Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

یہ عقیدہ رکھنا کہ تعزیہ داری سے ایمانی جوش پیدا ہوتی ہے


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ اس پُر فتن دور میں کچھ فرقے تیار ہوچکے ہیں جو عام انسانوں کو ہدایت سے بھٹکا رہے ہیں، اور اٙج کل ان لا علم علاقوں میں گشت کر رہے ہیں کہ تعزیہ داری حرام ہے۔حالانکہ زید کا عقیدہ بھی ہے کہ تعزیہ داری سے جوشِ ایمان باقی رہتا ہے۔ لیکن قانون شریعت جلد دوم صفحہ 256 کی عبارت اور مولانا حشمت علی صاحب کی تصنیف کردہ کتاب شمعِ ہدایت حصہ سوم صفحہ 29 کہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ تعزیہ داری اور علم اٹھانا، اور بانس وغیرہ کے ڈھانچہ تیار کرنا اور اس میں مصنوعی قبر بنانا نا جائز و حرام ہے۔ اس سے کبھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خوش نہیں ہوتے۔ اِن مذکورہ مسئلہ سے واضح دلائل پیش کر کے اس فرقہ کا منہ کالا کریں جو دیہاتوں میں جاہلوں کو بہکا رہے ہیں۔

جواب: تعزیہ کے بارے میں شمع ہدایت اور قانون شریعت کے حوالہ سے جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہی صحیح ہے، اور وہی اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ میں ہے اور وہی بہارِ شریعت میں۔

اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ تعزیہ داری کا جو مروجہ طریقہ ہے اس سے جوشِ ایمان پیدا ہوتا ہے تو اپنا یہ عقیدہ بدلیے۔ غلط اور نا جائز طریقوں سے جوشِ ایمان کی حمایت بھی نا جائز ہے۔

(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 6 صفحہ، 173)