مسلمان مرد اور کافرہ عورت کا نکاح
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ
- ایک شخص نے کافر عورت کو پیغام نکاح دیا (اور اس نے اسلام لانے کا وعدہ بھی لیا) اس نے پیام قبول کر لیا، اس نے اس کے گھر جا کر یوں ہی نکاح کر لیا اور اسے اپنے گھر لے کر واپس ہوا۔ تو صرف کلمہ اسلام پڑھایا اور دوبارہ نکاح کیا۔ تو اس کافرہ کا کلمہ ایمان معتبر ہو گا یا نہیں؟ نیز ایسے پیغام دینے دینے والے شخص پر شریعت کا کیا حکم ہے؟
- ایک سنی مسلمان نے دو سنی مسلمان گواہوں کی موجودگی میں کافرہ عورت سے نکاح کیا تو کیا اس کافرہ عورت کو ایمان پیش کرنے کے ساتھ دوبارہ نکاح پڑھانے کی ضرورت پڑے گی یا صرف اس کا ایمان لانا نکاح اول کی بقاء کے لئے کافی ہوگی؟
جواب 1: کافرہ عورت کو پیغام نکاح دے کر ایجاب و قبول کیا اور اس طرح اس کو تصرف میں لایا تو از ابتداء تا انتہاء اس کی حرکت معصیت و گناہ ہوئی اور وہ فاسق اور معصیت کار ہوا، اور اس سلسلے میں کسی کفر کا ارتکاب کیا تو کافر ہو گیا، اور اگر معصیت سے بچتے ہوئے اس ارادے سے اس نے پیغام دیا اور اس سے عقد کیا کہ پھر مسلمان بنا کر اسلامی طریقے سے اسے اپنے نکاح میں لاویگا اور اسی کے موافق عمل در آمد بھی کیا تو جرم و گناہ کا مرتکب نہ ہوا۔
حدیث شریف میں ہے۔ اِنَّمَا الاَعمَالُ بِالنِّيَّات
اسلام لانے کیلئے کفر سے توبہ و برأت ضروری ہے، برأت کا اظہار کبھی یوں بھی ہوتا ہے جیسے یہاں کا کوئی ہندؤ کہے کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں مجھے مسلمان کر لیا جائے تو کلمہ پڑھانا کافی ہے۔
اور اگر خاص کفر بکا تھا یا کلمہ پڑھتے وقت یہ سمجھ ہی نہ سکی کہ میں مسلمان ہو رہی ہوں، یوں ہی یہ سمجھے کہ مجھے کلمہ شہادت پڑھوایا اور اس نے پڑھ دیا تو مسلمان نہ ہوئی۔
2: کافرہ اہلِ کتاب نہ ہو تو اس کا نکاح مسلمان کے ساتھ صحیح نہیں، اور مرتدہ ہو تو اس کا نکاح کافر یا مسلمان کسی کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اسلام لانے کے بعد اس کا نکاح دوبارہ پڑھانا ضروری ہے۔
(فتاویٰ بحر العلوم: جلد، 4 صفحہ، 170)