Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

البداء کیا ہے؟ اس کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟ سب سے پہلے اس عقیدہ کو کس نے تراشا تھا؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

البداء کیا ہے؟ اس کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ کیا ہے؟ سب سے پہلے اس عقیدہ کو کس نے تراشا تھا؟

جواب: شیعہ عالم مجلسی کے نزدیک البداء کے دو معانی ہیں:

  1.  ان کسی چیز کا ظاہر اور منکشف ہونا۔
  2.  نئی رائے کا پیدا ہونا۔

(بحار الأنوار: جلد، 4 صفحہ، 114 ح، 122 باب البداء و النسخ)

اپنے اصل کے اعتبار سے البداء گمراہ کن یہودی عقیدہ ہے، حالانکہ خود یہودی نسخ کے قائل نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ نسخ سے البداء لازم آتا ہے۔

(سفر التكوين: الفصل السادس فقره، 5 سفر الخروج فصل: 32 فقره: 12۔ 14 سفر القفاة: فصل ثانی: فقره: 18۔ وغیرہ مزید دیکھیئے: مسائل الامامة: صفحہ، 75)

البداء کا عقیدہ شیعہ فرقے السیر میں منتقل ہوا تو وہ سب اسی عقیدے کے قائل ہو گئے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کو بہت سارے حالات و واقعات کا پہلے علم نہیں ہوتا جب وہ واقع ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو ان کا علم ہوتا ہے۔

(دیکھیے: التنبيه والرد: صفحہ، 20)

سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَقُوۡلُوۡنَ عُلُوًّا كَبِيۡرًا‏۞

(سورۃ الإسراء: آیت، 43)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی ذات ان کے اس شرک سے بہت بلند اور بہت پاک ہے۔

البداء شیعہ عقیدے کے اصولوں میں سے ایک ہے لہٰذا جھوٹی روایت کرتے ہیں کہ ابو عبداللہؒ نے فرمایا: البداء جیسی اللہ کی کوئی اور عبادت نہیں ہے۔ 

(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 104۔ 105 كتاب التوحيد ح، 1 باب البداء، التوحيد: صفحہ، 324 ح، 1 باب البداء، بحار الأنوار: جلد، 4 صفحہ، 107 ح، 19 باب البداء وانسخ اس میں سے روایات ذکر کی ہیں)

مزید الزام تراشی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اگر لوگوں کو عقیدہ البداء کا اجر و ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ہر وقت البداء کے متعلق گفتگو کریں۔

(أصول الكافی: جلد،1 صفحہ، 106 كتاب التوحيد، ح، 12 باب البداء، التوحيد ابنِ بابويه: صفحہ، 325 ح، 7 باب البداء، بحار الأنوار: جلد، 4 صفحہ، 108 ح، 26)

یہ عقیدہ شیعہ علماء کے نزدیک متفقہ عقیدہ ہے وہ کہتے ہیں شیعہ علماء نے البداء کو اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

(باب البداء والنسخ اور أوائل المقالات: صفحہ، 46 القول فی الرجمعة والبداء و تاليف القرآن)

محترم مسلمان بھائی! مزید حوصلے سے سنو! شیعہ نے سیدن ابو الحسنؒ پر بہتان بازی کرتے ہوئے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ابو جعفرؒ کے بعد ابو محمدؒ کے بارے میں وہ معلومات ملیں جو انہیں پہلے معلوم نہ تھیں۔

(شرح أصول الكافی: جلد، 6 صفحہ، 222 باب الأشارة والنص على أبی محمد)

 تعلیق:

اے شیعہ مولویو! کیا تم اللہ کے اس فرمان میں غور نہیں کرتے:

مَا لَـكُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلّٰهِ وَقَارًا‌۞ وَقَدۡ خَلَقَكُمۡ اَطۡوَارًا۞ اَلَمۡ تَرَوۡا كَيۡفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۞ وَّجَعَلَ الۡقَمَرَ فِيۡهِنَّ نُوۡرًا وَّجَعَلَ الشَّمۡسَ سِرَاجًا‏۞ وَاللّٰهُ اَنۡۢبَتَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ نَبَاتًا۞ ثُمَّ يُعِيۡدُكُمۡ فِيۡهَا وَيُخۡرِجُكُمۡ اِخۡرَاجًا‏۞ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الۡاَرۡضَ بِسَاطًا۞ لِّتَسۡلُكُوۡا مِنۡهَا سُبُلًا فِجَاجًا۞

(سورۃ نوح: آیت، 13، 20)

ترجمہ: تمہیں کیا ہوا ہے کہ اللہ کے لیے وقار کا عقیدہ نہیں رکھتے ؟ حالانکہ اس نے تمہیں کئی مرحلوں میں پیدا کیا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے سات آسمان تہ بہ تہ کیسے تخلیق کیے؟ اور اس نے ان میں چاند کو روشن اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ ہی نے تمہیں زمین سے (خالص انداز سے) اگایا پھر وہ تمہیں اس میں لوٹائے گا اور پھر تمہیں (دوبارہ) نکالے گا اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا بنایا تا کہ تم اس کی کھلی راہوں میں چلو۔

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَا قَدَرُوْا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖ وَالۡاَرۡضُ جَمِيۡعًا قَبۡضَتُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطۡوِيّٰتٌۢ بِيَمِيۡنِهٖ‌ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ۞

(سورۃ الزمر: آیت، 67) 

ترجمہ: انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے، اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے وہ پاک ہے اور اس شرک سے بالا تر ہے جو وہ کرتے ہیں۔

بلاشبہ تمہارا یہ عقیدہ جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ اس جیسی اللہ کی کوئی عبادت نہیں ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جاہل ہیں (نعوذ باللہ) حالانکہ تم نے اپنے ائمہ کے بارے میں ابو عبداللہؒ پر الزام تراشی کرتے ہوئے یہ عقیدہ گھڑا ہے کہ بے شک امام جب چاہتا ہے کہ کسی کا علم حاصل کر لیتا ہے۔

(بصائر الدرجات الكبرىٰ: جلد، 2 صفحہ، 102 ح، 2 باب فی الامام بانه ان شاء ان يعلم علم أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 186 كتاب الحجة، ح، 1 باب أن الأئمه اذا شاؤا ان يعلموا علموا)

لاجواب جواب:

کلینی منصور بن حازم سے روایت کرتا ہے کہ اس نے ابو عبداللہؒ سے پوچھا کیا ایسی چیز ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں آج ہو اور کل اس کے علم میں نہیں تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں جو شخص یہ بات کرے تو اللہ اسے ذلیل و رسوا کرے۔ میں نے عرض کی کیا ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے یا جو کچھ تا قیامت ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں سے نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں؟ اسے تمام چیزوں کا علم ان کی پیدائش سے پہلے تھا۔

(اصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 106 كتاب الحجة ح، 11 باب البداء، اور بحار الانوار: جلد، 4 صفحہ، 89 ح، 29 باب العلم و كيفيته)

اے شیعو! تمہارے لیے ذلت اور شرم و بے حیائی اتنی ہی کافی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گستاخانہ عقیدہ رکھتے ہو جب کہ اپنے ائمہ کو اس عیب سے پاک اور منزہ قرار دیتے ہو۔