Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

براہ مہربانی شیعہ علماء کے عقیدہ کی رو سے ان کے ائمہ کے بعض فضائل ذکر کریں۔

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

براہ مہربانی شیعہ علماء کے عقیدہ کی رو سے ان کے ائمہ کے بعض فضائل ذکر کریں۔

جواب: جو شیعہ علماء نے ائمہ کی شان اور فضیلت بیان کرنے کے لئے بے شمار روایات گھڑی ہیں۔ اور بعض اوقات انہیں درجہ الوہیت پر فائز کر دیتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

01 باب: اس بات کا بیان کہ ائمہ، انبیاء علیہم السلام سے بڑے عالم ہیں۔

اس باب کے تحت تیرہ احادیث ذکر کی ہیں۔ ان میں سے ایک ابو عبداللہؒ پر افتراء باندھتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ربِ کعبہ اور کعبہ کی عمارت کے رب کی قسم۔ تین بار یہ قسم کھائی اگر میں موسیٰ اور خضر کے درمیان ہوتا تو میں انہیں بتاتا کہ میں ان سے بڑا عالم ہوں۔ اور میں انہیں ایسا علم بتاتا جو انہیں حاصل نہیں ہے۔

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 188 ح، 1 کتاب الحجۃ باب ان الآئمۃ یعلمون علم ما کان)

 02 باب: ائمہ کی تمام انبیاء اور ساری مخلوق پر فضیلت کا بیان، تمام انبیاء ساری مخلوق اور فرشتوں سے ائمہ کے متعلق میثاق لینے کا بیان ، اور اس بات کا بیان کہ اولوالعزم رسول اس مرتبے پر ائمہ کی محبت کی وجہ سے فائز ہوئے

(بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 67 کتاب الامامۃ سائر فضائلھم ومناقبھم الخ)

اس باب میں اٹھاسی احادیث ہیں۔ جن میں سے ایک روایت میں ابو عبداللہؒ پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کرنے کا شرف ولایت علیؓ کی بدولت عطا کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کی فضیلت، اور حضرت عیسی علیہ السلام کو سارے جہانوں کے لئے نشانی بنانے کا شرف ولایت علی دنیا اور ان کی تابعداری کی وجہ سے ملا۔ پھر فرمایا: میں مختصر کہتا ہوں کہ ساری مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے بھی

دیدار کا شرف صرف ہماری عبودیت کی بنا پر حاصل ہو گا-

(الاختصاص: صفحہ، 250 وجوب ولایۃ علی ولآئۃ علیہم السلام البحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 294 ح، 52 کتاب الامامۃ سائر فضائلھم ومناقبھم الخ)

ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے ولایتِ علی کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا گیا۔ تا آنکہ انہوں نے اس کا اقرار کر لیا تو آزادی ملی۔

(بصائر الدرجات الکبریٰ: جلد، 1 صفحہ، 156 ح، 1 بابآخر فی ولایۃ امیرالمومنین، بحارالانوار: جلد، 26 صفحہ، 282 ح، 34 کتاب الامامۃباب تفضیلھم علی الانبیاء تفسیر نور الثقلین: جلد، 4 صفحہ، 433 ح، 106 سورۃ الصافات) 

شیعہ کے امام اکبر خمینی کا کہنا ہے:

بلاشبہ امام کو ایسا مقام محمود، بلند درجہ اور تکوینی خلافت حاصل ہوتی ہے جس کی ولایت اور غلبے کے تحت اس کائنات کا ذرہ ذرہ سرنگوں ہے۔ اور ہمارے مذہب کی ضروریات اور لوازمات میں سے ہے کہ ہمارے ائمہ کو ایسا بلند مقام حاصل ہے جس تک نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچتا ہے نہ کوئی نبی مرسل۔

(الحکومۃ الاسلامیہ: صفحہ 56 الولایۃ التکوینیہ) 

باب 03: بلاشبہ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں ائمہ کے وسیلے اور شفاعت سے قبول ہوئیں۔

(بحارالانوار: جلد، 26 صفحہ، 319 کتابوالامۃ باب سائر فضائلھم ومناقبھم وغرائب شؤونھم صلوات اللہ علیھم)

اس باب کے تحت سولہ احادیث ذکر کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے:

سیدنا رضاؒ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت نوح علیہ السلام غرق ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کو پکارا تو اللہ نے انہیں غرق ہونے سے بچا لیا۔ اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے ہمارے توسل سے اللہ سے التجا کی تو اللہ نے ان کے لئے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔ اور جب حضرت موسی علیہ السلام نے سمندر میں راستہ بنانا چاہا تو ہمارے حق کا واسطہ دے کر دعا مانگی تو سمندر میں خشک راستہ دے دیا گیا۔ اور جب حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں نے قتل کرنا چاہا تو حضرت عیسی علیہ السلام نے ہمارا وسیلہ دے کر دعا مانگی تو اللہ نے انہیں قتل ہونے سے بچا لیا اور اپنے پاس اٹھا لیا۔

(القصص: صفحہ، 105 وسائل الشیعۃ: جلد، 4 صفحہ، 659 حدیث، 13 بحار الانوار جلد، 26 صفحہ، 325 ح، 7 باب ان دعاء الانبیاء)

تعلیق:

یہ جاہلیت کا شاہکار بیوقوفانہ شیعہ دعویٰ ہے کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی میں ان کے ائمہ کرام کا وجود تک نہ تھا، پھر اس سے توسل اور واسطہ کیسے ممکن ہو گیا؟ بلکہ شیعہ علماء کا یہ دعویٰ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کا کھلم کھلا اظہار ہے، کیونکہ انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعاؤں کی قبولیت کی کنجی اور اساس اپنے ائمہ کے ناموں کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام بلاشبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہی کو پکارتے اور دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: 

فَنَادٰى فِى الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‌۞

(سورۃ الانبياء: آیت، 87) 

ترجمہ: پھر اس نے (ہمیں) اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے بلاشبہ میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ 

باب 04: ائمہ کے پاس زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا علم ہے۔ ماضی اور مستقبل کی ہر خبر ان کے پاس ہے۔ دن رات کی ہر ہر گھڑی میں جو کچھ ہوتا ہے اور انبیاء کا علم بھی ان کے پاس ہے۔ نیز انبیائے کرام علیہم السلام کے علم سے اضافی علم بھی ان کے پاس ہے۔

(یتابیع العاجز واصول الدلائل: صفحہ 35 الباب الخامس) 

باب 05: بے شک ائمہ لوگوں کی حقیقتِ ایمان اور حقیقتِ نفاق جانتے ہیں، ان کے پاس ایک کتاب ہے جس میں اہلِ جنت، ائمہ کے شیعہ اور ان کے دشمنوں کے نام درج ہیں۔ جو کچھ حالات، واقعات ائمہ جانتے ہیں اسے کسی مخبر کی خبر ختم نہیں کر سکتی۔

(بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 117 اس باب میں چالیس احادیث ہیں) 

باب 06: ائمہ جب علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ علم پالیتے ہیں۔ اس باب میں تین احادیث ہیں۔ 

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 186 کتاب الحجۃ)

باب 07: ائمہ کو اپنی موت کا علم ہوتا ہے کہ وہ کب مریں گے، اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں۔ اس باب میں آٹھ احادیث ہیں۔

(اصولِ الکافی جلد، 1 صفحہ، 186 کتاب الحجۃ)

باب 08:  ائمہ سے اپنے شیعہ کے احوال کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے جس کی امت کو ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں پیش آنے والی مشکلات اور مصائب کا علم ہوتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے رفع ہونے کی دعا کریں تو ان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ائمہ دلوں کے بھید جانتے ہیں انہیں موت کا علم اور آفات و مشکلات کا علم ہے۔ انہیں فیصلہ کن خطاب اور لوگوں کی پیدائش کا علم حاصل ہے۔

(بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 137 اس میں 43 احادیث ہیں)

باب 09: اگر امیر المؤمنینؓ نہ ہوتے تو جبریل علیہ السلام اپنے رب کو نہ پہچان پاتے اور نہ انہیں اپنے نام کا علم ہوتا۔

اس سلسلہ میں انہوں نے ایک روایت یوں گھڑ لی ہے: جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ تو سیدنا علیؓ میں تشریف لائے تو جبریل امین ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم اس نوجوان کے لیے کھڑے ہوتے ہو؟ اس پر جبریل نے عرض کی اس مل مجھ پر حق تعلیم ہے رسول اللہﷺ نے پوچھا: اے جبریل! وہ تعلیم کیسی تھی؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کیا تو مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ اور تمہارا نام کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ اور میرا نام کیا ہے؟ میں اس جواب کے لیے حیران سر گرداں تھا، پھر اس نوجوان کا جلوہ عالمِ انوار میں ظہور پذیر ہوا۔ اور اس نے مجھے اس کا جواب سیکھایا اور کہا: یوں کہو تم رب جلیل ہو، تمہارا نام جمیل ہے اور میں ایک ذلیل و عاجز بندہ ہوں میرا نام جبریل ہے۔ اس لیے میں اس نوجوان کی تعظیم بجالاتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ 

(شرح زیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ جلد، 2 صفحہ،371) 

باب 10: ائمہ ابھی اپنی ماؤں کے پیٹ میں ہوتے ہیں کہ وہ سننا اور بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ماؤں کے پیٹ میں ہی اور اللہ عزوجل کی عبادت کرتے ہیں۔ اور وقت رضاعت فرشتے ان کی اطاعت بجالاتے ہیں۔ اور صبح و شام ان پر نازل ہوتے ہیں۔ ائمہ کے لئے ہر شہر میں منارے بنائے جاتے ہیں جن پر چڑھ کر وہ لوگوں کے اعمال دیکھتے ہیں۔

(کمال الدین وتمام النعمۃ جلد، 2 صفحہ، 393 حدیث نمبر، 2 باب ماروی فی میلاد القائم صاحب الزمان الیتیمۃ والدرۃ الثمینۃ صفحہ، 190)

باب 11: بلاشبہ ائمہ سیدنا علیؓ کی صلب سے اللہ کی اولاد ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل میں شیعہ کے آیت اللہ عبد الحسین نجفی نے یہ آیت گھڑی ہے:

اليوم اكملت لكم دينكم بامامته فمن لم يأتم به و بمن كان من ولدي من صلبه الى يوم القيامة فأولئك حبطت أعمالهم و في النار هم خالدون۔

ترجمہ: آج کے دن امیر المؤمنین کی امامت کے ساتھ تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ تو جس شخص نے اس کی اور تاقیامت اس کی صلب سے میری اولاد کی پیروی نہ کی تو یہ وہی لوگ ہیں جن کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (نعوذ باللہ)

(الغدیر جلد، 1 صفحہ، 425)

ہم اس شرک وکفر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ 

باب 12:  بے شک ائمہ زمین کے ارکان ہیں (یعنی زمین ان ہی کی بدولت قائم ہے) انہوں نے یہ روایت گھڑ کر سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کر لی ہے کہ آپؓ نے فرمایا: 

مجھے ایسی صفات عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔ مجھے موت، آفات، نسب اور فیصلہ کن خطاب کا علم دیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے لوگوں کا علم مجھ سے فوت نہیں ہوا اور نہ وہ علم مجھ سے پوشیدہ ہے جو مجھ سے غائب ہے۔ 

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 141 کاتب الحجۃ ح، 2 ان الآئمۃ ہم ارکان ارض)

باب 13: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو جو علم بھی سکھایا، وہ امیر المؤمنین کو بھی سکھانے کا حکم دیا۔ اور بے شک امیر المؤمنین رسول اللہﷺ  کے ساتھ علم میں برابر شریک ہیں۔

(اصول الاکافی: جلد، 1 صفحہ، 190 کتاب الحجۃ اس میں تین احادیث ہیں) 

تبصره: 

یقیناً شیعہ علماء کے یہ دعویٰ نہایت عجیب و غریب اور کفر و شرک کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ وہ ان دعووں کے ساتھ ائمہ کو درجہ امامت سے نکال کر کبھی نبوت و رسالت کے درجے پر بٹھاتے ہیں تو کبھی الوہیت کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے، شیطان اور اس کی جماعت سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس بات میں دو آراء نہیں ہیں کہ یہ دعویٰ محض کفر اکبر ہیں، بلکہ اگلے اور پچھلے لوگوں میں ایسا کفر اور گمراہی کا مرتکب کوئی دوسرا فرقہ یا مذہب نہیں ہوا ہے۔