Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار محاربین سے دوستانہ تعلق ناجائز اور حرام ہیں جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ اور ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے مفسدوں سے اقتصادی و معاشرتی مقاطعہ ک


کفار محاربین سے دوستانہ تعلق ناجائز اور حرام ہیں جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ اور ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے مفسدوں سے اقتصادی و معاشرتی مقاطعہ کرنا ظلم نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوہ رسول اللہﷺ ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین حسب ذیل مسئلہ میں کہ کوئی شخص باجماعت کسی داعی نبوت کا ذبہ پر ایمان لانے کی وجہ سے باتفاق اُمت دائرہ اسلام سے خارج ہو اور ان کا کفر یقینی اور شک و شبہ سے بالاتر ہو ،اس کے علاوہ ان میں حسب ذیل وجوہ بھی موجود ہوں.

(1) وہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے عقائد پر ڈاکہ ڈالتے ہوں اور تمام عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوں۔

(2) مسلمانوں کو جانی اور مالی ہر طرح کی ایذا پہچانے میں تامقدور کوتاہی نہ کرتے ہوں.

(3) ان کی مادی قوت اور مالی وسائل میں روز افزوں ترقی کا تمام تر انحصار مسلمانوں کے استحصال پر ہوں ان کے کار خانے اور انڈسٹریاں مسلمانوں کے ذریعہ چلتی ہوں اور وہ اسلامی ملک کے تمام کلیدی مناصب پر فائز اور معاشی وسائل پر قابض ہونے کی کوشش کررہے ہوں۔

(4) دشمنِ اسلام بیرونی طاقتوں یہودی اور مسیحی حکومتوں اور ہندوستان کی اسلام دشمن حکومت سے ان کے روابط ہوں الغرض مسلمانوں کے لیے دینی معاشی اقتصادی اور معاشرتی اعتبار سے ان کا طرز عمل سنگین خطرات کا باعث ہو بلکہ ان کی وجہ سے ایک اسلامی مملکت کو بغاوت و انقلاب کے خطرات تک لاحق ہوں۔

(5) حکومت یا حکومت کی سطح پر یہ توقع نہ ہو کہ اس فتنہ سے ملک و ملت کو بچانے کی کوئی تدبیر کی جائیگی اور یہ امید نہ ہو کہ جس شرعی سزا کے وہ مستحق ہیں وہ ان پر جاری ہو سکے گی اندریں حالات بے بس مسلمانوں کو اس فتنہ کی روک تھام کے لئے کیا کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں شرعی طور پر ان پر کیا فریضہ عائد ہوتا ہے کیا ان حالات میں اس جماعت یا فرد کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر قدغن لگانے کے لئے حسب ذیل امر کے جواز یا وجوب کی شرعاً کوئی صورت ہے کہ ۔۔۔

(الف) امت اسلامیہ اس فرد یا جماعت کے ساتھ برادرانہ تعلقات منقطع کرے۔

(ب)ان سے سلام وکلام میل جول نشست و برخاست شادی و غمی میں شرکت نہ کی جائے بلکہ معاشرتی سطح پر ان سے مکمل طور پر قطع تعلق کیا جائے.

(ج) ان سے تجارت لین دین اور خرید و فروخت کی جائے یا نہیں؟

(د) ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں سے مال خریدا جائے یا ان کا مکمل اقتصادی مقاطعہ کیا جائے۔

(ھ)ان کی تعلیم گاہوں ہوٹلوں ریستورانوں میں جانا جائز ہے یا نہیں.

(و) ان سے رواداری برتی جائے یا نہیں؟

(ز) ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات استعمال کی جائیں یا نہیں؟ غرض ان سے مکمل سوشل بائیکاٹ یا مقاطعہ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ کیا تمام مسلمانوں کو بھی شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ انہیں راہ راست پر لانے کے لئے ان کا بائیکاٹ کریں۔ جبکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ اصلاح موجود نہ ہو۔

جواب: بلاشبہ قرآن کریم کی وحی قطعی رسول اللہﷺ کی احادیث متواترہ اور امت محمدیہ کے قطعی اجماع سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ آخری پیغمبر ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے رسول اللہﷺ کے بعد ہر نبوت کا مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے اور جو شخص اس مدعی نبوت کی تصدیق کرے اور اسے مقتدا اور پیشوا مانے وہ بھی کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

اس کفرو ارتداد کے ساتھ اگر اس میں وجوہ مذکورہ فی السول میں سے ایک وجہ بھی موجود ہو تو قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ اور فقہ اسلامی کے مطابق وہ اسلامی اخوت اور اسلامی ہمدردی کا ہرگز مستحق نہیں مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ سلام کلام نشست و برخاست اور لین دین وغیرہ تمام تعلقات ختم کردیں کوئی ایسا تعلق یا رابطہ اس سے قائم کرنا جس سے اس کی عزت و احترام کا پہلو نکلتا ہو یا اس کو قوت و آسائش حاصل ہوتی ہو جائز نہیں۔ کفارِ محاربین اور اعدائے اسلام سے ترکِ موالات کے بارے میں قرآن کریم کی بےشمار آیات موجود ہیں اسی طرح احادیثِ نبویہﷺ اور فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

یہ واضح رہے کہ کفار محاربین جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں انہیں ایذا پہنچاتے ہوں اسلامی اصطلاحات کو مسخ کرکے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور مارِ آستین بن کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہوں اسلام ان کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے رواداری کی اُن کافروں سے اجازت دی گئی ہے جو محارب اور رموذی نہ ہوں ورنہ کفارِ محاربین سے سخت معاملہ کرنے کا حکم ہے۔

علاؤہ ازیں بسا اوقات اگر مسلمانوں سے کوئی قابل نفرت گناہ سرزد ہو جائے تو بطور تعزیر و تادیب ان کے ساتھ ترکِ تعلق اور سلام و کلام و نشست و برخاست ترک کرنے کا حکم شریعتِ مطہرہ اور سنتِ نبویﷺ میں موجود ہے چہ جائیکہ کفارِ و محاربین کے ساتھ۔ 

اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان فتنہ پرواز مرتدین پر من بدل دینه فاقتلوه: کی شرعی تعزیر نافذ کرکے اس فتنہ کا قلعہ قمع کرے اور اسلام اور ملتِ اسلامیہ کو اس فتنہ کی یورش سے بچائے 

چنانچہ رسول اللّٰہﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے فتنہ پرواز موزیوں اور مرتدوں سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اور بعد کے خلفاء اور سلاطینِ اسلام نے بھی کبھی اس فریضے سے غفلت اور تساہل پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن اگر مسلمان حکومت اس قسم کے لوگوں کو سزا دینے میں کوتاہی کرے یا اس سے توقع نہ ہو تو خود مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے تاکہ وہ بحیثیت جماعت اس قسم کی سزا کا فیصلہ کریں جو اس کے دائرہ اختیار میں ہوں۔

الغرض ارتداد محاربت بغاوت شرارت نفاق ایذا مسلمانوں کے ساتھ سازش یہود ونصاریٰ و ہنود کے ساتھ سازباز ان سب وجوہ کے جمع ہو جانے سے بلاشبہ مذکور فی السوال فرد یا جماعت کے ساتھ مقاطعہ یا بائیکاٹ نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے اگر مسلمانوں کی جماعت یہ ہیتِ اجتماعی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مقاطعہ یا بائیکاٹ جیسے ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرے گی تو وہ عند اللّٰہ مسئول ہو گی۔

یہ مقاطعہ یا بائیکاٹ ظلم نہیں، بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے عین مطابق ہے کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی محاربت اور ایذا رسانی سے محفوظ کیا جائے، اور ان کی اجتماعیت کو ارتداد و نفاق کی دست بُرو سے بچایا جائے اس کے ساتھ ہی ساتھ خود اِن محاربین کے لئے بھی اس میں یہ حکمت مضمر ہے کہ وہ اس سزا یا تادیب سے متاثر ہو کر اصلاح پذیر ہوں اور کفر و نفاق کو چھوڑ کر ایمان و اسلام قبول کریں، اس طرح آخرت کے عذاب و ابدی جہنم سے ان کو نجات مل جائے ورنہ اگر مسلمانوں کی ہیت اجتماعی ان کے خلاف کوئی تدبیر اقدام نہ کرے تو اپنی موجودہ حالت کو مستحسن سمجھ کر اس پر مُصِر رہیں گے، اور اس طرح اَبدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔

رسول اللّٰہﷺ نے مدینہ پہنچ کر ابتداء یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا کہ کفار مکہ کے قافلوں پر حملہ کر کے ان کے اموال پر قبضہ کیا جائے تا کہ مال اور ثروت سے ان کو جو طاقت اور شوکت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے جس کے بل بوتے پر وہ مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں اور مختلف سازشیں کرتے ہیں قتلِ نفس اور جہاد بالسیف سے پہلے مقاطعہ اور دشمنوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی یہ تدابیر اس لئے اختیار کی گئی تھی تا کہ اس سے ان کی جنگی صلاحیت ختم ہو جائے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں آکر کفر کی موت نہ مرے گویا اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ان کے اموال پر قبضہ کر کے ان کی جانوں کو بچایا جائے کیونکہ اموال پر قبضہ ان کی جان لینے سے زیادہ بہتر تھا۔

علاوہ ازیں اس تدبیر میں یہ حکمت و مصلحت بھی تھی کہ کفار مکہ کے لئے غور فکر کا ایک اور موقع فراہم کیا جائے تا کہ وہ ایمان کی نعمت سے سرفراز ہو کر ابدی نعمتوں کے مستحق بن سکیں اور عذابِ اخروی سے نجات پا سکیں لیکن جب اس تدبیر سے کفار و مشرکین کے عناد کی اصلاح نہ ہوئی تو ان کے شر و فساد سے زمین کو پاک کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے جہاد بالسیف کا حکم بھیج دیا گیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ان کی عسکری تنظیم سے مسلمانوں کا مقابلہ کردیا

رسول اللّٰہﷺ کی ابتدائی تدبیر سے امت مسلمہ کو یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ خاص قسم کے حالات میں جہاد باسیف پر عمل نہ ہو سکے تو اس سے اقل (کم) درجے کا اقدام یہ ہے کہ کفارِ محاربین سے نہ صرف اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے بلکہ ان کے اموال پر قبضہ تک کیا جا سکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام مسلمان نہ تو جہاد بالسیف پر قادر ہیں نہ انہیں اموال پر قبضہ کی اجازت ہے اندریں صورت ان کے اختیار میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ان موذی کافروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر کے ان کو معاشرے سے جدا کر دیا جائے۔ 

بدن انسانی کا جو حصہ اس درجہ سڑ گل جائے کہ اس کی وجہ سے تمام بدن کو نقصان کا خطرہ لاحق ہو اور جان خطرہ میں ہو تو اس ناسور کو جسم سے پیوستہ رکھنا دانشمندی نہیں بلکہ اسے کاٹ دینا ہی عین مصلحت و حکمت ہے تمام حکماء اور عقلاء اور اطباء کا اسی پر عمل و اتفاق ہے اور پھر جب یہ موذی کفار مسلمانوں خون چوس چوس کر پل رہے ہوں اور طاقتور بن کر مسلمانوں ہی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے ہوں تو ان سے خرید و فروخت اور لین دین میں مکمل مقاطعہ یا اقتصادی ناکہ بندی کو ایک اہم دفاعی مورچہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے یہ کوئی سیاسی حربہ نہیں بلکہ اُسوۂ نبی اور سنت رسولﷺ اور ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے اسلام کی غیرت ایک لمحے کے لئے یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی نوعیت کا کوئی تعلق اور رابطہ رکھا جائے۔

اب ہم آیات قرآنیہ احادیث نبویہﷺ اور فقہائے امت اسلامیہ کے وہ نقول پیش کرتے ہیں جن سے اس مقاطعہ کا حکم واضح ہوتا ہے۔


(1) اذا سمعتم ايات الله يفكر بها يستهزا بها فلا تقعدوا معهم جب سنو تم کہ اللہ کی آ یتوں کا انکار کیا جارہاہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کر دو۔

(2)واذا رأيت الذين يخرصون في اياتنا فاعرض عنهم: اور جب تم دیکھو ان لوگوں جو مذاق اڑاتے ہیں ہماری آیتوں کا تو ان سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر جصاص الرازیؒ لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ملاحدہ اور سارے کافروں سے ان کے کفر و شرک اور اللّٰہ پر ناجائز باتیں کہنے کی روک نہ کر سکیں تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کر دیں۔

(3) ياايها الذين امنوا لا تتخذوا اليهود والنصاري اولياء: اے ایمان والو تم یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ۔ 

اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر جصاص الرازیؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت ہے کہ کافر مسلمانوں کا ولی دوست نہیں ہو سکتا نہ تو معاملات میں اور نہ امداد و تعاون میں اور اس سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کافروں سے برات اختیار کرنا اور ان سے عداوت رکھنا واجب ہے کیونکہ ولایت عداوت کی ضد ہے اور جب ہم کو یہود و نصاریٰ سے ان کے کفر کی وجہ سے عداوت رکھنے کا حکم ہے دوسرے کافر بھی انہی کے حکم میں ہیں سارے کافر ایک ہی ملت ہے۔

(4) سورة الممتحنه: کا موضوع ہی کفار سے قطع تعلق کی تاکید ہے اس سورت میں بہت سختی کے ساتھ کفار کی دوستی اور تعلق سے ممانعت کی گئی ہے اگرچہ رشتہ دار قرابت دار ہوں اور فرمایا کہ قیامت کے دن تمہارے یہ رشتے کام نہیں آئیں گے اور یہ کہ جو لوگ آئندہ کفار سے دوستی اور تعلق رکیں گے وہ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے اور ظالم شمار ہوں گے۔

(5) لا تجدقو ما يؤمنون باللّٰه واليوم الآخر يوادون من هاداللّٰه و رسوله ولو كانو اباءھم او اخوانهم او عشيرتهم: تم نہ پاؤ گے کسی قوم کو جو یقین رکھتی ہو اللّٰہ پر اور آخرت پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کے خواہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں بھائی ہوں یا خاندان والے ہوں۔

آگے چل کر اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو جو باوجود قرابت داری کے محارب کافروں سے دوستانہ تعلقات ختم کر دیتے ہیں سچا مومن کہا گیا ہے انہیں جنت اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی بشارت سنا دی گئی ہے اور ان کو حزب اللّٰہ کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہﷺ کے دشمن موذی کافروں سے تعلقات رکھنا ان سے گھل مل کر رہنا اور انہیں کسی قسم کی تقویت پہنچانا مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا۔

 میرے محترم قارئین کرام!

بطور مثال ان چند آیات کا تذکرہ کیا گیا ہے ورنہ بےشمار آیات کریمہ اس مضمون کی موجود ہیں۔

اب چند احادیث نبویہﷺملاحظہ فرمائیں:


(1) جامع ترمذی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 195 پر ایک حدیث میں سیدنا سمرہ بن جندبؓ سے مروی ہے کہ حکم دیا گیا ہے کہ مشرکوں اور کافروں کے ساتھ ایک جگہ سکونت بھی اختیار نہ کریں ورنہ مسلمان بھی کافروں جیسے ہوں گے۔

(2) ترمذی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 193 پر ایک حدیث میں جو سیدنا جریر بن عبداللّٰہ البجلیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا یعنی آپﷺ نے اظہار برات فرمایا ہر اس مسلمان سے جو محارب کافروں میں سکونت پذیر ہوں۔

(3) صحیح بخآری کی ایک حدیث میں قبیلہ عکل اور عرینہ کے آٹھ نو اشخاص کا ذکر ہے جو مرتد ہو گئے تھے ان کے گرفتار ہونے کے بعد رسول اللّٰہﷺ نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور ان کی آنکھوں میں گرم کرکے لوہے کی کیلیں پھیر دی جائیں اور ان کو مدینہ طیبہ کے کالے کالے پتھروں پر ڈال دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، یہ لوگ پانی مانگتے تھے لیکن پانی نہیں دیا جاتا تھا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ پیاس کے مارے زمین چاٹتے تھے مگر انہیں پانی دینے کی اجازت نہ تھی۔

امام نوویؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ محارب مرتد کا پانی وغیرہ پلانے میں کوئی احترام نہیں چنانچہ جس شخص کے پاس صرف وضو کے لئے پانی ہو تو اس کو اجازت نہیں ہے کہ پانی مرتد کو پلا کر تیمم کرے بلکہ اس کے لئے حکم ہے کہ پانی مرتد کو نہ پلائے اگرچہ وہ پیاس سے مرجائے بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے۔

(فتح الباری:جلد:1:صفحہ:241)

(4) غزوہ تبوک میں تین بڑے صحابہ سیدنا کعب بن مالکؓ سیدنا بلال بن امیہؓ سیدنا واقفی بدریؓ اور سیدنا مرارہ بن ربیعؓ سیدنا بدری عمریؓ کو غزوہ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے سخت سزا دی گئی آسمانی فیصلہ ہوا کہ ان تینوں سے تعلقات ختم کر لئے جائیں ان سے مکمل مقاطعہ کیا جائے کوئی شخص ان سے سلام و کلام نہ کرے حتیٰ کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی ان سے علیحدہ ہو جائیں اور ان کے لئے کھانا بھی نہ پکائیں یہ حضرات روتے روتے نڈھال ہو گئے اور حق تعالیٰ کی وسیع زمین ان پر تنگ ہو گئ پورے پچاس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر اللّٰہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور معافی ہو گئی۔

قاضی ابوبکر ابن العربیؒ لکھتے ہیں کہ اس قصہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ امام کو حق حاصل ہے کہ کسی گنہگار کی تادیب کیلئے لوگوں کو اس سے بول چال کی ممانعت کر دے اور اس کی بیوی کو بھی اس کے لیے ممنوع ٹھرا دے۔

(احکام القرآن لان العربی:جلد، 2 صفحہ، 1026)

حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ گنہگار کو سلام نہ کیا جائے اور یہ کہ اس سے قطع تعلق تین روز سے زیادہ بھی جائز ہے۔

بہرحال سیدنا کعب بن مالکؓ اور ان کے رفقاء کا یہ واقعہ قرآن کریم کی سورہ توبہ میں واقع ہے اور اس کی تفصیل صحیح بخآری صحیح مسلم اور تمام صحاح ستہ میں موجود ہے۔

امام ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن ابی داؤد میں کتاب السنہ کے عنوان کے تحت متعدد ابواب قائم کئے ہیں۔

(الف) اہلِ اہواء باطل پرستوں سے کنارہ کشی کرنے اور بغض رکھنے کا بیان۔

(جلد، 2 صفحہ، 276)

(ب) اہلِ اہواء سے ترک سلام و کلام کا بیان۔

(جلد، 2 صفحہ، 276)

سنن ابی داؤد میں حدیث ہے کہ سیدنا عمار بن یاسرؓ نے خلوق (زعفران) لگایا تھا رسول اللّٰہﷺ نے ان کو سلام کا جواب نہیں دیا۔

غور فرمائیے! کہ معمولی خلافِ سنت بات پر جب یہ سزا دی گئی تو ایک مرتد موذی اور کافر محارب سے بات چیت سلام و کلام اور لین دین کی اجازت کب ہو سکتی ہے۔

امام خطابی صاحب معالم السنن جلد 4 صفحہ 296 میں حدیث کعبؓ کے سلسلے میں تصریح فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی اگر ترکِ تعلق دین کی وجہ سے ہو تو بلا قید ایام کیا جا سکتا ہے، جب تک توبہ نہ کریں۔

(5) مسند احمد و سنن ابی داؤد میں سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا تقدیر کا انکار کرنے والے اس امت کے مجوسی ہیں اگر بیمار ہوں تو عیادت نہ کرو اور اگر مر جائیں تو جنازہ نہ پڑھاؤ 

(سنن ابی داؤد:جلد، 2 صفحہ، 288)

(6) ایک اور حدیث میں ہے کہ منکرین تقدیر کے ساتھ نہ نشست و برخاست رکھو اور نہ ان سے گفتگو کرو

(7) سنن کبری بیہقی میں ہے سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ کنگ بدر میں رسول اللّٰہﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ بدر کے کنوؤں کا پانی خشک کر دوں اور ایک روایت میں ہے کہ سوائے ایک کنویں کے جو بوقتِ جنگ ہمارے کام آئے گا باقی سب کنویں خشک کر دئیے جائیں۔

صحیح بخآری میں ہے کہ سیدنا علیؓ کے پاس چند بددین زندیق لائے گئے تو آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا سیدنا ابن عباسؓ کو اس کی اطلاع پہنچی تو فرمایا اگر میں ہوتا تو انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللّٰہﷺ نے منع فرمایا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کی سزا مت دو بلکہ انہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا من بدل دينه فاقتلوه: جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔

صحیح بخآری میں سیدنا صعب بن جثامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ سے سوال کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں مشرکین پر حملہ ہوتا ہے تو عورتیں اور بچے بھی زد میں آ جاتے ہیں رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا وہ بھی انہی میں شامل ہیں۔

بہرحال یہ تو رسول اللّٰہﷺ کے ارشادات مبارکہ ہیں عہد نبوت کے بعد عہد خلافتِ راشدہ میں بھی اسی طرز عمل کا ثبوت ملتا ہے مانعین زکوٰۃ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ کا اعلان جہاد کرنا بخآری و مسلم میں موجود ہے مسیلمہ کذاب اسود عنسی طلیحہ اسدی اور ان کے پیروؤں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے حدیث و سیر کا معمولی طالبِ علم بھی واقف ہے۔

عہد فاروقیؓ میں ایک شخص: صبیغ عراقی: قرآن کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرنے لگا جن میں ہوائے نفس کو دخل تھا اور ان سے مسلمانوں کے عقائد میں تشکیک کا راستہ کھلتا تھا یہ شخص فوج میں تھا جب عراق سے مصر گیا اور سیدنا عمرو بن عاصؓ گورنر مصر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے سیدنا عمرؓ کے پاس مدینہ بھیجا اور صورت حال لکھی سیدنا عمرؓ نے نہ اس کا مؤقف سنا نہ دلائل، سے بحث و مباحثہ میں وقت ضائع کئے بغیر اس کا علاج بالجرید ضروری سمجھا فوراً کھجور کی تازہ ترین شاخیں منگوائی اور اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر بےتحاشا مارنے لگے اتنا مارا کہ خون بہنے لگا وہ چیخ اٹھا کہ امیر المومنین آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی کیجئے تلوار لے کر میرا قصہ پاک کر دیجیۓ اور اگر صرف میرے دماغ کا خناس نکالنا مقصود ہے تو آپ کو اطمینان دِلاتا ہوں کہ اب وہ بھوت نکل چکا ہے۔ اس پر سیدنا عمرؓ نے اسے چھوڑ دیا اور چند دن مدینہ رکھ کر واپس عراق بھیج دیا اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔

اس مقاطعہ سے اس شخص پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا تو سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نےسیدنا عمرؓ کو لکھا کہ اس کی حالت ٹھیک ہو گئی ہے تب سیدنا عمرؓ نے لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی۔ 

*اب فقہ کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:*

(1) علامہ دردیر مالکیؒ شرح کبیر جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 299 پر باغیوں کے احکام میں لکھتے ہیں کہ ان کا کھانا پانی بند کر دیا جائے الا یہ کہ ان میں عورتیں اور بچے ہوں۔ 

(2) کوئی قاتل اگر حرم مکہ میں پناہ گزیں ہو جائے اس سلسلہ میں ابوبکر جصاص رحمہ اللہ احکام القرآن جلد نمبر2 صفحہ نمبر 21 پر لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابویوسف رحمہ اللہ امام زفر رحمہ اللہ اور حسن بن زیاد رحمہ اللہ کاقول ہے کہ جب کوئی حرم سے باہر قتل کرکے حرم میں داخل ہو تو جب تک حرم میں ہے اس سے قصاص نہیں لیاجائے گا مگر نہ اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے نہ اس کو کھانا دیاجائے یہاں تک کہ وہ حرم سے نکلنے پر مجبور ہو جائے

(3) درمختار جلد نمبر:4:صفحہ:نمبر:64 پر ہےناصحی نے فتویٰ دیا ہے کہ ہر موذی کا قتل واجب ہے اور شرح وہبانیہ میں ہے کہ تعزیر، یوں بھی ہو سکتی ہے کہ شہر بدر بھی کردیا جائے اور ان کے مکان کا گھیراؤ کیا جائے انہیں مکان سے نکال باہر کیا جائے اور مکان ڈھا دیا جائے۔

(4) ابنِ عابدین الشامی ردالمختار:جلد نمبر:4:صفحہ نمبر:65 پر لکھتے ہیں کہ احکام السیاستہ میں المنتقی سے نقل کیا ہے کہ جب کسی کے گھر سے گانے بجانے کی آواز سنائی دے تو اس میں داخل ہو جاؤ کیونکہ جب اس نے یہ آواز سنائی تو اپنے گھر کی حرمت کو خود ساقط کردیا ہے اور بزازیہ کی کتاب الحدود نہایہ کے باب الغضب اور درایہ کے کتاب الجنایات میں لکھا ہے کہ صدرالشہید نے ہمارے اصحاب سے نقل کیا ہے کہ جو شخص فسق و بدکاری اور مختلف قسم کے فساد کا عادی ہو ایسے شخص پر اس کا مکان گرا دیا جائے حتیٰ کہ مفسدوں کے گھر میں گھس جانے میں بھی مضائقہ نہیں۔

سیدنا عمرؓ ایک نوحہ گر عورت کے گھر میں گھس گئے اور اس کو ایسا دُرہ مارا کہ اس کے سر سے چادر اتر گئی اور اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حرام میں مشغول ہونے کے بعد اس کی کوئی حرمت نہیں رہی اور یہ لونڈیوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ سیدنا عمرؓ سے یہ بھی مروی ہےکہ آپ نے ایک شرابی کے مکان کو آگ لگا دی تھی صفات زاہدی کہتے ہیں کہ فاسق کا مکان گرا دینے کا حکم ہے۔

(5) ملا علی قاریؒ مرقات شرح مشکوٰۃ جلد نمبر:5 صفحہ نمبر:107 پر باب التعزیر میں لکھتے ہیں اور یہ کہ اس امر کی تصریح ہے کہ مارنا ایسی تعزیر ہے جس کا انسان اختیار رکھتا ہے خواہ محتسب نہ ہو المنتقی میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس قسم کے مقاطعہ کا تعلق درحقیقت بغض فی اللّٰہ سے ہے جس کو حضرت محمدﷺ نے احب الاعمال الحب فی اللّٰہ فرمایا ہے۔

(سنن ابی داؤد:جلد، 2 صفحہ، 76)

بغض فی اللّٰہ کے ذیل میں امام غزالیؒ احیاء العلوم جلد نمبر:2 صفحہ نمبر:268,169 پر بطور کلیہ لکھتے ہیں۔

(اول) کافر، پس کافر اگر حربی ہو تو اس بات کا مستحق ہے کہ قتل کیا جائے یا غلام بنا لیا جائے اور یہ ذلت و اہانت کی آخری حد ہے۔

(دوم) صاحبِ بدعت جو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہے پس اگر بدعت حد کفر تک پہنچی ہوئی ہو تو اس کی حالت کافر ذمی سے بھی سخت تر ہے کیونکہ نہ اس سے جزیہ لیا جا سکتا ہے نہ اس کو ذمی کی حیثیت دی جا سکتی ہے اور اگر بدعت ایسی نہیں جس کی وجہ سے اس کو کافر قرار دیا جائے تو عند اللّٰہ تو اس کا معاملہ کافر سے لا محالہ اُخف (ہلکا) ہے مگر کافر کی بنسبت اس پر نکیر زیادہ کی جائے گی کیونکہ کافر کا شر متعدی نہیں اس لئے کہ مسلمان کافر کو ٹھیٹ کافر سمجھتے ہیں، لہٰذا اس کے قول کو لائقِ التفات ہی نہیں سمجھیں گے الخ۔

ردالمختار جلد نمبر:4 صفحہ نمبر:244 پر قرامطہ کے بارے میں لکھا ہے کہ مزاہب اربعہ سے منقول ہے کہ انہیں اسلامی ممالک میں ٹھہرانا جائز نہیں نہ جزیہ لے کر نہ بغیر جزیہ کے نہ ان سے شادی بیاہ جائز ہے نہ ہی ان کا ذبیحہ حلال ہے حاصل یہ ہے کہ ان پر زندیق منافق اور ملحد کا مفہوم پوری طرح صادق آتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس خبیث عقیدہ کے باوجود ان کا کلمہ پڑھنا انہیں مرتد کا حکم نہیں دیتا کیونکہ وہ تصدیق نہیں رکھتے اور ان کا ظاہری اسلام معتبر ہے جب تک ان تمام امور سے جو دین اسلام کے خلاف ہیں برات کا اظہار نہ کریں کیونکہ وہ اسلام کا دعویٰ اور شہادتین کا اقرار تو پہلے سے کرتے ہیں(مگر اس کے باوجود پکے بے ایمان اور کافر ہیں) اور ایسے لوگ گرفت میں آجائیں تو ان کی توبہ اصلاً قبول نہیں۔

فقہ حنفی کی معتبر کتاب معین الاحکام جلد نمبر 3:صفحہ نمبر:75 پر سلسلہ تعزیر ایک مستقل فصل میں لکھا ہے اور تعزیر کسی معین فعل یا معین قول کے ساتھ مختص نہیں چنانچہ رسول اللّٰہﷺ نے ان تین حضرات (جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور) جن کا واقعہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ذکر فرمایا ہے مقاطعہ کی سزا دی تھی چنانچہ پچاس دن تک ان سے مقاطعہ رہا کوئی شخص ان سے بات تک نہیں کر سکتا تھا ان کا مشہور قصہ صحاحِ ستہ میں موجود ہے نیز رسول اللّٰہﷺ نے جلا وطنی کی سزا بھی دی چنانچہ مخنثوں کو مدینے سے نکالنے کا حکم دیا اور انہیں شہر بدر کر دیا۔اسی طرح آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے بھی مختلف تعزیرات جاری کیں ہم ان میں سے بعض کو جو احادیث کی کتابوں میں وارد ہیں یہاں ذکر کرتے ہیں ان میں سے بعض کے ہمارے اصحاب قائل ہیں اور بعض پر دیگر ائمہ نے عمل کیا:

سیدنا فاروق اعظمؓ نے صبیغ نامی ایک شخص کو مقاطہ کی سزا دی۔یہ شخص الذاریات وغیرہ کی تفسیر پوچھا کرتا تھا اور لوگوں کو فہمائش کیا کرتا تھا کہ وہ مشکلاتِ قرآن میں تفقہ پیدا کریں۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے اس کی سخت پٹائی کی اور اسے بصرہ یا کوفہ جلا وطن کر دیا اور اس سے مقاطہ کا حکم فرمایا۔چنانچہ کوئی شخص اس سے بات تک نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ وہ تائب ہوا اور وہاں کے گورنر نے سیدنا فاروق اعظمؓ کو اس کے تائب ہونے کی خبر لکھ بھیجی،تب سیدنا فاروق اعظمؓ نئے لوگوں کو اجازت دی کہ اس سے بات چیت کر سکتے ہیں۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے جب ایک سائل ایسا دیکھا جس کے پاس قدرِ کفایت سے زائد غلہ موجود تھا،اور وہ بھی سوال کرتا تھا تو سیدنا فاروق اعظمؓ لیں اس سے زائد غلہ چھین کر صدقے کے اونٹوں کو کھلا دیا۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے اس مکان کو جلا دینے کا حکم فرمایا جس میں شراب کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ ہم نے جب رعیت سے الگ تھلگ اپنے گھر ہی میں فیصلہ کرنا شروع کیا تو سیدنا فاروق اعظمؓ نے ان کا مکان جلا ڈالا۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنے عمال کے ماحول کا ایک حصہ ضبط کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نئے نصیر بن حجاج کا سر منڈوا کر اسے مدینہ سے نکال دیا تھا جبکہ عورتوں نے اشعار میں اس کی تشبیب شروع کر دی تھی اور فتنے کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا۔

ایک شخص نے سیدنا فاروق اعظمؓ کی مہر پر جالی مہر بنوائی تھی اور بیت المال سے کوئی چیز لے لی تھی سیدنا فاروق اعظمؓ نے اس کو سو دُرے لگائے اور تیسرے دن بھی سو دُرے لگائے۔امام مالکؒ نے اسی کو لیا ہے چنانچہ اس کا مسلک ہے کہ تعزیر مقدارِ حد سے ذائد بھی ہو سکتی ہے۔

آنحضرتﷺ نے قبیلہ عرنیہ کے افراد کو جو سزا دی (اس کا قصہ صحاح میں موجود ہے) سیدنا صدیق اکبرؓ میں ایک ایسے شخص کے بارے میں جو بد فعلی کراتا تھا صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین سیم مشورہ کیا صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو یہ حکم لکھ بھیجا بعد ازاں سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور سیدنا ہشام بن عبدالمالکؓ نی بھی اپنے اپنے دورِ خلافت میں اس قماش کے لوگوں کو آگ میں ڈالا۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے مرتدین کی ایک جماعت کو آگ میں جلا دیا۔ آنحضرتﷺ میں خیبر کے دن اُن ہانڈیوں کو توڑنے کا حکم فرمایا جن میں گدھوں کا گوشت پکایا گیا تھا پھر صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے آپﷺ صحیح اجازت چاہی کہ انہیں دھو کر استعمال کر لیا جائے؟تو آپﷺ اجازت دے دی۔یہ واقعہ دونوں باتوں کے جواز پر درارت کرتا ہے کیونکہ ہانڈیوں کو توڑ ڈالنے کی سزا واجب نہیں تھی۔اس کے علاؤہ اس نوعیت کے اور بھی بہت سے واقعات اور صحیح اور معروف فیصلے ہیں۔

اور شرح سیرکبیر جلد نمبر:3صفحہ نمبر:75 پر ہیں اور کوئی مضائقہ نہیں کہ مسلمان کافروں کے ہاتھ غلہ اور کپڑا وغیرہ فروخت کریں مگر جنگی سامان اور گھوڑے اور قیدی فروخت کرنے کی اجازت نہیں خواہ وہ امن لے کر ان کے پاس آئے ہوں یا بغیر امان کے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگی قوت حاصل ہو گی اور مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی چیز حلال نہیں جو مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے اور یہ علت دیگر سامان میں نہیں پائی جاتی پھر یہ حکم جب ہے جبکہ مسلمانوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ نہ کیا ہوا ہو لیکن جب انہوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ کیا ہوا ہو تو ان کے لئے مناسب نہیں کہ اہلِ قلعہ کے ہاتھ غلہ یا پانی یا کوئی ایسی چیز فروخت کریں جو ان کے قلعہ بند رہنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ کیونکہ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ اسی لئے تو کیا ہے کہ ان کا رسد و پانی ختم ہو جائے اور وہ اپنے کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پر باہر نکل آئیں پس ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بیچنا ان کے قلعہ بند رہنے میں تقویت کا موجب ہو گا بخلاف گزشتہ بالا صورت کے کیونکہ اہلِ حرب اپنے ملک میں ایسی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں جن کے ذریعہ وہاں قیام پذیر رہ سکیں انہیں مسلمانوں سے خریدنے کی ضرورت نہیں لیکن جو کافر کہ قلعہ بند ہوں اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہو وہ مسلمانوں کے کسی فرد سے ضروریاتِ زندگی نہیں خرید سکتے لہٰذا کسی بھی مسلمان کو حلال ہیں کہ ان کے ہاتھ کسی قسم کی کوئی چیز فروخت کرے جو شخص ایسی حرکت کرے اور امام کو اس کا علم ہو جائے تو امام اسے تادیب و سرزنش کرے کیونکہ اس نے غیر حلال فعل کا ارتکاب کیا ہے۔

مذکورہ بالا نصوص اور فقہائے اسلام کی تصریحات سے حسبِ ذیل اصول و نتائج واضح ہوکر سامنے آجاتے ہیں

(1) کفارِ محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اور حرام ہیں جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ اور ظالم اور مستحقِ عذابِ الیم ہے۔

(2) جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے۔

(3) جو کافر مسلمانوں سے برسرِ پیکار ہوں، ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے۔

(4) مرتد کو سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں یہاں تک کہ اگر پیاس سے جان بلب ہوکر تڑپ رہا ہو تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے.

(5) جو کافر مرتد اور باغی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دانیوں میں مصروف ہوں، ان سے خرید و فروخت اور لین دین ناجائز ہے جبکہ اس سے ان کو تقویت حاصل ہوتی ہو بلکہ ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے ان کی جارحانہ قوت کو مفلوج کر دینا واجب ہے۔

(6) مفسدوں سے اقتصادی مقاطعہ کرنا ظلم نہیں، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوہ رسول اکرمﷺ ہے۔

(7) اقتصادی اور معاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدوں موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں قتل کرنا شہر بدر کرنا ان کے گھروں کو ویران کرنا ان پر ہجوم کرنا وغیرہ 

(8) اگر محارب کافروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے انکی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زد میں آجائیں تو اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔

(9) ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کریں تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار کے اندر ہوں مگر انہیں کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جس سے ملکی امن میں خلل و فساد کا اندیشہ ہو۔

(10) مکمل مقاطعہ صرف کافروں اور مفسدوں سے ہی جائز نہیں بلکہ کسی سنگین نوعیت کے معاملہ میں ایک مسلمان کو بھی یہ سزا دی جا سکتی ہے.

(11) زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر اندرونی طور پر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد پر چسپاں کرتا ہو اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدتر ہے کہ کافر اور مرتد کی توبہ بالاتفاق قابل قبول ہے مگر بقول شامی زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ اس کی توبہ قابلِ التفات ہے الا یہ کہ وہ اپنے تمام عقائدِ خیثہ سے براءت کا اعلان کرے۔

 میرے محترم قارئین:

ان اصول کی روشنی میں زیر بحث فرد یا جماعت کی حیثیت اور ان سے اقتصادی و معاشی و معاشرتی و سیاسی مقاطعہ یا مکمل سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم بالکل واضح ہو جاتا ہے.

(فتاویٰ ختم نبوت:جلد، 2 صفحہ، 459)