صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت کا عقیدہ
الشیخ شفیق الرحمٰن الدراویصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت کا عقیدہ
اہلِ سنت والجماعت کے ہاں یہ طے شدہ ہے کہ فضیلت میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین برابر ہیں مگر ان کے درمیان افضلیت کا فرق ہے۔ ان میں سے بعض کو ایسی افضیلت حاصل ہے جس سے دوسرے کی فضیلت میں کچھ کمی نہیں آتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مطلق طور پر عشرہ مبشرہ افضل ہیں۔ ان میں سے چار حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ہیں اور چھ ان کے علاوہ ہیں۔ ان میں حضرت سعید، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ، حضرت عامر اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
ان عشرہ مبشرہ میں سے افضل چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ہیں اور ان کی افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضراتِ شیخین سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ ان چاروں میں سے بلند و بالا ہے۔ یہ حضرات علی الاطلاق انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد افضل ترین ہستیاں ہیں۔ ان دو میں سے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام زیادہ بلند و بالا ہے۔
یہاں پر ایک بہت ہی عمدہ عقیدہ اور ایک سنہری قول ذکر کرنا ضروری ہے جو کہ سادات اہلِ بیتؓ کے سردار سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ سے منقول ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
جو کوئی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت نہیں پہچانتا تو وہ سنت سے جاہل ہے۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ و شرح عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ: جلد، 2 صفحہ، 350)
امام شعبیؒ فرماتے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا اور ان کی فضیلت کی معرفت حاصل کرنا سنت میں سے ہے۔
(ایضاً: جلد، 3 صفحہ، 337)
اہلِ علم کی ایک جماعت جیسا کہ ابنِ کثیرؒ اور ابنِ صلاح رحمۃ اللہ اور امام نووی رحمۃ اللہ نے ایسے ہی لکھا ہے۔
(الباعث الحثیث: صفحہ، 183 مقدمہ ابنِ صلاح: جلد، 1 صفحہ، 164 التقریب و التیسیر لمعرفۃ سنۃ البشیر و النذیر: صفحہ، 93)
بعض علمائے کرام نے اہلِ بیعتِ رضوان کو اہلِ احد سے مقدم کیا ہے اور بعض نے اہلِ احد کے بعد ان لوگوں کو شمار کیا ہے جو غزوۂ خندق میں ثابت قدم رہے، اور پھر بیعتِ رضوان والوں کو شمار کیا ہے۔
(لوامع الأنوار البہیۃ: جلد، 2 صفحہ، 371)
اہلِ سنت والجماعت اجمالی طور پر کہتے ہیں: مہاجرین انصار سے افضل ہیں اور سابقین اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد میں آنے والوں سے افضل ہیں۔
(معارج القبول: جلد، 3 صفحہ، 371 لوامع الأنوار البہیۃ: جلد، 2 صفحہ، 371)
جہاں تک حضراتِ صحابیات رضی اللہ عنہن کا تعلق ہے، ان میں سب سے افضل تین ہیں: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
اس امت کی افضل ترین عورتیں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کو آپس میں ایک دوسری پر فضیلت دینے میں اختلاف اور لمبی تفصیل ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 2 صفحہ، 481)
یہاں پر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جمہور اہلِ علم کہتے ہیں:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہر ایک بعد میں آنے والے ہر ایک سے افضل ہے اور اس کے خلاف بھی کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ جب کہ یہی تو وہ لوگ ہیں جنہیں نبی کریمﷺ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ (اور اپنا تن من دھن ایسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کیا کہ رسول اللہﷺ نے ان کے اخلاص کی بناء پر فرمایا) اگر ان کے بعد آنے والے احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان کے خرچ کردہ ایک مٹھی برابر جَو یا اس کے آدھے حصے کے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ تو پھر ان کی باقی نمازوں، صدقات اور جہاد اور باقی اعمال کا کیا عالم ہو گا۔
اور اس کے خلاف تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِيۡكُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰهِ لَوۡ يُطِيۡعُكُمۡ فِىۡ كَثِيۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيۡكُمُ الۡاِيۡمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۞
(سورۃ الحجرات: آیت 7)
ترجمہ: اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسولﷺ موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑ جاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پُرکشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آ چکے ہیں۔
(مصنف استاد محترم نے آیت کا آخری حصہ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ بطورِ استشہاد پیش کیا تھا۔ میں نے آیت کے مضمون کا متعلقہ حصہ اہمیت کی وجہ سے مکمل کر دیا ہے۔)
امام ابنِ بطہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
اور تمام اصحابِ رسول اللہﷺ سے ان کے مراتب اور منازل کے مطابق درجہ بدرجہ محبت کی جائے گی۔ جیسے اہلِ بدر، حدیبیہ اور بیعتِ رضوان اور اصحابِ احد یہ اعلیٰ فضائل والے لوگ ہیں اور ان کی منزلت اونچی ہے۔ جن کو ہر میدان میں سبقت حاصل ہے۔ اللہ ان سب پر رحم کرے۔
(الإبانہ الصغری: صفحہ، 271)
اور فرمانِ الہٰی ہے: وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى ۞
(سورۃ النساء: آیت 95)
ترجمہ: اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔
اس کے خلاف تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے جب کہ رسول اللہﷺ خود فرماتے ہیں:
بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں۔(تخریج گزر چکی ہے)
حضرت معافی بن عمران رحمۃ اللہ سے پوچھا گیا: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ کے مقابلہ میں حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا مقام ہے؟ تو آپؒ اس سوال پر شدید غصہ ہو گئے اور فرمانے لگے:
نبی کریمﷺ کے کسی ادنیٰ صحابی رضی اللہ عنہ پر بھی کسی کو قیاس نہیں کیا جا سکتا تو پھر سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا سوال؟ آپؓ رسول اللہﷺ کے سسرالی رشتہ دار (سالے) ہیں آپﷺ کے صحابی اور کاتبِ وحی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی پر آپﷺ کے امین ہیں۔
(تاریخِ مدینہ دمشق: جلد، 9 صفحہ، 208)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سے پوچھا گیا: کیا نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کسی ایک کو قیاس کیا جا سکتا ہے؟ تو آپؒ فرمانے لگے:
معاذ اللہ! حضرت امیرِ معاویہؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ سے بدرجہا افضل ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں۔
(حدیث کی تخریج گزر چکی ہے، مزید دیکھیں: السنۃ لخلال: جلد، 2 صفحہ، 435)
مزید آپ فرماتے ہیں:
ایک ادنیٰ صحابی رضی اللہ عنہ بھی بعد میں آنے والی صدی کے ان لوگوں سے بہتر ہے جنہوں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا، اگرچہ وہ اپنے سارے اعمال لے کر اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جائیں۔
(شرح أصول اعتقاد اہل السنۃ: جلد، 1 صفحہ، 160)
اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی کیا توجیہ ہو گی؟
آپﷺ کا فرمان ہے:
بیشک تمہارے پیچھے ایسے ایام ہیں جن میں صبر کرنا ایسے ہے جیسے انگارے کو پکڑ لینا۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے والے کا اجر ایسے ہی ہو گا جیسے اس جیسے نیک اعمال کرنے والے پچاس افراد کا عمل۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: کیا ان میں سے پچاس نیک افراد کا عمل؟ تو آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے پچاس افراد۔
(اخرجہ الترمذی فيمی جامعہ کتاب التفسیر، باب سورۃ المائدۃ: جلد، 5 صفحہ، 257 رقم، 3058 اور کہا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر و النہی: جلد، 4 صفحہ، 332 رقم، 4341 وصححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ: رقم، 494)
جواب: یہ فضیلت ایک متعین معاملہ میں ہے، اس سے مطلقاً فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور وہ معاملہ یہ ہے کہ ان دنوں میں صبر کرنے والے کا اجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے پچاس صبر کرنے والوں کے اجر کے برابر ہے۔ پس پتا چلا یہ ایک خاص فضیلت ہے جو کہ ایک متعین مسئلہ میں ہے۔ یہ فضیلت مطلق طور پر نہیں۔
حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں:
یہ حدیث کہ ان میں سے ایک عامل کا اجر تم میں سے پچاس کے اجر کے برابر ہو گا۔ اس میں کسی غیر صحابی کی صحابی رضی اللہ عنہ پر فضیلت کی کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ صرف اجر زیادہ ہونے کے ثبوت سے مطلق طور پر افضلیت کا ثبوت لازم نہیں آتا۔ نیز یہ کہ اجر میں تفاضل اس جیسے عمل کی نسبت سے ہوتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جو نبی کریمﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل کر پائے ہیں، کوئی فضیلت اس سعادت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 7)