اور انہیں جو حکم دیا جاتا اس پر عمل کرتے ہیں۔ جس شخص نے ان کی کسی بھی حالت میں عصمت کی نفی کی تو اس نے انہیں جاہل قرار دیا اور جس نے انہیں جاہل قرار دیا تو وہ کافر ہے۔ ہمارا ان کے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں۔ انہیں عصمت میں کمال حاصل ہے۔ انہیں ابتداء سے لے کر انتہا تک کامل علم اور مکمل عصمت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی فعل میں نقص، نافرمانی اور جہالت سے موصوف نہیں ہیں- 

(الاعتقادات: صفحہ، 96 باب الاعتقاد فی العصمۃ بحار النوار: جلد، 11 صفحہ، 72 باب عصمۃ انبیاء علیھم السلام)

پھر شیعہ کے شیخ مفید نے اس عقیدہ کو مزید آگے بڑھایا تو کہا عصمت اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے جو مکلف پر اس طرح ہوتی ہے کہ اس سے معصیت کا وقوع نا ممکن ہو جاتا ہے اور اطاعت کا ترک کرنا ممتنع ہو جاتا ہے، حالانکہ امام معصیت و اطاعت دونوں کی قدرت رکھتا ہے۔

(النکت الاعتقادیہ: صفحہ، 37 فصل الثالث فی النبوۃ) 

تعلیق:

معزز قاری! شیعہ عقیدہ عصمت ائمہ پر معتزلہ کے افکار کا رنگ ملاحظہ فرمائیں۔ لطف الہٰی اور انسانی اختیار و حریت جیسے معتزلی عقائد کس طرح شیعہ مذہب کا حصہ بن گئے۔ لہٰذا ان کے نزدیک عصمت کا معنیٰ یہ نہیں کہ اللہ ان کے امام کو معصیت ترک کرنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ وہ امام پر ایسے الطافات کرتا ہے جس سے امام سے معصیت کا وقوع اس کے اختیار سے ناممکن ہو جاتا ہے۔ 

پھر شیعہ مجلسی نے اس عقیدے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالا تو کہا: یقینا ہمارے اصحاب شیعہ امامیہ کا انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیہم کی عصمت پر اجماع ہے۔ ان سے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ، عمداً یا غلطی اور بھول سے سرزد نہیں ہوتا۔ انہیں یہ عصمت، نبوت اور امامت کے حصول سے پہلے اور بعد میں بھی حاصل رہتی ہے۔ بلکہ ولادت سے لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت تک وہ معصوم ہیں۔

(بحار الانوار: جلد، 25 صفحہ، 350،351 باب نفی السھو عنہم علیھم السلام) 

شیعہ کی رسوائی:

یہی شیعہ عالم مجلسی کہتا ہے: الغرض یہ مسئلہ نہایت مشکل ہے کیونکہ بہت ساری روایات دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ سے سہو واقع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بہت ساری اخبار، آیات اور اصحاب کا اجماع موجود ہے، سوائے ان چند لوگوں کے جو اس اتفاق سے الگ ہو گئے اور کہتے ہیں کہ سھو ممکن نہیں ہے

(بحار الانوار: جلد، 25 صفحہ، 351 باب نفی السھو عنہم علیھم السلام) 

تبصره:

لیجئے یہ شیعہ کے علماء کا خود ہی اعتراف ہے کہ عصمت ائمہ کے شیعہ عقیدہ پر اجماع ان کی روایات سے متصادم ہے۔ اور یہ بات نہایت تلخی کے ساتھ ان سے یہ اگلواتی ہے کہ شیعہ علماء نے گمراہی پر اجماع کیا ہے۔