Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعزیہ داری اور محرم کی دیگر بدعات کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ: تعزیہ داری کرنا، اس پر ڈھول تاشہ بجانا، اور اس کا ماتم قائم رکھنا، اور اس پر روٹی شربت، روٹی کا ملیدہ اور نسی چڑھانا اور اس پر منتیں ماننا، اور اپنے بچے کو اس کے تلے یہ سمجھ کر نکالنا کہ جی جائے گا، اور گندے ڈیرے کا نام کربلا رکھنا اور اس میں مینڈھے باندھ کر مرادیں پوری ہونے کی نیت کرنا، کھچڑا اور شربت پر ثواب معین کرنا، یہ عقیدہ رکھنا کہ تعزیہ پر سیدنا حسینؓ تشریف لاتے ہیں، یا ایسا لنگر کرنا کہ اس میں اٙدھے سے زیادہ گر کر پیروں میں لگے اور اس کی بے ادبی ہو، شہادت کی رات میں جگہ جگہ روشنی کرنا، بہترین کاریگری کے نمونے، پنکھے تعزیہ میں دکھا کر شہرت حاصل کرنا، دسویں محرم کو بڑی دھوم دھام سے اس کا گشت کراتے ہوئے شام کو چار بجے اس میں لٹھے اور چھڑیں لگا کر بولے محمدی یا حسینؓ کے نعروں کے ساتھ مذکورہ کربلا کو لے جانا، راستے میں ارکھاڑے کا کھیل جس میں بسا اوقات چوٹیں اٙجاتی ہیں، بسا اوقات تعزیہ کے سلسلہ میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔کربلا میں گھڑا کھود کر تعزیہ اور پنکھوں کو اس میں دفن کرتے ہیں، اس پر پانی چھڑکتے ہیں، بہت بڑا میلہ لگتا ہے، عورتیں جاتی ہیں، جلتا ہوا چراغ لاتی ہیں، اگر جلتا ہوا چراغ گھر پہنچ گیا تو مراد پوری ورنہ نہیں۔ یہ سب باتیں قراٙن و حدیث سے جائز ہیں یا نہیں؟

جواب: تعزیہ کے پاس کھانا لے جانا اور اس کا لُٹانا اضاعتِ مال ہے۔ یہ نا جائز ہے اس کے علاوہ تعزیہ داری کی جو تفصیل اٙپ نے بیان کی ہے نا جائز ہے۔ تشبہ بالروافض اور دیگر دینی قباحتوں کی وجہ سے نا جائز ہے۔

(فتاویٰ بحر العلوم: جلد 5 صفحہ 443)