Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ علماء کے نزدیک تقیہ ترک کرنے کا کیا حکم ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

شیعہ علماء کے نزدیک تقیہ ترک کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:  1: تقیہ کا تارک نماز کے تارک جیسا ہے سیدنا صادقؒ سے جھوٹ بولتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اگر میں یہ کہوں کہ تقیہ کا تارک نماز کے تارک جیسا ہے تو میں سچا ہوں گا۔ 

(وجوب التقيه مع الخوف الى خروج صاحب الزمان)

2: پھر غلو میں بڑھتے ہوئے کہتے ہیں بیشک تقیہ کا ترک ہلاک کر دینے والا گناہ ہے جو کہ نبوت کا انکار، امامت کا انکار، بھائیوں پر ظلم کرنا یا ترک تقیہ ہے۔ 

(المكاسب المحرمة: جلد، 2 صفحہ، 163)

3: پھر تقیہ میں مزید غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں دین کے دس میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں اور جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے۔

(أصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 572 ح، 2 كتاب الايمان والكفر باب التقية)

4: پھر مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں تقیہ ترک کرنا ایسا گناہ ہے جو بھی معاف نہ ہوگا سیدنا علی بن حسینؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مومن کا ہر گناہ معاف کر دیں گے اور اسے دنیا اور آخرت میں گناہوں سے پاک کر دیں گے سوائے دو گناہوں کے:

  1. تقیہ ترک کرنا۔
  2. بھائیوں کے حقوق کا ضیاع۔

(تفسير الحسن العسكرى: صفحہ، 293 وجوب الاهتمام بالتقية وقضاء حقوق المومنين وسائل الشيعة: جلد، 11 صفحہ، 252 ح، 6 باب وجوب الاعتناء واهتمام بالتقية وقضاء حقوق الاخوان المومنين)

الکلینی روایت کرتا ہے کہ ابو عبداللہؒ نے فرمایا اے سلیمان! تم ایسے دین کے پیروکار ہو جو اسے چھپائے گا اللہ اسے عزت دے گا اور جو اسے ظاہر کرے گا اللہ اسے ذلیل و رسوا کر دے گا۔ 

(أصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 576 ح، 3 باب الكتمان كتاب الايمان والكفر)

آخر میں یہ روایت ملاحظہ فرمائیں: تقیہ کا تارک کافر ہے، اللہ کے دین اور امامیہ کے دین سے خارج ہے۔

(فقه الرضا: صفحہ، 338 باب حق النفوس، الاعتقادات: صفحہ، 108 باب، 1 لاعتقادات فی التقية بحار الأنوار: جلد، 7 صفحہ، 347 باب مواعظ موسى بن جعفر و حکمه)

تعلیق:

سفیان السمط بیان کرتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہؒ سے عرض کی میں آپ پر قربان، ایک شخص آپ کی طرف سے ہمارے پاس آتا ہے جو کہ جھوٹ بولنے میں معروف ہے۔ وہ ایسی حدیث بیان کرتا ہے جسے ہم نہایت ناگوار محسوس کرتے ہیں۔ تو ابو عبداللہؒ نے فرمایا اگر وہ تمہیں بتائے کہ میں نے رات کو دن یا دن کو رات کہا ہے تو تم اس کی تکذیب نہ کرنا کیونکہ اگر تم اسے جھٹلاؤ گے تو بے شک تم مجھے ہی جھٹلاؤ گے۔

(مختصر بصائر الدرجات: صفحہ، 190 ح، 242 باب ما جاء فی التسليم لما جاء عنهم و ما قالوه عليهم السلام بحار الأنوار: جلد، 2 صفحہ، 211، 212 ح، 14 باب أن حديثهم صعب مستعصب)

اس قسم کی نصوص بے شمار ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ شیعہ عوام روایات کو غلط اور بے ہودہ تسلیم کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء انہیں اندھوں کی طرح ایمان لانے کا لازمی حکم دے کر خاموش کرا دیتے ہیں۔

سیدنا جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ابوجعفرؒ نے بیان کیا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: يقيناً آلِ محمدﷺ کی حدیث بہت مشکل اور دشوار ہے، اس پر صرف مقرب فرشتے یا نبی یا ایسا بندہ ایمان لا سکتا ہے جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے چن لیا ہو لہٰذا آلِ محمد کی جو حدیث تمہارے پاس آئے اور اس کے لیے تمہارے دل نرم ہو جائیں اور تم اسے پہچان لو تو اسے قبول کر لو اور جس سے تمہارے دل تنگ ہو جائیں اور تم اسے پہچاننے سے انکار کر دو تو اسے اللہ، اس کے رسول اور آلِ محمد کے عالم کی طرف کر دو۔ بلاشبہ ہلاک ہوا وہ شخص جو تم میں کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ خود اٹھا نہیں سکتا اور وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ ایسے نہیں ہے۔ اللہ کی قسم یہ ایسے نہیں ہے اور انکار کفر ہے۔

(بصائر الدرجات الكبرىٰ: جلد، 1 صفحہ، 62 ح، 1 باب فی أئمة آلِ محمد حديثهم صعب مستصعب أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 302 الفاظ اس کتاب کے ہیں کتاب الحجة: ح، 1 باب ماجاء أن حدثيهم صعب مستعب)