Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ علماء کا عقیدہ رجعت کیا ہے؟ یہ کن لوگوں کے بارے میں ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

شیعہ علماء کا عقیدہ رجعت کیا ہے؟ یہ کن لوگوں کے بارے میں ہے؟

جواب: عقیده رجعت سے مراد قیامت سے پہلے بے شمار مردوں کے دنیا میں لوٹنے کا نام ہے اور وہ اپنی دنیاوی صورتوں ہی میں دوبارہ آئیں گے۔  

(اوائل المقالات: جلد، 46 صفحہ، 77 القول فی الرجعة) 

شیعہ کے عقیدے کے مطابق دنیا میں خاتم النبیینﷺ‎ تمام انبیائے کرام علیہم السلام ائمہ معصومین، خالص ایمان والے اور خالص کافر واپس آئیں گے سوائے طبقہ جاہلیت کے جنہیں مستضعفین کہا جاتا ہے۔ 

(دائرة المعارف العلوية: جلد،1 صفحہ، 250 لجواد تارا) 

ان کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جیسا کہ علامہ مفید نے بیان کیا ہے شیعہ امامیہ کا بے شمار مردوں کے واپس لوٹنے کے وجوب پر اتفاق ہے۔

(اوائل المقالات: صفحہ، 46 القول فی الرجعة والبداء و تاليف القرآن)

اور یہ روایت بھی بیان کی ہے جو ہماری واپسی پر ایمان نہیں رکھتا اور ہمارے متعہ کو حلال نہیں سمجھتا وہ ہم میں سے نہیں۔

(من لا يحضره الفقيه: جلد، 3 صفحہ، 584 ح، 4585 باب المتعة تفسير الصافی: جلد،1 صفحہ، 440 سورة النساء اور وسائل الشيعه: جلد، 14 صفحہ، 484 ح، 10 باب اباحتها عقائد الاثنى عشريه: صفحہ، 240)

مجلسی لکھتا ہے اس عقیدہ پر تمام شیعہ میں اتفاق رہا ہے اور یہ عقیدہ دوپہر کے سورج کی طرح صاف واضح ہے۔

(بحار الأنوار: جلد، 53 صفحہ، 122 باب الرجعة)

 شیعہ علماء طبرسی، الحرعاملی اور ابنِ مظفر وغیرہ کا کہنا ہے کہ عقیدہ رجعت شیعہ امامیہ کے ہاں متفق علیہ ہے۔ بلکہ سب معروف و مشہور مصنفین اور علماء کے ہاں یہ امامیہ کے مذہب کی ضروریات میں سے ہے۔

(مجمع البيان فی علوم القرآن: جلد، 5 صفحہ، 252 الايقاظ من الهجعة بالبرهان على الرجعة: صفحہ، 63 اور 82 الباب الثانی فی الاشارة الى الاستدلال على صحة الرجعة، بحار الأنوار: جلد، 53 صفحہ، 123 باب الرجعة، عقائد الاماميه فی ثوبه الجديد: صفحہ، 144 عقيدتنا فی الرجعة حق اليقين)

جیسا کہ پچھلے صفحات میں کئی بار بیان ہو چکا ہے کہ شیعہ کے نزدیک ضروریات کا منکر کا فر ہے۔

چنانچہ وہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب پر افتراء باندھتے ہوئے جھوٹی روایت بیان کرتے ہیں: جس نے بھی انکار کیا کہ میرا دنیا میں دوبارہ آنا اور دعوت کے بعد دعوت اور دوبارہ اسی طرح واپس آنا جیسا پہلے تھا تو اس کا انکار کرنے والا ہمارا رد کر رہا ہیں اور جس نے ہمارا رد کیا اس نے اللہ کی بات رد کی ۔

(الايقاظ من الهجعة: صفحہ، 344 الباب العاشر فی ذكر جملة من الاخبار المعتمدة الواردة فی الاخبار بالرجعة الخ)

تعلیق:

قیامت سے قبل رجعت کی تردید اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے:

حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ۞ لَعَلِّىۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِيۡمَا تَرَكۡتُ‌ كَلَّا‌ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا‌ وَمِنۡ وَّرَآئِهِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ۞

(سورة المؤمنون: آیت، 99، 100)

ترجمہ: حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے واپس بھیج تا کہ میں اس دنیا میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں نیک عمل کروں، ہرگز نہیں بے شک یہ ایک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے اور ان کے آگے پردہ ہے اس دن جب تک وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔

نیز ارشاد ہوا: اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ۞ 

(سورة يس: آیت، 31) 

ترجمہ: کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتیں ہلاک کر دیں؟ بے شک وہ ان کے پاس لوٹ کر نہ آئیں گی۔