کیا شیعہ علماء کے نزدیک کربلا اور کوفہ کی کوئی فضیلت ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ علماء کے نزدیک کربلا اور کوفہ کی کوئی فضیلت ہے؟
جواب: جی ہاں روایت کرتے ہیں کہ سیدنا جعفر الصادقؒ نے فرمایا ہے: جب فتنہ عام ہو جائے تو امن کوفہ اور اس کے گرد و نواح میں ہوگا۔
(المجلس الثامن فی فضيلة قم و وجه تسميتها)
نیز آپ ہی کے متعلق ایک دوسرا بہتان یہ گھڑ لیا ہے کہ آپ مسجد کوفہ کی فضیلت میں فرماتے ہیں: اس مسجد کا دایاں حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور اس کا درمیانہ حصہ بھی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور اس کا آخری حصہ بھی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور کوئی بھی نیک انسان یا نبی اور ولی ایسا نہیں جس نے اس مسجد میں نماز نہ پڑھی ہو۔
(المصدر السابق: صفحہ 13)
نیز یہ بہتان بھی گھڑ لیا ہے کہ ابو عبد اللہؒ رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف یہ وحی کی: اے کعبہ! اگر کربلا کی مٹی نہ ہوتی تو میں تمہیں فضلیت نہ بخشتا اور اگر کربلا کی زمین کے لوگ نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا اور نہ وہ گھر پیدا کرتا جس کی وجہ سے تو فخر کرتا ہے۔ لہٰذا اسی فضیلت پر راضی ہو جا اور سکون کر اور تواضع اختیار کر، ذلیل و رسوا ہو کر رہ اور کربلا کی زمین کے سامنے فخر و غرور نہ کر، وگرنہ میں تم پر ناراض ہو جاؤں گا اور تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دوں گا۔
(كامل الزيارات: صفحہ، 246 ح، 2 باب: 88 فضل کربلا، وزيارة الحسينؓ)
کربلا کی زبانی یہ روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کی مقدس و مبارک زمین ہوں۔ میری مٹی شفا ہے اور میرا پانی تریاق ہے، لیکن اس پر کوئی فخر نہیں۔
(كامل الزيارات: صفحہ، 249 ح، 17 الباب، 88 فضل كربلا، وزيارة الحسينؓ)
شیعہ کے آیت اللہ آل کاشف الغطاء لکھتا ہے: کربلا روئے زمین پر سب سے افضل جگہ ہے اور یہ بات شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے ہے، جیسا کہ بعض معاصر مؤلفین کتب نے صراحت کی، اور بہت سی اخبار و آثار اس کی گواہی دیتے ہیں۔
(الأرض و التربة الحسينة: صفحہ، 55، 56)
اور ضروریات کا منکر ان کے نزدیک کافر ہے جیسا کہ متعدد بار تذکرہ ہو چکا ہے اور ان کا آیت اللہ مرزا حسین الحائری کہتا ہے: سیدنا حسینؓ کے دفن ہونے کے بعد یہ مبارک سر زمین مسلمانوں کی زیارت گاہ اور موحدین کا کعبہ بن گیا، بادشاہوں اور سلاطین کا مطاف اور نمازیوں کی مسجد بن گیا ہے۔
(أحكام الشيعة: جلد، 1 صفحہ، 32 تاریخِ کربلا: صفحہ، 115، 116)
تعلیق:
شیعہ عقیدہ کے مطابق کربلا کو یہ فضیلت سیدنا حسینؓ کے جسم سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر یہ بات ہے تو مدینہ منورہ کو ان مذکورہ فضائل میں سے چند ایک رسول اللہﷺ کے جسدِ اطہر کی وجہ سے کیوں حاصل نہیں ہوئے۔ یا وجہ یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک سیدنا حسینؓ کا جسد رسول اللہﷺ کے جسدِ اطہر سے افضل ہے؟ اس کی دلیل آل کاشف الغطاء کا یہ قول ہے کیا یہ خالص و بنیادی حق نہیں ہے کہ کربلا روئے زمین پر سب سے پاکیزہ جگہ ہو جو زمانے میں سے سب سے معزز شخص کا مرقد و مزار ہے؟
(الأرض والتربة الحسينية: صفحہ، 55، 56)
شیعہ کی بعض مقدس روایات میں آیا ہے کہ عنقریب حجر اسود خانہ کعبہ سے نکال لیا جائے گا اور کوفہ میں شیعہ حرم میں نصب کیا جائے گا۔ انہوں نے اس میں ایک روایت گھڑ کر سیدنا علی بن ابی طالبؓ کی طرف منسوب کی ہے۔
جس میں ہے کہ سیدنا علیؓ نے کوفہ مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے اہلِ کوفہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے ایسی محبت کی ہے کہ ایسی محبت کسی اور سے نہیں کی اور نہ ہی کسی کو یہ فضیلت دی ہے تمہارا یہ مصلیٰ حضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح
علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مصلیٰ ہے۔ رات و دن اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حجر اسود کو یہاں پر نصب کیا جائے ۔
(من لا يحضره الفقيه: جلد، 1 صفحہ، 92 باب فضل المساجد و حرمتها و ثواب من صلى فيها-وسائل الشيعة جلد، 3 صفحہ، 309 ح، 18 باب تاكد استحباب قصد مسجد الاعظم بالكوفة الخ كتاب الوافی: جلد، 14 صفحہ، 1447 باب فضل الكوفة و مساجدها)
تبصره:
لیجیئے شیعہ اپنے بھائی قرامطہ کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں جنہوں نے 317ھ میں بیت اللہ سے حجر اسود چوری کرنے کا عظیم جرم کیا تھا۔
(كتاب المسائل العكبرية: جلد، 84 صفحہ، 102 للشيخهم المفيد)
لیکن انہوں نے حجر اسود کو اپنے کوفی حرم میں نصب نہیں کیا تھا۔ آخر کیوں! کیا شیعہ علماء کے مصادر ان کے بھائی قرامطہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں تھے؟ پھر آخر کوفہ ہی کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ اس لیے کہ ابنِ سبا یہودی کے دین کو کسی اسلامی شہر کے باشندوں نے گھاس نہیں ڈالی سوائے اہلِ کوفہ کے وہ اس لیے کہ اسلامی شہروں نے علم و ایمان سے قربت کی بنا پر ابنِِ سبا یہودی کے دین کو قبول نہیں کیا سوائے کوفہ کے جو ابنِ سبا یہودی کے دین سے بری طرح متاثر ہوا۔ ابنِِ سبا شہر شہر گھوما تھا مگر اس کے مذہب شیعیت کو صرف کوفہ میں پذیرائی ملی جو اس دور میں علمی اور ایمانی نور سے بہت دور تھا اس لیے شیعہ مذہب کوفہ سے نمودار ہوا اسی طرح مرجئہ، قدریہ اور معتزلہ کی بدعات کوفہ ہی سے ظاہر ہوئیں باطل عبادات کا رواج بصرہ سے پڑا جہمیہ فرقہ کا فتنہ خراسان سے نکلا یہ بدعات مدینہ منورہ سے دوری کے سبب نمودار ہوتی رہیں کیونکہ بدعات کے ظہور کا سبب رسولوں کی سنتوں سے لاعلمی اور دارالایمان و العلم سے دوری ہوتا ہے اور اس کی بدولت لوگ ہلاک ہوتے ہیں میں اس تبصرے کو ارشاد باری تعالیٰ کےساتھ ختم کرتا ہوں:
اِنَّ اَوَّلَ بَيۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِىۡ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّلۡعٰلَمِيۡنَ۞ فِيۡهِ اٰيٰتٌ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰهِيۡمَ الخ۔
(سورة آلِ عمران: آیت 97، 96)
ترجمہ: بیشک اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ وہ تمام دنیا کے لیے بڑی برکت اور ہدایت والا ہے۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (اور) مقامِ ابراہیم ہے۔