Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز عبد اللہ ابن سبا کی کارکردگی

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز عبد اللہ ابن سبا کی کارکردگی

سوال: عبداللہ بن سبا یہودی نے مسلمانوں میں گھس کر کیا انہیں صرف انتظامی اور سیاسی کاموں میں پریشان کیا یا اس نے ان میں کچھ نئے اعتقادی انجیکشن بھی لگائے جو گو اس وقت نہیں دو سو سال بعد ایک نئے فرقہ کی صورت میں اُبھرے اور اس دوران یہ الحادی جراثیم اندر ہی اندر پنپتے رہے؟ عبداللہ ابن سباء اساسی طور پر کن خیالات کا داعی بنا رہا ہے؟ 

جواب: تاریخی تذکروں میں عبد اللہ بن سبا ان نظریات کا بانی تسلیم کیا گیا ہے اور یہ اسی کے خیالات تھے جنہوں نے دو سو سال بعد باقاعدہ شیعہ مذہب کی صورت اختیار کی، اس سے پہلے یہ لوگ اپنے صرف سیاسی پراپیگنڈے سے پہچانے جاتے تھے پہلی دو صدیوں میں اس فرقے کا کوئی مذہبی وجود نہ تھا وہ سبائی نظریات جو بالآخر ایک فرقہ بن کر رہے زیادہ تر یہ تھے:

1: یہودیوں کو اس بات کا قلق تھا کہ عیسیٰ بن مریم ان کے ہاتھ سے کیوں نکل گئے انہیں کیوں ٹھا لیا گیا، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یہ عقیدہ راہ پا گیا کہ وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اسے مسلمانوں کے ہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رفع و نزول سے ذکر کیا جاتا ہے اور اس پر ان کے ہاں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اس یہودی نے مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی کہ حضرت محمد خاتم النبیینﷺ بھی فوت نہیں ہوئے کہیں اٹھا لیے گئے ہیں اور وہ بھی دوبارہ اس دنیا میں اتریں گے اسے عقیدہ رجعت کہتے ہیں، بعد میں آنے والے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہی عقیدہ قائم کیا، سو اس نئے مذہب کا پہلا نقش عقیدہ رجعت تھا۔

یزید کا بیٹا جابر بھی اسی عقیدے پر تھا مگر جلدی اپنی بات کو ظاہر نہ کرتا تھا امام سفیانؒ (198ء) کہتے ہیں:

كان الناس يحملون عن جابر قبل ان يظهر ما اظهر فلما اظهر ما اظهر التہمہ الناس في حديثه وتركه بعض الناس فقيل له وما اظهر قال الايمان الرجعۃ (صحیح مسلم: صفحہ15،جلد 1) 

ترجمہ:  لوگ جابر جعفی سے پیشتر کہ وہ اپنے عقائد ظاہر کرے روایت لے لیتے تھے یہاں تک کہ اس نے ظاہر کر ڈالا جو بھی اس نے ظاہر کیا لوگ اس کی حدیث میں بھی اسے متہم جاننے لگے بعض لوگوں نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا پوچھا گیا اس نے اپنے عقیدے کی کیا بات ظاہر کی؟ آپ نے فرمایا رجعت پر ایمان لانا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیعہ مذہب ان دنوں ابھی کروٹیں ہی لے رہا تھا یہ لوگ اپنے پورے علیحدہ مذہب کے پیرایہ میں بھی کھلے نہ تھے امام سفیان بن عینیہؒ کی یہ دوسری صدی کے آخر کی شہادت ہے، سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں جابر جعفی کہتا تھا میرے پاس آنحضرت کی پچاس حدیثیں موجود ہیں، امام ابو حنیفہؒ نے کھل کہ جابر بن یزید کے خلاف اعلان کیا اور فرمایا:

ما رأیت با كذب من جابر الجعفی( تہذیب التہذیب)

ترجمہ: میں نے جابر جعفی سے زیادہ کسی کو جھوٹ بولنے والا نہیں پایا۔

اس سے یہ بھی علم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ ان ماہرین حدیث میں سے تھے جن کی بات جرح و تعدیل میں سند مانی جاتی تھی، ان لوگوں نے پھر امام ابوحنیفہؒ پر یہ الزام گھڑا کہ یہ حدیثوں کو نہیں مانتے مشہور اہلِ حدیث ( باصطلاح جدید ) میاں نذیر حسین دہلوی نے ان کے جواب میں کہا:

امام ابو حنیفہؒ نے عمداً کسی حدیث کی مخالفت نہیں کی اور اگر کسی جگہ اختلاف نظر آتا ہے یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اس کے مقابل کسی دوسری حدیث پر عمل کیا جو ان کے نزدیک زیادہ صحیح اور راجح ہے(معیار الحق)

یہاں ہم جابر بن یزید کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ پچاس ہزار حدیثوں کا راوی تھا اور رجعت کا عقیدہ رکھتا تھا اور اہلِ سنت میں ملا رہتا تھا، عبد اللہ بن سباء کے مذہب اور عقیدہ میں مسلمانوں کو زندقہ اور الحاد کی راہ پر ڈالنا دینِ یہود کی وہ عظیم خدمت تھی جو کوئی اور دوسرا یہودی سرانجام نہ دے سکا سو مسلمانوں میں اختلاف کفر عناد سے نہیں، بلکہ کفر الحاد سے ہوا ہے اور ان میں زیادہ تر وہ لوگ پیش پیش رہے جو کھلم کھلا حضورﷺ کی رسالت کا انکار نہ کرتے تھے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ (561ھ) فرقہ سبائیہ، جو عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب ہے اس کے عقائد لکھتے ہوئے کہتے ہیں:

حضرت علیؓ مرے نہیں قیامت سے پہلے واپس آئیں گے(غنیتہ الطالبین:صفحہ137)

اگلی صدی میں علامہ ابنِ اثیر رحمۃ اللہ (630ھ) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے:

اخرجه اهل الشام فاتىٰ مصراً فاقام فيهم وقال لهم العجب ممن يصدق ان عیسیٰ يرجع ويكذب ان محمداً يرجع فوضع لهم الرجعة(کامل ابنِ اثیر: صفحہ77، جلد 3)

ترجمہ: اسے (عبداللہ بن سبا) کو اہل شام نے نکال تو یہ مصر آ گیا اور یہاں کافی عرصہ ٹھہرا رہا وہ انہیں کہتا تھا ان لوگوں پر تعجب جو اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ آئیں گے اور اس بات کو نہیں مانتے کہ حضرت محمدﷺ دوبارہ آئیں گے، اس شخص نے ان لوگوں کے لیے عقیدہ رجعت گھڑا۔

2: ثم قال لهم بعد ذٰلك انه كان لكل نبي وصی و على وصى محمد فمن اظلم ممن لم يجر وصية رسول اللہ وان عثمان اخذها بغير حق( ایضاً)

ترجمہ: پھر اس نے اس کے بعد انہیں کہا کہ ہر نبی کا کوئی وصی ہوتا ہے اور حضورﷺ کا وصی، علی تھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس نے رسول اللہﷺ کی وصیت نافذ نہ ہونے دی اور عثمان نے تو خلافت بلا کسی استحقاق کے لی تھی 

حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ (774ھ) بھی لکھتے ہیں:

يقول الرجل أليس قد ثبت ان عيسىٰ بن مريم سيعود الى هذه الدنيا فيقول الرجل نعم فيقول له فرسول اللہ افضل منه فما تنكران يعود الى هٰذه الدنيا وهو اشرف من عیسیٰ بن مريم

ترجمہ: وہ ملنے والے سے کہتا کہ کیا یہ چیز ثابت نہیں ہو چکی کہ عیسیٰ اس دنیا میں پھر جلد لوٹیں گے وہ کہتا ہاں ایسا ہی ہے، وہ اسے پھر کہتا تو رسول اللہﷺ تو آپ سے (حضرت عیسٰی) سے افضل ہیں تو ان کے یہاں دوبارہ آنے کا کیوں منکر ہے؟ ان کا رتبہ حضرت عیسٰی سے بہت آگے ہے۔ 

عبد اللہ بن سبا نے حضرت عثمان سے تبراء شروع کیا، اس نے شیخین کا دور نہ پایا تھا اور اس وقت سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف کوئی شخص بات نہ کر سکتا تھا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی، اس نے براہِ راست بات نہ چلائی پہلے آپ کے امراء کے خلاف وہ پراپیگنڈہ کرتا رہا اور پھر وہ آپ کی ذاتِ اقدس تک جا پہنچا۔

3: اس نے یہ عقیدہ بھی قائم کیا کہ علی کی خلافت نص پر مبنی ہے شوریٰ پر نہیں اور یہ کہ آپ معصوم تھے اور جو جانشین رسولﷺ ہو وہ معصوم ہوتا ہے شیعہ میں عصمت ائمہ کا عقیدہ عبداللہ بن سبا سے ہی آیا ہے۔

 علامہ شہر ستانیؒ (467ھ) لکھتے ہیں:

هو اول من اظهر القول بالفرض بامامة على( الملل والنحل)

 ترجمہ: وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علیؓ کی امامت خدا کی طرف سے مقررہ ہونے کی بات کہی۔

شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ (28ھ) لکھتے ہیں:

ان اول من ابتدع الرفض والقول بالنص علىٰ على وعصمته كان منافقا زنديقا( منہاج السنۃ: صفحہ261،جلد 3)

 ترجمہ: بے شک پہلا شخص جس نے رافضیوں کا مذہب گھڑا اور یہ بات کہی کہ حضرت علیؓ کی خلافت نص پر مبنی تھی اور یہ کہ آپ معصوم تھے ایک منافق تھا جوز ندیق تھا۔

جب وہ یہود میں تھا تو حضرت یوشع بن نون کے بارے میں وہ منصوص خلافت کا عقیدہ رکھتا تھا مسلمانوں میں آ کر اس نے وہی عقیدہ حضرت علیؓ کے بارے میں قائم کیا۔

4: عبد اللہ بن سبا نے اس عقیدے کی بھی بنیاد رکھی کہ حضرت علیؓ میں خدا حلول کیے ہوئے ہے پھر وہ یہاں تک بڑھا کہ اس نے ان کی الوہیت ( خدا ہونے) کا عقیدہ وضع کر لیا اور آپ کو الٰہ کہا اور آپ کی ربوبیت کا اعلان کیا ابو عمرو رجال الکشی میں ( 370ھ) لکھتا ہے جعفر صادق رحمۃ اللہ (148ھ) نے فرمایا:

لعن الله عبد الله بن سبا انه ادعى الربوبية في امير المومنين على عليه السلام (رجال الکشی: جلد1 صفحہ 324،روایت172)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ عبد اللہ بن سباء پر لعنت کرے وہ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ کے بارے میں رب ہونے کا عقیدہ پھیلاتا تھا۔

حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ (582ھ) بھی لکھتے ہیں عبد اللہ بن سبا کے پیرو اس عقیدہ پر آگئے تھے:

وله اتباع يقال لهم السبائية معتقدون الالوهية في على بن ابی طالب وقد احرقهم على بالنار فی خلافته( لسان المیزان: صفحہ 290، جلد3)

ترجمہ: اس کے پیروؤں کو سبائی کہا جاتا ہے وہ حضرت علیؓ میں الوہیت کا عقیدہ رکھتے تھے آپ نے انہیں اپنے عہد خلافت میں آگ میں ڈال کر جلا دیا تھا۔

صحیح بخاری میں بھی ہے:

عن عكرمة قال اتىٰ على بزنادقة فاحرتهم فبلغ ذلك ابن عباس فقال لو كنت انا لم احرقهم النهى رسول الله لا تعذبوا بعذاب اللہ( صحیح بخاری: صفحہ 1023،جلد 2)

ترجمہ: عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ کے پاس یہ زندیق لائے آپ نے انہیں زندہ جلا دیا، یہ بات حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو پہنچی آپ نے کہا اگر میں ہوتا تو میں انہیں نہ جلاتا حضورﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

یہ چاروں عقیدے آپ کو آج بھی محمد بن یعقوب الکلینی کی کتاب الکافی میں اور خمینی کی تصدیق کردہ مجلسی کی کتب میں نہایت کھلے الفاظ میں ملیں گے، سو اس بات کو تاریخی پیمانے سے کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ شیعہ مذہب کی تاسیس واقعی اسی یہودی (عبد اللہ بن سباء ) نے کی اور اس کے تجویز کردہ یہ چاروں عقیدے اثناء عشریوں میں پوری تصدیق سے قبولیت پائے ہوئے ہیں چوتھے عقیدے کی صدا حضرت علیؓ کی طرف نسبت کردہ اس خطبہ میں سنئیے:

انا عندى مفاتيح الغيب لا يعلمها بعد رسول الله الا انا، وانا ذو القرنين المذكور في الصحف الأولى، وانا صاحب خاتم سليمان، وانا والى الحساب، وانا صاحب الصراط والمؤقف وانا قاسم الجنة والنار، وانا ادم الأولوانا نوح الأول انا أية الجبار انا حقيقة الاسرار انا مورق الاشجار انا موقع الاثمار انا متوج العيون انا مجرى الانهار انا خازن العلم انا طور الحلم انا امير المؤمنين انا عين اليقين انا حجة الله فی السموات والأرض۔

حضرت علیؓ کا یہ خطبہ شیعہ کے معروف خطیب سید ظہور الحسن نے اردو ترجمہ جلاء العیون کے مقدمہ میں یہ دیا ہے:

ترجمہ: میں وہ ہوں جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں حضور اکرمﷺ کے بعد میرے سوا کوئی نہیں جانتا، میں وہ ذوالقرنین ہوں جس کا ذکر صحف اولیٰ میں ہے، میں خاتم سلیمان کا مالک ہوں، میں یوم الحساب کا مالک ہوں میں ہی صراط اور میدانِ حشر کا مالک ہوں جنت و دوزخ کا تقسیم کرنے والا ہوں، میں پہلا آدم ہوں پہلا نوح ہوں ہیں، میں جبار کی آیت ہوں میں اسرار کی حقیقت ہوں میں درختوں کو پتے پہنانے والا ہوں میں پھلوں کا پکانے والا ہوں میں چشموں کا جاری کرنے والا ہوں میں نہروں کو (روانی کے ساتھ) بہانے والا ہوں میں علم کا خزانہ ہوں میں حلم (بردباری) کا پہاڑ ہوں میں امیر المؤمنین ہوں میں سر چشمہ یقین ہوں میں آسمانوں اور زمین میں حجت خدا ہوں(جلاء العیون: اردو جلد،2 صفحہ،60)

کیا یہ آپ کا اپنے خدا ہونے کا دعویٰ نہیں؟ کیا سیدنا علیؓ کے بارے میں یہ وہی عقیدہ نہیں جس کی داغ بیل عبد اللہ بن سباء نے ڈالی تھی اور حضرت علیؓ کے رب ہونے کا دعویٰ کیا تھا شیعہ کی معتبر کتابوں میں اب بھی یہی شیعہ عقائد ملتے ہیں جو اس نے پھیلائے تھے، تو یہ تسلیم کرنے سے چارہ نہیں رہتا کہ واقعی اس نئے مذہب کی اساس عبد اللہ ابن سبا یہودی کے ہاتھوں ہوئی اور شیعہ کے یہ نظریات گو ویسے دبے تھے لیکن وہ بنیادی طور پر جگہ پاچکے ہیں۔

محمد بن یعقوب الکلینی ( 328ھ) نے چوتھی صدی میں ان نظریات کو باقاعدہ مرتب کیا اور ایک نئے مذہب کی تشکیل دی، اثناء عشریوں کے ہاں یہ ان کا پہلا محدث ہے جس سے ان کے اصول شروع ہوئے، ان اصول اربعہ میں پہلا اصول الکافی ہے اور دوسرا من لا یحضرہ الفقیہ رہا، اسے ان کے محدث ابنِ بابویہ القمی( 380ھ) نے ترتیب دیا، ان کا تیسرا اصول تہذیب الاحکام اور چوتھا الاستبصار فما اختلف من الاخبار ہے۔

محمد بن یعقوب الکلینی تیسری اور چوتھی صدی میں پیدا ہوا اور ان کا بارہویں امام (256ھ ) میں پیدا ہوا، سو یہ بات نہایت لائق تسلیم ہے کہ اثناء عشری مذہب تیسری صدی کے نصف ثانی میں مرتب ہوا ور عبداللہ ابن سباء اس کی بنیاد پہلے ڈال چکا تھا لیکن اسے باقاعدہ ایک مذہب کی صورت میں چوتھی صدی میں محمد بن یعقوب الکلینی نے مرتب کیا اور بارہویں نے اپنی بیت صفری ختم ہونے پر اس کی تصدیق کی اور اس کا نام کافی رکھا۔