شیعہ ائمہ کے مزارات کی زیارت کے کون سے آداب ہیں جنہیں شیعہ علماء واجب قرار دیتے ہیں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ ائمہ کے مزارات کی زیارت کے کون سے آداب ہیں جنہیں شیعہ علماء واجب قرار دیتے ہیں؟
جواب: زیارت کے واجب آداب بہت سے ہیں مثلاً:
1: مزار کے احاطے میں داخل ہونے سے قبل غسل کرنا اور کھڑے ہو کر ماثورا جازت طلب کرنا اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو غسل دوبارہ کرے گا۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 124 كتاب المزار باب آداب الزيارة)
2: نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ حاضر ہونا اور نئے خوبصورت صاف ستھرے کپڑے پہننا۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 124 كتاب المزار باب آداب الزيارة)
3: مزار پر ادب سے کھڑے ہونا اور اسے چومنا آیت الله محمد الشیرازی لکھتا ہے ہم ائمہ کے مزاروں کو ایسے ہی بوسہ دیتے ہیں جیسے ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔
(مقالة الشيعة: صفحہ، 8)
4: جبکہ ملا مجلسی کہتا ہے مزار پر ٹیک لگانے اور اسے بوسہ دینے پر نص موجود ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 136 ح، 24 باب ثواب تعمير قبور النبی والائمة)
5: مزار پر رخسار رگڑنا: کہتے ہیں مزار کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ہمارے نزدیک سنت ہے۔
(عمدة الزائر فی الأدعية والزيارات: صفحہ، 31)
اگر اس موقع پر تقیہ کرنے کی ضرورت پیش آ جائے تو اسے ترک کرنا اولیٰ ہے۔
(بحار الأنور: جلد، 97 صفحہ، 136 ح، 24 باب ثواب تعمير قبور النبی والائمة)
6: مزار کا طواف کرنا: شیعہ علماء لکھتے ہیں: الا یہ کہ ہم تمہارے مزارات کا طواف کریں۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 126 ح، 3 باب آداب الزيارة مستدرك الوسائل: جلد، 10 صفحہ، 366 حدیث نمبر: 12193 باب استحباب اختيار الاقامة فی شهر رمضان الخ)
تعارض:
خود انہی علماء نے ایسی روایات بیان کی ہیں جو قبروں کے طواف سے منع کرتی ہیں مثلاً اور تم قبر کا طواف مت کرو۔
(فروع الكافی: جلد، 6 صفحہ، 1566 كتاب الذی و التجمل والمروءة، حدیث نمبر، 8 لباب كراهية أن يبيت الانسان وحده علل الشرائع: جلد، 1 صفحہ، 276 حدیث نمبر،01 باب، 200 بحار الأنوار: جلد، 100 صفحہ، 126 كتاب المزار، باب آداب الزيارة)
شیعہ مجلسی نے اس روایت کا رد کرتے ہوئے کہا کہ احتمال ہے کہ اس طواف سے مراد پاخانہ کرتا ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 98 صفحہ، 127 باب آداب الزيارة واحكام الروضات)
7: نماز میں صاحب قبر کی طرف منہ کرنا اور قبلہ شریف کی طرف پشت کرنا مجلسی لکھتا ہے قبر کی طرف منہ کرنا لازمی امر ہے اگرچہ اس کا منہ قبلہ کی طرف نہ ہو سکے۔ زائر کے لیے قبر کی طرف منہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے قبلہ شریف کی طرف منہ کرنا، کیونکہ وہ اللہ کا چہرہ ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 101 صفحہ، 369 باب زيارته)
گرتی دیوار کو ایک اور دھکا:
سیدنا علیؓ نے فرمایا: اے لوگوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے اس انسان پر لعنت کی ہے جو قبروں کو مصلی (نماز کی جگہ) بنائے۔
(فقه الرضا: صفحہ، 188 باب آخر فی الصلاة على الميت)
8: قبر کے اوپر جھکنا اور ماثور دعا مانگنا:
علمائے شیعہ کہتے ہیں: جب تم مزار کے دروازے پر آؤ تو قبے کے باہر کھڑے ہو جاؤ ، اپنی آنکھ سے قبر کی طرف اشارہ کرو اور پھر کہو اے میرے مولا! اے ابو عبداللہؒ اے رسول اللہﷺ! کے بیٹے! تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا، تیری لونڈی کا بیٹا تیرے سامنے ذلیل و عاجز، تیری منزلت میں کوتاہی کرنے والا، تیرے حقوق کا معترف، تیرے ذمے کے ساتھ پناہ لینے آیا ہے، تیرے حرم کا قصد کر کے آیا ہے اور تیرے مقام کی طرف متوجہ ہے پھر قبر پر جھک جاؤ اور کہو اے میرے مولا! میں خوفزدہ آیا ہوں تو مجھے امن دے، میں تیری پناہ لینے آیا ہوں تو مجھے پناہ دے، میں تیرے پاس فقیر بن کر آیا ہوں تو مجھے غنی کر دے اے میرے سید تو ہی میرا مولا اور میرا ولی و دوست ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 98 صفحہ، 253 حدیث نمبر: 41 باب زيارته صلوات الله عليه فی ليلتی عيد الفطر و عيد الاضحىٰ)
9: قبر کو قبلہ بنانا اور کعبہ شریف کی طرف پشت کرنا، اور قبر کی طرف منہ کر کے دو رکعتیں ادا کرنا واجب ہے:
(الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ، 490 توقيعات الناحية المقدسة، اور بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 128 ح، 8 باب آداب الزيارة)
روایت کرتے ہیں کہ ان کے امام غائب نے غار سے انہیں خطاب بھیجا کہ کعبہ کو اپنے پیچھے رکھ کر نماز قبر کے پیچھے کھڑے ہو کر ادا کرو اور قبر کو اپنے سامنے رکھو۔ قبر کے آگے یا اس کے برابر کھڑے ہونا جائز نہیں کیونکہ امام کے آگے یا اس کے برابر کھڑے ہونا جائز نہیں ہے۔ اور اس لیے بھی شیعہ علماء کے نزدیک امام کعبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ابو عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
ہم اللہ عزوجل کی کتاب میں نماز ہیں، ہم ہی زکوٰۃ ہیں، ہم روزہ اور حج ہیں۔ ہم ہی حرمت والے مہینے اور حرمت والا شہر ہیں۔ ہم اللہ کا کعبہ اور قبلہ اللہ ہیں، ہم اللہ کا چہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ہیں:
فَاَيۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡهُ اللّٰهِ الخ (سورۃ البقرۃ: آیت، 115)
لہٰذا تم جس طرف بھی منہ کرو گے وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 24 صفحہ، 303 حدیث نمبر، 14 باب أنهم الصلاة والزكاة مناقب آل ابی طالب جلد، 3 صفحہ، 678)
شیعہ عالم آل کاشف الغطاء نے کہا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ موڑنا اصل میں سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے نور کی وجہ سے ہے جو کہ کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی کہا ہے کعبہ کی طرف منہ موڑنا حقیقت میں اس نور کی طرف منہ موڑنا ہے جو کہ کعبہ میں پیدا ہوا ہے۔
(جنة المأوىٰ صفحہ، 107 لشيخهم محمد حسين آل كاشف الغطاء)
شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ ہی مساجد ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ابو عبداللہؒ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
وَاَقِيۡمُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ الخ۔ (سورۃ الاعراف: آیت، 29)
ترجمہ: ہر نماز کے وقت اپنے منہ سیدھے کر لو۔
کی تفسیر میں فرمایا ہے اس سے مراد ائمہ ہیں۔
(تفسير العياشی: جلد، 3 صفحہ، 12 حدیث نمبر، 18 سورة الاعراف، اور تفسير الصافی: جلد، 3 صفحہ، 188 سورة الاعراف)
شیعہ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ قرآنِ مجید میں وارد سجود سے مراد ان کے ائمہ کی ولایت ہے۔
وَقَدۡ كَانُوۡا يُدۡعَوۡنَ اِلَى السُّجُوۡدِ وَهُمۡ سٰلِمُوۡنَ۞
(سورۃ القلم: آیت، 43)
ترجمہ: اور وہ سجود کی طرف بلائے جاتے تھے اس حال میں کہ وہ صحیح سالم تھے۔
اس کا معنیٰ یہ ہے کہ انہیں دنیا میں امیر المومنین کی ولایت کی طرف بلایا جاتا تھا اور وہ صحیح سالم تھے۔
(تفسير القمی: صفحہ، 718 سورة القلم، تفسير الصافی: جلد، 5 صفحہ، 215 سورة القلم)
شیعہ علماء نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ ہر قبر کے پاس دو رکعتیں زیارت کی نیت سے ادا کرنا ضروری ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 134 كتاب المزار: حديث نمبر: 24 باب آداب الزيارة، تفسير نور الثقلين: جلد، 5 صفحہ، 396 ح، 51 سورة القلم)
شیعہ علماء کے نزدیک یہ شرکیہ امور افضل ترین تقرب شمار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کو جھانسہ دیتے ہیں کہ یہ شرکیہ افعال ان کے گناہوں کی بخشش، جنت میں داخلے، جہنم سے آزادی، سیئات کی معانی، درجات کی بلندی اور دعاؤں کی قبولیت کے موجب ہیں۔
(بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 134 ح، 24 باب آداب الزيارة واحكام الروضات وبعض النوادر)
یہ شرکیہ امور حج، عمرہ، جہاد اور غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہیں۔
(بحار الأنوار: جلد، 98 صفخہ، 21 باب، 4 كتاب المزار)
ان کے ایک معاصر آیت اللہ علی السیستانی نے کہا ہے کہ: سیدنا علیؓ کی قبر کے پاس نماز ادا کرنے کا اجر بیت اللہ کعبہ کے پاس نماز ادا کرنے کے اجر سے بڑھ کر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ روایت میں آیا ہے کہ آپ کی قبر کے پاس نماز کا اجر دو لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
(منہاج الصالحين، العبادات 562 صفحہ، 187 كتاب الصلاة، مكان المصلیٰ)
تضاد بیانی:
ابو عبد اللہؒ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے قبر پر بیٹھنے، اس کو قبلہ بنا کر نماز پڑھنے، اس کے ساتھ ٹیک لگانے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے۔
(تہذيب الأحكام : جلد، 3 صفحہ، 693 الاستبصار جلد، 1 صفحہ، 352 وسائل الشيعه: جلد، 2 صفحہ، 503 ح، 5 باب جواز الصلاة على الميت)
مزید برآں کیا ائمہ کے نام پر گھڑی گئی یہ روایات اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی دعوت پر مبنی نہیں ہیں؟ کیا اس سے اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین کو تبدیل کرنے کی ناپاک سازش نہیں کی گئی؟ کیا ملتِ اسلامیہ پر ملتِ شرک کو ترجیح دینے کی مذموم جسارت نہیں ہے؟ کیا یہ دین حنیف کی جگہ بت پرستی کو بدل دینے کی کوشش نہیں؟
کیوں نہیں! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق اور پروردگار عالم نہیں، یہ دعوت ایسی ہی مذموم اور ناپاک ہے۔ جو دین اپنے پیروکاروں کو کعبۃ اللہ کی طرف پشت کرنے ، اپنے ائمہ کی قبروں کو قبلہ بنانے کا حکم دے اس دین کو کیا نام دیا جائے گا؟ یہ مَن گھڑت روایات کو تراشنے اور پھیلانے والے شیعہ علماء کو کیا نام دیا جائے جو شرک کے گھروں کو مشاہد اور مزارات کا نام دے کر توحید کے گھر مساجد کو برباد کر رہے ہیں اور یہ شرک کدوں کو آباد کر رہے ہیں؟ (ایران میں) یہ بت کدے اس کی بہترین گواہی ہیں۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
اَمۡ لَهُمۡ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَهُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا لَمۡ يَاۡذَنۡۢ بِهِ اللّٰهُ وَلَوۡلَا كَلِمَةُ الۡفَصۡلِ لَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ وَاِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ۞
(سورۃ الشورى: آیت، 21)
ترجمہ: کیا ان کے لیے (اللہ کے سوا) شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا؟ اور اگر وعدے کے دن فیصلہ کرنے کی بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان یقیناً (فوراً ہی) فیصلہ کر دیا جاتا، اور بلاشبہ ظالم لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
دندان شکن:
سیدنا ابوجعفرؒ سیدنا محمد باقرؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری قبر کو قبلہ بناؤ نہ مسجد، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔
(من لا يحضره الفقيه: جلد، 2 صفحہ، 72 ح، 523 باب التعزية والجزع، علل الشرائع: جلد، 2 صفحہ، 351 ح، 1 باب، 57 العلةالتی من أجلها، بحار الأنوار: جلد، 97 صفحہ، 128 ح، 7 باب آداب الزيارة واحكام الروضات و بعض النوادر شجرة الطوبیٰ: صفحہ، 1)