شیعہ کے درج بالا عقائد کی روشنی میں ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آج تمہارا امام کہاں ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ کے درج بالا عقائد کی روشنی میں ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آج تمہارا امام کہاں ہے؟
جواب: شیعہ کے گیارہویں سیدنا حسن عسکریؒ 240ھ میں بے اولاد فوت ہو گئے تھے۔ شیعہ کتابوں میں یہ اعتراف موجود ہے کہ سیدنا حسن عسکریؒ کا کوئی بیٹا دکھائی نہیں دیا اور ظاہرین میں بھی ان کے کسی بیٹے کا کچھ علم نہیں ہے۔ اس لیے ان کی وراثت ان کے بھائی جعفر اور ان کی والدہ نے تقسیم کر لی تھی۔
(فرق الشيعة: صفحہ، 96 تواريخ الحسن العسكرى اور المقالات و الفرق: صفحہ، 102)
حسن عسکریؒ کی وفات پر شیعہ علماء پریشان ہو گئے کیونکہ وہ بے اولاد فوت ہو گئے تھے اور ان کی جانشینی میں شدید اختلاف کی وجہ سے ان کے متعدد فرقے بن گئے۔ نوبختی (فرق الشيعة: صفحہ، 126 افتراق اصحاب الحسنؓ بعد وفاته لی اربع عشرة فرقة)
(الفصول المختارة: صفحہ، 320 فصل، افتراق الشيعه بعد موت الامام العسكری و تعداد الفرق) اور مفید کے مطابق چودہ فرقے بنے تھے قمی۔ (المقالات والفرق: صفحہ، 102) نے تعداد پندرہ لکھی ہے جبکہ مورخ مسعودی نے تعداد بیس بتائی ہے۔
(مروج الذهب: جلد، 4 صفحہ، 217، الامام الثانی عشر)
حتیٰ کہ بعض شیعہ علماء نے کہا کہ امامت منقطع ہو گئی ہے۔
(المقالات والفرق: صفحہ، 108، بحار الانوار: جلد، 51 صفحہ، 217 ابواب النصوص من الله تعالىٰ و من آبائه باب ذکر الادلة التی ذكرها شيخ الطائفة رحمه الله على اثبات الغيبة)
اور یہ بھی کہا گیا کہ بے شک حسن عسکریؒ کے بعد امامت باطل ہوگئی اور تمام ائمہ ختم ہو گئے اور اب زمین میں آلِ محمد سے کوئی حجت باقی نہیں ہے۔
(الفصول المختارة: صفحہ، 320 فصل افتراق الشيعة بعد وفاة الامام العسكری، بحار الانوار: جلد، 37 صفحہ، 22 باب فی ذكر مذاهب الذين خالفوا الفرقة المحقة فی القول بالائمة الاثنى عشر صلوات الله عليهم)
اس طرح قریب تھا کہ حسن عسکریؒ کا بے اولا دفوت ہونا مذہب شیعہ، شیعوں اور تشیع کے خاتمے کا سبب بن جاتا کیونکہ مذہب شیعہ کا اہم ستون امام ختم ہو گیا تھا۔ لیکن عقیدہ غیبیت (امام کی روپوشی) نے شیعہ مذہب کوئی اساس فراہم کر دی اور شیعہ علماء عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو گئے اور شیعیت کی مسمار ہوتی عمارت ایک مرتبہ پھر قائم ہوگئی۔ لہٰذا حسن عسکریؒ کے روپوش بیٹے کی امامت پر ایمان لانا مذہب شیعہ کا بنیادی عقیدہ بن گیا جس پر اب نئی عمارت قائم ہونی تھی اس عقیدے کو شیعہ علماء نے شدید اضطراب اور مشکلات کے بعد قبول کر لیا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا صرف اس عقیدے کی بنیاد پر شیعہ مذہب کی سیاہ کاریوں کو تحفظ دیا جا سکتا تھا اور اسے مٹنے سے بچایا جا سکتا تھا اگر شیعہ علماء کا پہلا شیخ عبداللہ بن سبا یہودی وہ شخص ہے جس نے امامتِ علی پر نص ہونے کا عقیدہ گھڑا جس پر مذہب شیعہ کی بنیاد ہے تو پھر ایک اور ابنِ سبا بھی ہے جس نے حسن عسکریؒ کے بے اولا دفوت ہونے کی وجہ سے امامت حسی طور پر ختم ہوگئی تو امامت کے عقیدے کا بدل ڈھونڈا ممکن ہے یہ نعم البدل تراشنے والے کئی لوگ ہوں لیکن ان سب میں مشہور و معروف شخص جس نے امام کے روپوش ہونے کا عقیدہ تر اشاوہ ابو عمر عثمان بن سعید العمری الاسدی العسکری ہے، جو 280ھ میں فوت ہوا۔ شیعہ حضرات اس کو عادل، ثقہ اور امانت دار راوی شمار کرتے ہیں۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 240 فصل فی ذكر طرف من أخبار السفراء الذين كانوا فی حال الغيبة)
اس کا دعویٰ ہے کہ سیدنا حسنؒ کا ایک بیٹا ہے جو چار سال کی عمر میں روپوش ہو گیا تھا۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 283 فصل: فيما ذكر فی بيان مقدار عمره عليه السلام)
شیعہ کے استاد مجلسی کا کہنا ہے کہ اکثر روایات کے مطابق اس کی عمر پانچ سال سے چند مہینے کم یا ایک سال کم یا کئی ماہ کم تھی۔
(بحار الأنوار: جلد، 25 صفحہ، 103 ح، 6 باب أحوالهم عليهم السلام فی السن)
شیعہ کے اس دعویٰ کے باوجود خود شیعی کتابوں کے مطابق یہ بچہ اپنے والد حسن کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوا اور نہ حسن عسکریؒ کی وفات کے بعد شیعوں کو اسکا علم تھا۔
(الاشاد: صفحہ، 345 فصل، فی ذكر وفاة أبی محمد الحسن بن على عليها السلام و موضع قبره و ذكر ولده كشف الغمة: جلد، 3 صفحہ، 176 باب وفاة أبی محمد الحسن بن على عليهما السلام و موضع قبره و ذكر والده)
لیکن یہ عثمان بن سعید اکیلے کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بیٹے کوجانتا ہے اور وہ امام کا وکیل ہے جو شیعوں سے مال و منال وصول کرے گا اور امام کی طرف سے ان کے سوالات کے جوابات دے گا۔؟
تبصره:
یہ کیسا طرفہ تماشا ہے کہ شیعہ علماء کا دعویٰ ہے کہ وہ امام معصوم کے سوا کسی کا قول قبول نہیں کرتے حتی کہ انہوں نے امام معصوم کے بغیر اجماع کا انکار کیا ہے۔ لیکن اس مسئلے میں جو شیعہ مذہب کا اہم ترین عقیدہ ہے، ایک غیر معصوم شخص کا دعویٰ قبول کر رہے ہیں۔ اس قسم کے دعوے دیگر شیعوں نے بھی کیے ہیں۔ ان میں سے ہر شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ امام غائب کا دربان اور نائب ہے اس طرح یہ نذرانے خور آپس میں شدید لڑائی جھگڑا کرنے لگے۔ ان میں سے ہر شخص امام منتظر کا حکم نامہ نکالتا جس میں اس کے مخالفین پر شدید لعن طعن اور تکذیب ہوتی مجلسی نے ان میں سے چند کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا ہے اور اس پر عنوان لگایا ہے ان مذموم افراد کا تذکرہ جنہوں نے امام غائب کا دربان اور سفیر ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہے، ان پر اللہ کی لعنت ہو۔
(بحار الأنوار: جلد،51 صفحہ، 367 باب ذكر المذمومين الذين ادعوا البابية والسفارة كذبا و افتراء لعنهم)
بلکہ عثمان اور اس کے پیروکار نے امام غائب کے نام کو ظاہر کرنے سے اور اس کے مقام کو افشا کرنے سے صاف انکار کیا ہے اور یہ بات تو ظاہر ہے (کیونکہ امام کا نام اور جگہ) بتانے سے سارا ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ابو عبدالله الصالحی کہتا ہے: ہمارے اصحاب نے ابو عبداللہؒ کے جانے کے بعد مجھ سے سوال کیا کہ میں ان سے امام غائب کا نام اور جگہ معلوم کروں تو جواب ملا اگر تم اس کا نام انہیں بتاؤ گے تو یہ اس کا نام مشہور کر دیں گے اور اگر انہیں اس کی جگہ کا علم ہو گیا تو یہ لوگوں کو بتا دیں گے۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 246، 247 كتاب الحجة: ح، 2 باب النهي عن الاسم وسائل الشيعة: جلد، 11 صفحہ، 260 ح، 7 باب تحريم تسمية المهدى و سائر الائمة عليهم السلام وذكرهم وقت التقية وجواز ذلك مع عدم الخوف)
کلینی نے ابو عبداللہؒ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا اس معاملے کے صاحب کو اس کے نام سے صرف کافر ہی پکارے گا۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 247 كتاب الحجة: ح، 4 باب فی النهى عن الاسم، كمال الدين و تمام النعمة: صفحہ، 587 ح، 1 الباب، 56 النهى عن تسمية القائم )
اور جب حسن عسکریؒ سے پوچھا گیا ہم اسے کسی نام سے یاد کیا کریں؟ تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ تم یوں کہا کرو آلِ محمد صلوات اللہ علیہ وسلامہ کا حجت۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 246 كتاب الحجة: ح، 1 باب النهی عن الاسم)
شیعہ کی رسوائی:
درج بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام غائب کا نام اور جگہ چھپانے کا مقصد اس جھوٹے افسانے کو سو سو پردوں میں چھپانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ کیونکہ شیعہ علماء اس کو چھپانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں جب خود ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جس شخص کو ہم اہلِ بیت کے امام کا علم نہ ہو تو بلاشبہ وہ غیر اللہ کو جانتا ہے اور اسی کی عبادت کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! یہ لوگ اسی طرح گمراہ ہوتے ہیں۔
(أصول لكافی: جلد، 1 صفحہ، 129 كتاب الحجة: ح، 4 باب معرفه الامام والرد اليه)
اور ان کا عقیدہ و ایمان ہے کہ جس انسان کی موت اس حالت میں آ جائے کہ وہ اپنے امام کو نہ پہچانتا ہو تو یقیناً وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
(المحاسن: جلد، 1 صفحہ، 176 للبرقی)
کمر شکن:
چونکہ شیعہ کا عقیدہ اپنے علماء کے من گھڑت جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے ؟ اسی لیے یہ بات بھول گئے کہ انہوں نے پہلے یہ حکم لگایا ہے کہ جو کوئی امام زمانہ کا نام لے گا وہ کافر ہو جائے گا۔ انہوں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مہدی میری اولاد میں سے ہوگا؟ اس کا نام میرے نام پر اور اس کی کنیت میری کنیت پر ہوگی۔ (اعلام الوری: صفحہ، 413)
جس طرح عثمان بن سعید نے امام کے روپوش ہونے کے عقیدہ کا اعلان کیا تھا اسی طرح عثمان کے بعد اس کے بیٹے ابو جعفر محمد بن عثمان (متوفی 304 ھ) نے بھی یہی دعویٰ کیا جس کی وجہ سے شیعہ متعدد فرقوں میں بٹ گئے وہ ایک دوسرے پر شدید لعن طعن کرتے تھے وہ ایک دوسرے سے براءت کا اعلان کرتے اور باہم گالی گلوچ کرتے جس کا مقصد صرف لوگوں کے مال ہڑپ کرنا تھا۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 236 فصل فی ذكر طرف من أخبار السفراء الذين كانوا فی حال الغيبة)
پھر محمد بن عثمان نے اپنے بعد ابو القاسم حسین بن روح النوبختی کو متعین کر دیا اس تقرری سے بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے لوگوں کا مال بٹورنے والے نائین کی جنگ زور پکڑ گئی اور باہمی سب و شتم کی آندھی طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 251 (ة) ذكر اقامة ابى جعفر محمد بن عثمان بن سعيد العمري ابا القاسم الخ)
بالآخر اس جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے ابنِ روح نے امام کے نائب کیلئے علی بن محمد السمری کے حق میں وصیت کر دی۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 264 ذكر أمر السمرى بعد الحسين بن روح و انقطاع الاعلام به و هم الابواب بحار الأنوار: جلد، 51 صفحہ، 107، 108 باب ما ورد من اخبار الله)
السمری اپنے اس منصب پر تین سال فائز رہا اور اسے امام کا نائب وکیل ہونے کے عہدے کی حقارت اور بدمزگی کا اندازہ ہو گیا۔ پھر جب وہ بستر مرگ پر تھا اس سے پوچھا گیا تمہارے بعد تمہارا وصی کون ہوگا؟ تو اس نے جواب دیا سارا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے وہ اپنا کام خود سنبھال لے گا۔
(كمال الدين و تمام النعمة: صفحہ، 397 ح، 12 الباب، 42 ماروى فی ميلاد القائم صاحب الزمان الخ بحار الأنوار: جلد، 51 صفحہ، 361 -ذكر أمر أبی الحسن)
امام مہدی غائب کے ان چار نائبین کے دور کو غیبت صغریٰ کہا جاتا ہے۔ پھر شیعہ علماء نے عقیدہ غیبت کو مزید آگے بڑھایا تو امام کے صرف ایک نائب، جو اس سے براہِ راست ملاقات کرتا تھا، اس کی بجائے انہوں نے امام کے ساتھ براہِ راست ملاقات کے منقطع ہونے کا اعلان کر دیا اور شیعہ کے اداروں نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا جو امام منتظر کے دستخط سے اس کی طرف منسوب کر کے ایک حکم جاری کیا کہ ہر شیعہ مجتہد امام کا نائب ہو گا اس حکم نامے میں لکھا تھا پیش آمدہ حوادثات میں ہمارے راویوں کی احادیث کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم پر میری حجت ہیں اور میں اللہ کی حجت ہوں۔
(كتاب الغيبة: صفحہ، 197 فصل فی طهور المعجزات الدالة على صحة امامته فی زمان الغيبة الخرائج و الجرائح: جلد، 3 صفحہ، 1114 ح، 30 الباب عشرون فی علامات و مراتب نبينا و اوصيانه الاحتجاج للطبرسی: جلد، 2 صفحہ، 470 توقيعات الناحية المقدسة وسائل الشيعة: جلد، 18 صفحہ، 370 ح، 9 باب وجوب الرجوع فيه القضاء)
امام غائب نے انہیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ آخر شیعہ علماء نے یہ کام امام کے نائب السمری کی طرف کیوں منسوب کیا ہے؟
اس کا جواب امام مہدی کے ایک نائب ابوجعفر محمد بن علی الشلمغانی نے یہ دیا ہے کہ جب سے ہم ابو القاسم حسین بن روح کے ساتھ اس (نیابت) دھندے میں داخل ہوئے ہیں ہمیں پورا علم تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں یقینا ہم اس نیابت کے حصول کے لیے اس طرح ٹوٹ پڑتے تھے جس طرح کتے مردار کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔
(اللغيبة للطوسی: صفحہ، 264 بحار الأنوار: جلد، 51 صفحہ، 359 ذكر اقامة أبی جعفر محمد بن عثمان)
جی ہاں! امام کی غیوبت کا مسئلہ مذہب شیعہ کے بنیادی ارکان میں سے ہے جس نے بہت سارے شیعہ علماء کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ اس کی وجہ امام کے بارے میں شک اور روپوشی کی طوالت، اس کی خبروں کا انقطاع وغیرہ ہے ان اسباب کی بنا پر ان کی پریشانی کچی ہے۔ شیعہ کے عالم ابنِ بابویہ امی کہتا ہے میں نیسا پور واپس جا کر وہاں رہائش پذیر ہو گیا۔ تو میں نے نوٹ کیا کہ ہمارے پاس آنے والے اکثر شیعہ امام کی روپوشی سے سخت پریشان اور مضطرب ہیں اور امام قائم کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
(كمال الدين وتمام النعمته: جلد، 1 صفحہ، 14 المقدمة بحار الأنوار: جلد، 1 صفحہ، 73 فصل الخامس فی ذكر بعض)
تعلیق:
اہلِ انصاف قارئین کرام! امام غائب کے مسئلہ میں یہ شک و شبہ تو ان کے شیخ ابنِ بابویہ قمی (متوفی 381ھ) کے زمانہ میں پایا جاتا ہے تو پھر اب اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد ان کے شکوک و شبہات کا کیا عالم ہو گا۔